سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

(گزشتہ سے پیوستہ)

1980کےرولز کے تحت چیف جسٹس کو ماسٹر آف دی روسٹر کا مقام دیا گیا ہے لیکن وہ First among equals ہے ۔ یہ اختیار عوام کو سہولت دینے اور انتظامی حوالوں سے عدالت کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے ہے ۔اختیار بنیادی طور پر سپریم کورٹ کا ہے جو چیف جسٹس کو ڈیلیگیٹ کیا گیا ہے۔اس لئے ماسٹر آف دی روسٹر یعنی چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری نیک نیتی اور سپریم کورٹ کے بہترین مفاد میں اس صوابدیدی اختیار کو استعمال کرے۔یہ صوابدیدی اختیار کھلے منصوبے، کھلی پالیسی اسٹیٹمنٹ، کھلے رولز، کھلے نتائج، کھلی دلیل، کھلی مثالوں اور شفاف ٹرائل سے مشروط ہے ۔ اس لئے عدالت اپنا یہ خصوصی اختیار صرف اس وقت استعمال کرسکتی ہے کہ اسے عوام کا مکمل اعتماد اور یقین حاصل ہو۔ان اصولوں کی خلاف ورزی کی صورت میں پوری سپریم کورٹ جوابدہ ہے۔ جبکہ عدالت (سپریم کورٹ) آئین، قانون اور عوام کے سامنے جوابدہ ہے جو ہمارے اصل اسٹیک ہولڈر ہیں۔کوئی قانون سے مبرا نہیں اور ہر کوئی اپنی اتھارٹی قانون اور آئین کے مطابق ہی استعمال کرسکتا ہے۔ یوں مذکورہ فیصلہ اور بنچ کی تشکیل جیسے معاملات عدالتی وقار کو بحال کرنے کیلئے1980کے رولز پر نظرثانی کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔

مختصر یہ کہ 184(3) کا اختیار اصل میں عوام کے اعتماد کو بڑھانے کیلئےہے نہ کہ مجروح کرنے کیلئے ۔ بنچز کی تشکیل اور کیسز کی الاٹمنٹ میں شفافیت ضروری ہے ۔سیاسی کیسز کے سلسلے میں عدالت کو غیرمعمولی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔اس عدالت کا فرض ہے کہ وہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اجازت نہ دے کہ وہ اپنے حریفوں کے ساتھ اسکور برابرکرنے کیلئے اس فورم کو استعمال کریں ۔عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی نہ کرئے کہ وہ اپنے تنازعات عدالت میں لائیں ۔ اس سے پارلیمنٹ اور سیاسی ڈائیلاگ کے دیگرفورمز کمزور ہوتے ہیں اور عدلیہ کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اس کی وجہ سے سیاستدان برداشت اور ڈائیلاگ کی جمہوری اقدار سے بھی دور ہوتے ہیں ۔عدالت کو ان کی بجائے ان پچاس ہزار درخواست گزاروں کے کیسز پر توجہ دینی چاہئے جو انصاف کے منتظر ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی قضیوں کی بجائے ان کے کیسز کو ترجیح دی جائے جبکہ اس عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی طور پر فریق نظر آنے کی بجائے عوامی اعتماد کو بحال رکھے۔ چونکہ لاہور ہائی کورٹ (الیکشن کے معاملے) میں ایک آرڈر جاری کرچکی ہے جبکہ پشاور ہائی کورٹ سماعت کررہی ہے ، اس لئے مذکورہ دلائل کی روشنی میں اس حوالےسے سوموٹو نوٹس لینا مناسب نہیں۔یہی بات برادر ججز سید منصور علی شاہ،یحییٰ آفریدی اور جمال خان مندوخیل کی رائے سے بھی ثابت ہے جنہوں نے ان بنیادوں پر پٹیشن کو ڈسمس کیا۔ اس معاملے میں ملوث ہونے سے یہ عدالت (سپریم کورٹ) دو عدالتوں (لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ) کی اتھارٹی کو غیرضروری طور پر مجروح کرے گی،اس (پنجاب اسمبلی) کیس کو اٹھانے کی وجہ سے عدالت سیاسی تنازعے کی زد میں آگئی ہے ۔جس سے عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔مبصرین کو تنقید کا موقع ملے گا اور جن ہزاروں لوگوں کے کیسز سماعت کے منتظر ہیں ، ان کی نظروں میں عدالتی وقار مجروح ہوگا۔فل کورٹ بنا کر اس صورت حال سے بچا جاسکتا تھا۔ 23فروری کو اپنے نوٹ میں میں نے فل کورٹ کی تجویز دی تھی کیونکہ ملکی سیاسی صورتحال اتنی گمبھیر ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر کا کسی ایک نکتے پر متفق ہونا ممکن نہیں ۔

سیاسی حکمت عملی کے طور پر ایک سیاسی پارٹی نے اسمبلی سے استعفے دیئے اوربجائے اس کے کہ آئینی طور پر پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپوزیشن کی ڈیوٹی سرانجام دیتی، اسمبلی سے استعفے دئیے ۔پہلے عدالتوں سے رجوع کیا گیا کہ وہ ان کے استعفوں کو منظور کروانے کیلئے اسپیکر کو مجبور کرے اور پھر اسلئے عدالتوں سے رجوع کیا گیا کہ وہ ان کے استعفوں کو نامنظور کرانے کیلئےاسپیکر کو مجبورکرے۔اسی طرح ایک سیاسی اسٹرٹیجی کے طور پر صوبائی اسمبلیاں توڑنے سے بھی سوال کھڑے ہوتے ہیں ۔ کیا اس عدالت کو کسی پارٹی کو یہ اجازت دینی چاہئے کہ وہ اس کے سیاسی ایجنڈے کیلئے استعمال ہو۔ حالانکہ کسی صورت ایسا نہیں دکھنا چاہئے کیونکہ اس سے اس عدالت پر عوام کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔عدالت اگر سیاسی تنازعات کو اپنے ہاں لائے گی تو اس سے پارلیمنٹ کمزور ہوگی۔ عدالت میں آنے سے قبل سیاسی عناصر کو اپنا بونافائڈ واضح کردینا چاہئے ۔ ان حالات میں عدالت کی طرف سے 184(3) کے تحت سماعت ،یہ تاثر ابھرے گا کہ عدالت غیرجمہوری اقدار اور اسٹرٹیجیز کو فروغ دے رہی ہے ۔ 23فروری2023اور 24فروری 2023کو اپنے آرڈرز کی سپورٹ میں میں یہ آبزرویشن دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا اپنے ان تنازعات کو ، جن کے حل کرنے کیلئے آئینی فورمز موجود ہیں، عدالت میں لانا ناقابل تصور ہے۔سیاسی انتشار نہایت تشویشناک ہے۔ معاشی استحکام اور عوام کی خوشحالی کیلئے سیاسی استحکام لازمی ہے۔سیاسی عناصرکے مابین اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ سے عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی صورت حال بری طرح متاثر ہورہی ہے۔پاکستان کے عوام ایک لمبے عرصے سے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ غیرجمہوری حکومتوں کی عدالتوں کی طرف سے توثیق کی وجہ سے ملک اور عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔وہ ادارے (پارلیمنٹ) جو عوام کی نمائندگی کرتے ہیں ،کو جڑیںمضبوط کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔حتیٰ کہ آج 75 سال گزر جانے کے باوجود وہ ادارے کمزور ہیں۔ملک میں سیاسی اور آئینی بحران انتہا پر ہے اور یہ وقت ہے کہ ہر ادارہ اور فریق ایک قدم پیچھے جاکر خوداحتسابی کرے۔تمام اداروں بشمول عدالتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی انائوں سے نکل کر صرف آئینی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اپنے ادارے یعنی عدلیہ سے ،میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اپنے تاریک ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم قانون کی رپورٹوں اور اپنے فیصلوں کو ریکارڈ سے تو مٹا نہیں سکتے لیکن اس تاریک ماضی کو بھلانے کی خاطر اپنے اوپر عوام کے اعتماد اور یقین کو بحال کرنےکیلئے تو کچھ کرسکتے ہیں ۔ جب سیاستدان متعلقہ فورمز پر اپنے تصفیے نمٹانے کی بجائے عدالتوں میں آتے ہیں تو ان میں کوئی فریق جیتتا اور کوئی ہارتا ہے لیکن عدالت دونوں صورتوں میں ہارتی ہے اور نقصان میں رہتی ہے۔(نوٹ: یہ مضمون سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج جسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے کا اردو زبان میں خلاصہ ہے اور میں اسے سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لئے کہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کا فیصلہ بھی فیصلہ ہوتا ہے جبکہ میں اس رائے کا حامی ہوں کہ بنچ سات کا تھا اور چار تین کی اکثریت سے سوموٹو کیس یا پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق پٹیشن مسترد ہوچکی ہے۔ اس لئے میں نے اس کا عنوان سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ رکھا)