شاہ جی سے چند سوالات

میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ مقتدرادارے کے سربراہ کی تبدیلی سے کیا تبدیلی آئی ہے؟ شاہ جی کہنے لگے کہ تم یہ سوال واقعتاً سوال کے طور کر رہے ہو یا طنزیہ پوچھ رہے ہو؟ میں نے کہا: شاہ جی! بھلا میری یہ مجال کہاں کہ اس قسم کے سوالات کرتے ہوئے طنز کروں۔ ماڑے بندے طنزیہ باتیں نہیں کرتے۔ میں نے تو اپنی معلومات میں اضافے کی غرض سے سوال کیا تھا۔ آپ کیونکہ دانشور اور دانشمند آدمی ہیں اس لیے آپ سے پوچھنے کی گستاخی کر لی وگرنہ تو میں اتنی ہمت بھی نہ کرتا۔ شاہ جی کہنے لگے: اگر یہ بات ہے تو پھر اس تبدیلی سے آنے والی پہلی تبدیلی تو یہ ہے کہ شہباز شریف کو اپنی میز پر کافی دن سے پڑے ہوئے اپنے وزیر قانون کے استعفے کو نامنظور کرنے کی باضابطہ اجازت مل گئی ہے اور انہوں نے اپنے بے پناہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا استعفیٰ نامنظور کرتے ہوئے انہیں بطور وزیر اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالنے کا حکم دیا ہے۔ باقی عقلمند کیلئے اشارہ کافی ہے۔ اگر تم کو اب بھی سمجھ نہیں آ رہی تو مزید سوالات کرنے کے بجائے اپنی عقل کا علاج کرواؤ۔ یہ کہہ کر شاہ جی جلال میں آ گئے اور میں دبک گیا۔
تھوڑی دیر تک تو میں شاہ جی کی طبیعت میں پیدا ہونے والی گرمی کے باعث خاموش رہا۔ پھر شاہ جی سے اجازت اور جان کی امان طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں آج کے دن ان سے مزید سوالات کر سکتا ہوں؟ شاہ جی نے پہلے تو مجھے گھور کر دیکھا پھر کہنے لگے کہ اگر تم مجھے نہایت عمدہ اور سلش ٹائپ یخ بستہ منٹ مارگریٹا پلا سکتے ہو تو مجھے یقین ہے کہ میرا موڈ بہتر ہو جائے گا۔ میں نے تقریباً شاہ جی کی منت کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا فی الوقت انہی خوبیوں سے بھرپور کولڈ کافی سے کام چل جائے گا کیونکہ شومیٔ قسمت سے لان میں لگا ہوا پودینے کا آخری پودا بھی کل ہی اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ اس لیے اگر آپ کولڈ کافی پر راضی ہو جائیں تو آپ کو ایسی عمدہ کولڈ کافی بنا کر پلاؤں گا کہ آپ کا دل خوش اور طبیعت بحال ہو جائے گی۔ شاہ جی نے بکمال مہربانی اس کی اجازت مرحمت فرما دی اور کافی کا پہلا گھونٹ بھرتے ہی میری طرف مہربان نظروں سے دیکھا اور ایک مسکراہٹ عطا کی۔ ان کی طرف سے یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب مجھے ان سے مزید سوال کرنے کی اجازت ہے۔میں نے پوچھا: شاہ جی! کیا دنیا میں کہیں اور بھی کسی جگہ اس قسم کی تعیناتی پر اس قسم کا کوئی فساد مچتا ہے جس طرح ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں نے مچایا تھا۔ بجائے اس کے کہ شاہ جی میری بات کا جواب دیتے الٹا مجھ سے پوچھنے لگے کہ دنیا تم نے زیادہ دیکھی ہے یا میں نے؟ میں نے کھسیا کر کہا کہ شاہ جی بظاہر تو دنیا میں نے زیادہ دیکھی ہے مگر اس کے باوجود جہاندیدہ تو آپ زیادہ ہیں‘ جہاں تک آپ کی نظر پہنچتی ہے وہاں تک مجھ کمترین کی نگاہ بھلا کیسے پہنچ سکتی ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: تمہیں بخوبی علم ہے کہ ایسا غدر اور کہیں نہیں مچتا مگر تم خوامخواہ الٹے سیدھے سوال کر کے مجھے پریشان کرتے رہتے ہو۔ اگر کوئی کام کی بات پوچھنی ہو تو بتاؤ۔
میں نے کہا: شاہ جی! ہمارے ہاں تو چھڑی تبدیل کرنے کی تقریب ہی بڑی دھانسو ہوتی ہے اور کافی بڑا اکٹھ ہوتا ہے دوسرے ملکوں میں کیا ہوتا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: حالانکہ یہ سوال بھی پہلے والے سوال کی طرح ہی نامعقول ہے مگر میں پھر بھی اس بارے میں تمہیں بتا دوں کہ مجھے باقی ملکوں کا تو پتا نہیں لیکن ہمارے ہمسایہ ملک میں یہ تقریب اتنی سادگی سے ہوتی ہے کہ بندے کو یقین نہیں آتا۔ میں نے ایک کلپ میں بھارت میں نئے آنے والے اور پرانے جانے والے چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان عہدے سے منسوب چھڑی کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ سابقہ آنجہانی بھارتی چیف آف آرمی سٹاف بپن راوت اپنے دفتر میں اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کمرے میں نیا مقرر ہونے والا بھارتی چیف آف سٹاف منوج مکھنڈ نروانے آتا ہے۔ دونوں نے ہاتھ ملایا اور دیر تک گرمجوشی سے ملاتے رہے۔ پھر بپن راوت اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک دو لمحے کے بعد وہ دوبارہ اٹھا۔ میز سے اپنی چھڑی اٹھائی‘ نئے نامزد چیف آف آرمی سٹاف جنرل منوج مکھنڈ کو چھڑی تھمائی‘ دوبارہ ہاتھ ملایا‘ اسے کرسی پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ نیا آرمی چیف اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور بپن راوت صاحب گھر روانہ ہو گئے۔ اس پورے کلپ میں اس کمرے میں ان دو جرنیلوں کے علاوہ تیسرا شخص دکھائی نہیں دے رہا۔ نہایت سادگی‘ آسانی اور جلدی سے یہ سب کچھ مکمل ہو گیا۔ ایک جرنیل کرسی پر بیٹھ گیا اور دوسرا اپنی جگہ چھوڑکر چلا گیا۔ نہ کوئی تقریب ہوئی‘ نہ کوئی سعودی عرب سے خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کیلئے آیا‘ نہ کوئی وزیر آیا اور نہ مہمانوں کا اجتماع ہوا‘ نہ ہینگ لگی اور نہ پھٹکڑی‘ تاہم رنگ چوکھا چڑھ گیا۔
میں نے کہا: شاہ جی صرف دو سوال مزید‘ اور پھر اجازت۔ شاہ جی نے سر ہلا کر اجازت مرحمت فرمائی۔ میں نے پوچھا: جاتے جاتے باجوہ صاحب اس زمانے کی صفائی دے کر گئے ہیں جب وہ خود فوج میں بھرتی بھی نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: دو روز قبل تم نے مجھے اپنے افسانہ نگار دوست محمد حمید شاہد کا ایک جملہ سنایا تھا ‘وہ دوبارہ سناؤ اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں نے کہا :حمید شاہد نے کہا تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستان دراصل ہماری فوجی سیاسی ناکامی تھی۔ شاہ جی کہنے لگے: ایتھے رکھ! حمید شاہد افسانہ نگار ہے اور اس نے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ 1947ء سے لے کر 1971ء تک چوبیس سالوں کا حساب کر لیتے ہیں۔ ویسے تو 1951ء میں کمانڈر انچیف بنتے ہی ایوب خان نے عملی طور پر سیاست کرنی شروع کر دی تھی مگر اس کو چھوڑ دیں 1955ء میں جب میجر جنرل اسکندر مرزا نے پہلے گورنر جنرل اور پھر 1956ء میں صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا تو ملک پر وردی کی براہ راست حکومت کا آغاز ہو گیا۔ 1958ء میں ایوب خان مارشل لاء لگاکر خود بطور صدر پاکستان بیٹھ گئے اور گیارہ سال بعد 1969 میں اپنی جگہ پر اس وقت کے کمانڈر انچیف یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر گھر چلے گئے ۔1971ء تک یحییٰ خان اقتدار کی کرسی پر بیٹھے رہے یعنی 1955ء سے 1971ء تک سولہ سال تک تو فوج ملک کی حکمران تھی۔ چوبیس میں سے سولہ سال یعنی کل عرصہ میں سے ساٹھ فیصد عرصہ فوج حکمران تھی حتیٰ کہ سانحہ مشرقی کے فوراً بعد پاکستان کے صدر کا عہدہ سنبھالنے والا سول حکمران ذوالفقار علی بھٹو 2 دسمبر 1971ء سے 13اگست 1973 ء تک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہا۔ سانحہ سے ڈیڑھ عشرے پہلے ملک پر وردی کی حکومت تھی اور عملی طورپر سب کچھ فوج کے ہاتھ میں تھا نہ کہ سیاستدانوں کے ہاتھ میں۔ ویسے زیادہ بہتر ہوتا کہ جاتے جاتے جنرل باجوہ یہ بیان دینے کے بجائے حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو عام کر جاتے تاکہ سب کو پتا چل جاتا کہ حقیقت اور سچائی کیا ہے۔میں نے کہا: شاہ جی آخری سوال یہ ہے کہ باجوہ صاحب کی اس بات کا کیا مطلب ہے کہ وہ عنقریب گمنامی میں چلے جائیں گے؟ شاہ جی کہنے لگے: اس بات پر بختو بجھاک والی جو مثال مجھے یاد آتی ہے وہ میں سنا نہیں سکتا اور تم لکھ نہیں سکتے سو اسے رہنے ہی دو تو بہتر ہے۔