مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
ایٹمی طاقت کے25سال
پچیس سال پہلے اسی مئی کے مہینے میں پاکستان اور بھارت دونوں نے اپنی ایٹمی صلاحیت کا اظہار کیا تھا۔ دونوں ملک خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے میں مصروف تھے‘ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی اس کا اعتراف نہیں کر رہا تھا۔ بھارت کو تو عالمی طاقت بننے اور ”ایٹمی کلب‘‘ میں اپنا نام لکھوانے کا جنون تھا‘رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بہت بڑا ملک ہونے کے باوجود وہ اہمیت اور حیثیت حاصل نہیں ہو پا رہی تھی جو وہ اپنا استحقاق سمجھتا تھا۔ امریکہ‘ سوویت یونین‘ چین‘ برطانیہ اور فرانس ایٹمی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے عالمی طاقتوں میں شمار ہوتے تھے جبکہ بھارت دوسری صف میں کھڑا نظر آتا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے دور سے اس نے اپنے ایٹمی عزائم کی افزائش شروع کی اور آگے بڑھتا گیا‘اٹل بہاری واجپائی نے فیصلہ کیا کہ اب معاملہ خفیہ نہ رکھا جائے‘دنیا پر دھاک بٹھائی جائے‘ سو‘ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو ہلا ڈالا‘ ہنگامہ برپا ہو گیا۔واجپائی نے اپنے اور اپنے ملک کے لیے وہ کچھ کر دکھایا‘ جو اُن کے من میں سمایا ہوا تھا۔ وہ مضبوط اعصاب کے وزیراعظم کے طور پر اُبھرے‘ تو بھارت ایک منہ زور ملک کے طور پر نمایاں ہو گیا۔
بھارتی دھماکے پاکستان کے لیے بڑا چیلنج بن گئے۔ برسوں پہلے پاکستان اپنے سے کئی گنا بڑے ہمسایے کے عزائم بھانپ کر اپنا ایٹمی پروگرام شروع کر چکا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد نیا جوش و خروش پیدا ہو گیا۔وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر پاکستان ایٹمی صلاحیت کا مالک ہوتا تو بھارتی جارحیت کا ارتکاب ممکن نہ ہوتا۔پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کی اسے جرأت نہ ہوتی‘ سو انہوں نے عہد کیا کہ گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔سقوطِ ڈھاکہ سے دل گرفتہ ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر جو کہ ہالینڈ میں مقیم تھے‘اور یورینیم کی افزودگی میں مہارت حاصل کر چکے تھے‘ بھی اسی نتیجے پر پہنچے اور اپنی خدمات اپنے وطن کے سپرد کر دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے محروم ہوئے‘دنیا سے رخصت ہوئے‘اُن کی جگہ جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا‘ لیکن ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ نہ کیا اسے جاری رکھا‘یہاں تک کہ یہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ موزوں وقت پر دھماکہ کرنے کے لیے جگہ کا انتخاب بھی کر لیاگیا‘اور وہاں سرنگ بھی کھود لی گئی۔پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے انجینئر اور کارکن برسوں اس سرنگ کی حفاظت کرتے رہے لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔اس سرنگ تک کوئی غیر ملکی یا ملکی آنکھ نہ پہنچ سکی۔اس راز داری کی تفصیل جان کر آج بھی ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔
نواز شریف وزیراعظم بنے تو اٹل بہاری واجپائی نے اُنہیں جوابی دھماکہ کرنے کا نادر موقع فراہم کر دیا۔اگر پاکستان تنہا یہ کام کرتا‘ یا اس میں پہل کرتا تو نہ معلوم کس کس طرح کی اور کیا کیا پابندیاں عائد ہو جاتیں واجپائی کی پہل نے یہ مشکل آسان کر دی‘ اب جو کچھ بھی ہونا تھا‘ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ ہونا تھا‘لیکن عالمی طاقتوں کے لیے یہ سوہانِ روح تھا۔ امریکہ اور برطانیہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنے۔ سوویت یونین کے دل میں بھی کھٹک تھی‘ سو پاکستان پر دبائو بڑھایا جانے لگا‘ آنکھیں دکھائی گئیں اور ترغیب و تحریص سے بھی کام لیا گیا۔ امریکی صدرکلنٹن نے پانچ بار نواز شریف کو فون کیا‘انہیں پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کی‘ برطانوی وزیراعظم بھی رابطہ کرتے رہے‘لیکن نوازشریف نے اپنے اعصاب قابو میں رکھے۔ بھارتی دھماکوں کی خبر ملی‘ تو وہ قازقستان میں ایک کانفرنس کے لیے پہنچے تھے‘ وزیراطلاعات مشاہد حسین سید اُن کے ہمراہ تھے‘ اُنہوں نے فوراً مشورہ داغا‘ میاں صاحب کڑاکے نکال دیجیے‘ دھماکے کر ڈالیے… نواز شریف نے اُسی لمحے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ دھماکہ کریں گے‘ پاکستان کو نکو نہیں بننے دیں گے۔واپس آکر انہوں نے ایٹمی توانائی کمیشن کو تیاری کا حکم دے دیا اور خود سیاسی رہنمائوں‘دفاعی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا ہوتا گیا‘ قوم معاشی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی۔ سعودی عرب سے تیل کی فراہمی کی یقین دہانی بھی حاصل کر لی گئی‘ شاہ عبداللہ نے پوری قوت سے ہاتھ تھام لیا اور پاکستان نے عالم ِ اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے اس دن کی یاد منانے کے لیے خصوصی تقریب کا اہتمام کیا توپنجاب کے بلند نگاہ گورنر بلیغ الرحمن مہمان خصوصی تھے۔ سینیٹر سید مشاہد حسین نے کلیدی خطاب کیا اور قازقستان میں ہونے والی گفتگو کی کہانی سنائی‘ نواز شریف کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا اور خود بھی داد وصول کی۔اس اعزاز کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اس دن کا نام رکھنے کا سوچا گیا تو وزیراعظم نوازشریف نے میری سربراہی میں ایک قومی کمیٹی قائم کر دی جس نے لوگوں سے نام تجویز کرنے کی اپیل کی‘سینکڑوں افراد نے نام تجویز کئے‘جن میں سے ”یوم تکبیر‘‘ پسند کیا گیا۔ کابینہ نے اس کی منظوری دی اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے مجھے براہِ راست اس فیصلے کا اعلان کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ مشاہد حسین سید صاحب نے اس کی تفصیل بھی بتائی۔
پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا‘اس کا دفاع ناقابل ِ تسخیر ہو گیا‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر پوری قوم متفق تھی‘ حکومتیں بدلیں‘ نظام بدلا‘ چہرے بدلے لیکن ایٹمی پروگرام کو روکا نہیں گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک سب نے اس کی حفاظت کی۔جہادِ افغانستان نے جنرل ضیا الحق کو موقع فراہم کر دیا کہ وہ اسے مکمل کر لیں۔(مشاہد حسین سید کے بقول) ترک صدر طیب اردوان نے بتایا تھا کہ فرانسیسی صدر نے ان سے کہا‘ افغانستان میں جاری جنگ کی وجہ سے ہم پاکستان کا ہاتھ نہیں روک سکے‘ اس نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی‘ لیکن اب یہ غلطی نہیں دہرائیں گے‘کسی مسلمان ملک کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ یہ صلاحیت حاصل کر سکے۔
اگلے ہی سال جنرل پرویز مشرف نے اپنے وزیراعظم کا تختہ الٹ ڈالا۔اس سے پہلے وہ وزیراعظم واجپائی کا دورۂ پاکستان سبوتاژ کر چکے تھے۔ کارگل کی مہم جوئی سے معاملات کو بگاڑ چکے تھے‘ واجپائی دوستی کا ہاتھ لے کر پاکستان آئے تھے‘ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا‘دونوں وزرائے اعظم نے مل کر دو سفارت کار بھی مقرر کر دیئے تھے‘ کہ وہ قابلِ قبول فارمولے کی تلاش کریں‘ تاکہ تاریخ کو نیا رخ دیا جا سکے‘ جنرل پرویز مشرف کی خود سری نے یہ موقع گنوا دیا۔ امن کے خواب بکھر گئے‘ اور نواز شریف کا اقتدار بھی ختم کر ڈالا گیا‘ اُنہیں عمر قید کی سزا دلوائی گئی‘ بعدازاں انہیں سعودی عرب بھجوا دیا گیا۔ان دنوں بھی وہ بیرون ملک ہیں۔ پاکستان کو توانائی بخشنے والا اپنی توانائی کی تلاش میں ہے۔اپنی سرحدوں کو محفوظ سمجھنے والا پاکستان اب داخلی خلفشار میں اُلجھا ہوا ہے‘ معیشت دِگرگوں ہے‘ سیاست کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ تحریک انصاف اور اتحادی حکومت ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ ہمارے دفاعی اور عدالتی ادارے بھی اس کشمکش کے اثرات سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پا رہے‘ دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے ایک دوسرے پر دانت آزما رہے ہیں‘وہ سب جغادری جو اتحاد کی برکتیں بیان کرتے نہیںتھکتے تھے‘ایک دوسرے کو پارہ پارہ کرنے میں لگے ہیں۔ایک دوسرے کی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنا رہے ہیں۔ دستور کی دہائی دی جا رہی ہے‘اس کے تحفظ کے نام پر اس کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں۔کوئی ہے‘ جو ہمارا ہاتھ روکے‘ ہمیں اپنے آپ سے بچائے!!!