کراچی میں چند خوشگوار دن

بہت دنوں بعد تین بھرپور دن دوستوں کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا اور یہ خوشگوار دن کراچی میں گزرے۔ وہاں ’’کارپوریٹ‘‘ والوں کا مشاعرہ تھا۔ بقول ایک سیاست دان کے ’’اللہ کو جان دینی ہے‘‘ زندگی میں سینکڑوں مشاعرے پڑھے، ان میں سے کچھ کو یادگار بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر جو سامعین، فضا، ماحول اور انتظامات یہاں دیکھنے میں آئے، اس کی مثال ذرا کم کم ہی ملتی ہے۔ مشاعرہ موہٹہ پیلس کی تاریخی عمارت کے لان میں تھا۔ کراچی کی شام تھی، سمندر سے آنے والی مست ہوا تھی اور سامنےاگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں شہر کے باذوق سامعین گھاس پر بچھے قالینوں پر بیٹھےتھے۔ یہاںبندہ و آقا کی تمیز نہیںتھی۔ چنانچہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور ایلیٹ کلاس کے دوسرے افراد بھی ’’عوام‘‘سے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھے تھے، مگر اس سے پہلے کا احوال بیان کرنا بھی ضروری ہے، مشاعرہ گاہ کے ساتھ ہی قناتوں کے پیچھے ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس ڈنر میں میرے لیے سب سے ’’اہم‘‘ ڈش حلیم تھی۔ حلیم اور کراچی ’’یک جان دو قالب‘‘ ہیں۔ یہاں سیاست دان حلیم کا سیاسی استعمال بھی کرتے ہیں۔ ’’بس صاحب فلاں پارٹی کے لوگ آئے تھے، ہم نے مل کر حلیم کھائی اور وہ رخصت ہوگئے، اسکے علاوہ فی الحال کوئی بات نہیں ہوئی‘‘۔ بہرحال اگر غالبؔ نے کراچی کی حلیم کھائی ہوتی اور یقیناً کھائی ہوگی کہ یہ غالبؔ ہی کے شہر دہلی کی سوغات ہے۔ کاش ایک ’’قصیدہ در سرحِ حلیم‘‘ بھی پڑھنے کو مل جاتا۔ کیا روئی حلیم تھی اور ناصرہ زبیری کا کیا ’’ورتاوا‘‘ تھا کہ کسی کو شکم سیر ہونے کا پورا موقع بھی نہیں دیتی تھیں اور مہمان بھی تو ’’ہل من مزید‘‘ کہتے چلے جاتے تھے۔

صدر مشاعرہ میرے دیرینہ دوست اور باکمال شاعر افتخار عارف تھے اور میں اور امجد اسلام امجد مہمانانِ خصوصی میں شامل تھے۔ اس روز رت جگے کی وجہ سے میں کچھ LOW محسوس کررہا تھا۔ چنانچہ میں نے ’’ناظمۂ‘‘ شاعرہ ناصرہ زبیری سے درخواست کی کہ وہ مجھے پہلے پڑھا دیں، محفل میں موجود شعرائے کرام کو اگرچہ میں نے پہلے سے کتابوں اور جرائد میں پڑھا ہوا تھا مگر پھر بھی انہیں نہ سن سکنے کا ملال اپنی جگہ تھا۔ بہرحال شاعر کو اگر داد ملے تو وہ نزع کے عالم میں بھی اٹھ بیٹھتا ہے۔ سو مشاعرہ پڑھتے ہی میری طبیعت بھی بحال ہوگئی۔ اب اگر پوچھیں کہ اس مشاعرے کی خاص بات کیا تھی اور اس کا کریڈٹ کسے جاتا ہے تو پہلے نمبر پر ’’کارپوریٹ‘‘ والوں کو جن کا ادب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، مگر باذوق ہیں اور شہر کراچی کی رونقیں بحال کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر مشاعرہ کمیٹی کو جن کے ارکان سے میں واقف نہیں، مگر انہوں نے شعراء کی تعداد کوبہت محدود رکھا اور ان کی پذیرائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ورنہ ہمارے ہاں تو ’’میلہ مویشیاں اور مشاعرے‘‘ کا یکجا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ تیسرا کریڈٹ عدنان رضوی کو جو نامور چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں مگر ان کی لگن سے لگتا تھا کہ ادب کی کافی منزلیں طے کر نے کے بعد ’’حساب کتاب‘‘ کی طرف آئے ہیں۔ ان کی انتظامی ٹیم میں عاقب میاں کے علاوہ دوسرے ارکان بھی اتنے سرگرم نظر آتے تھے جیسے پرانے وقتوں میں جب شادیاں گلی میں ہوتی تھیں، دولہا، دلہن کے کزن ایکٹو دکھائی دیتے تھے۔

مشاعرے کے روز طبیعت کے اضمحلال کی ایک وجہ یہ تھی کہ شام کی فلائٹ سے کراچی پہنچا تھا اور اسی رات کراچی کے ’’مہا میزبان‘‘ اشتیاق بیگ نے اپنے محل، اسے گھر نہیں کہا جاسکتا، میرے اعزاز میں ڈنر رکھا ہوا تھا۔ اس میں ان کے بھائی اختیار بیگ بھی موجود تھے۔ یہ دونوں بھائی مثالی بھائی ہیں اور ماڈل ٹائون لاہور کے دو وکیل بھائیوں کی مانند ہیں جو ہر جگہ اکٹھے نظر آتے تھے اور یوں لوگوں نے انہیں ع، غ کہنا شروع کردیا تھا۔ بیگ برادران کا معاملہ بھی کچھ ایسے ہی ہے، دونوں کالم نگار بھی ہیں۔ اشتیاق بیگ کا جھکائو مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے، چنانچہ اس محفل میں شہر کی ادبی کریم کے علاوہ مسلم لیگی رہنمامحمد زبیر صاحب بھی مدعو تھے۔ یہاں ایک طویل عرصے کے بعد انتہائی پڑھے لکھے غازی صلاح الدین سے بھی ملاقات ہوئی اور محمود شام سے بھی جنہوں نے حال ہی میں ’’بلٹ ٹرین‘‘ کے عنوان سے پاکستان کے مستقبل کا خواب ترقی یافتہ قوموں کے رہن سہن اور سہولتوں کے حوالے سے بہت منفرد انداز میں لکھا ہے۔ یہاں جاوید صبا بھی تھے، شیرمیر بھی، فاضل جمیلی بھی اور شاہد آرٹسٹ بھی۔ ان کے علاوہ دیگر معززین کے ساتھ چند بہت خوبصورت نسوانی چہرے بھی دکھائی دیے۔

اوراب آخر میں بہت حسرت کے ساتھ کراچی آرٹس کونسل کا تذکرہ، جس کے مدارالمہام احمد شاہ نے میرے ساتھ ’’شامِ مزاح‘‘ کا اہتمام کیا تھا، کاش پورے پاکستان میں ادب و ثقافت کے فروغ کے لیے ایک ایسی کونسل اور بھی ہوتی۔ میں اس بات پر بہت اترایا کرتا تھا کہ الحمرا آرٹس کونسل لاہور کی آٹھ سالہ چیئرمین شپ کے دوران میں نے انٹرنیشنل ادبی اور ثقافتی کانفرنسیں منعقد کیں اور اس کے علاوہ ہر روز کوئی نہ کوئی ادبی ثقافتی ایونٹ بھی ہوتا تھا۔ مگر احمد شاہ نے میرا یہ غرور مجھ سے چھین لیا۔ وہ ہر دفعہ مجھے اپنی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں مگر کچھ عرصے سے میں قدرے گوشہ نشین ہوگیا ہوں، بیرون ملک کی کوئی دعوت بھی قبول نہیں کرپاتا۔ کئی برسوں کےبعد اس دفعہ کراچی آرٹس کونسل گیا تو وہاں سات منزلہ ایک نئی عمارت دیکھ کر مجھے لگا میں وہ ابوالحسن ہوں جسے سوتے میں اس کی جھونپڑی سے اٹھا کر محل میں پہنچا دیاگیا ہے۔ یہ صرف عمارت ہی نہیں، جادوگھر ٹائپ جیسی کوئی چیز ہے۔ ہر فلور پر جدید ترین سازو سامان اور ابلاغ کے جدید ترین آلات۔ میری گاڑی جب کونسل کے فعال رکن شکیل صاحب کے ساتھ کونسل کی عمارت میں داخل ہوئی تو لوگوں کے ایک اژدھام پر نظر پڑی۔ ایسے لگتا تھا جیسے میری جوانی میں نئی فلم لگنے پر پورا شہر وہاں امڈ پڑتاتھا اور ٹکٹیں بلیک ہو رہی ہوتی تھیں۔ پتہ چلا کہ ایک فلور پر سندھی کلچر پر سیمینار ہو رہا ہے اور جہاں میں ہجوم میں گھرا ہوا تھا وہاں سندھی کلچر سے وابستہ سوغاتوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ اوپر کے فلور پر خواص دانشوروں کے لیکچر سن رہے تھے اور نیچے عوام کے ذوق کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک فلور پر میرے ساتھ ’’شامِ مزاح‘‘ تھی اور میری خوشی کی کوئی حد نہ تھی جب میں نے سامعین میں اپنی پسندیدہ رائٹر نور الہدیٰ شاہ کو بھی بیٹھا دیکھا۔ نور الہدیٰ کے ڈراموں کا میں فین ہوں، انہوں نے سندھی میں افسانے لکھے،ان کا ایک اردو افسانہ بھی میری نظر سے گزرا۔ وہ ان دنوں جمہوریت سے محبت رکھنے والی بلاگر کے طور پر بھی سامنے آئی ہیں۔ احمد شاہ کے گھر میں پی پی پی کے وزیر اطلاعات سعید غنی سے بھی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر ہما میرؔ سے بھی گپ شپ ہوئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد انورسن رائے کو بھی خوبصورت سفید بالوں کے ساتھ یہاں دیکھا۔ میرے فیورٹ تجزیہ نگار مظہرعباس سے بھی ملاقات کا موقع مل ہی گیا۔ بلّے بھئی بلّے، کیسے خوبصورت لوگ ایک ہی جگہ مل گئے۔ اور آخر میں یہ کہ ہمارے ہاں ادب و ثقافت کے لیے کام کرنے والے چھوٹے موٹے جن تو ہیں، مگر شہنشاہ جنات تو بہرحال احمد شاہ ہی ہیں۔