سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

(گزشتہ سے پیوستہ)

آئین بنانے والوں نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 183(4) کے تحت حاصل عدالت کو یہ غیرمعمولی اختیار اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے دیا کہ کوئی عوامی اہمیت کا سوال ہو ۔ دوم یہ کہ آئین کے آرٹیکل 2 کے باب کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ درپیش ہو ،بے نظیر بھٹوبنام فیڈریشن آف پاکستان کیس میں عدالت نے واضح طور پر قرار دیا ہے کہ آرئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دی گئی طاقت کو ہمیشہ احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے ، (دوسری طرف ) آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کو وسیع اختیارات حاصل ہیں اور ہائی کورٹ بھی آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ان کے پاس بھی وہی اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں۔جب کسی معاملے میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کایکساں دائرہ اختیار ہو تو ہائی کورٹ سے چھین کر سپریم کورٹ کا خود سماعت کرنا فریقین کو اپیل کے ایک حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ اسلئے ازخود نوٹس لینا مناسب نہیں) ۔

آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا اصل دائرہ اختیار غیرمعمولی ہے اور اس کی زبان سے معلوم ہوتا ہے کہ آئین بنانے والوں کے ذہن میں واضح تھا کہ اس کا استعمال تب کیا جائے گا جب مطلوبہ شرائط پوری ہوں۔اس کے تحت کئے گئے فیصلوں پر عوام کا بھرپور اعتماد ہو ۔ عدالت کے پاس نہ تلوار ہے اور نہ وسائل ۔ عوام کے اعتماد اور یقین کو کم اہم نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ عدالت عوام کے اعتماد کو آزادی، شفافیت، غیرجانبداری، عدالتی طرز عمل، ادارہ جاتی اعلیٰ معیار اور شفاف عدالتی کارروائی کے ذریعے ہی حاصل کرسکتی ہے ، یہ عوامی اعتماد ہی عدالتوں کو موثر طریقے سے اپنا کام سرانجام دینے کے قابل بناتا ہے اور اس صورت میں غیرمقبول فیصلوں کا بھی احترام کیا جاتا ہے،آئین بنانے والوں نے اس میں 184(3) یعنی از خودنوٹس کا اختیار معاشرے کے کمزور، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لئے رکھا تھا ۔ جبری گمشدگی یا مسنگ پرسنز کا معاملہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور آئین کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے ۔ ماورائے عدالت گمشدگیوں اور انٹرنمنٹ سینٹر میں ماورائے عدالت قید افرادکے کیس سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اس عدالت میں سماعت کا منتظر ہے ۔ جیلوں میں غیرانسانی اور زندگی کو خطرے میں ڈالنے والا ماحول، زیرحراست لوگوں کا ٹارچر، ماورائے عدالت قتل، صحافیوں کے خلاف تشدد ، آزادی صحافت کے خلاف قدغنوں اور اسی نوع کے دیگر معاملات کو 184(3) کے تحت اٹھانا عدالت کی ترجیح ہونی چاہئے، آئین بنانے والوں کے پیش نظر انہی کمزور اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا لیکن اس کی بجائے اس عدالت نے اس اختیار کو منتخب وزرائے اعظم کی برطرفی اور فوجی قبضوں کی توثیق کیلئے استعمال کیا۔اس عدالت نے بیگم نصرت بھٹو بنام چیف آف آرمی ا سٹاف و ریاست پاکستان کیس میں نظریہ ضرورت کے تحت اس اختیار کو مارشل لا کی توثیق کیلئے استعمال کیا۔ معزول وزیراعظم کو چار تین کی اکثریت کے فیصلےسے پھانسی دی گئی ۔ دوران سماعت درخواست کنندہ نے بنچ کی ساخت پر اعتراض اٹھایا لیکن اس کو رد کردیا گیا ۔اس وقت بھی چیف جسٹس نے یہ دلیل دی تھی کہ میں کسی کے اعتراض پر مرضی کا بنچ بنانے کے اختیار سے دستبردار نہیں ہوسکتا لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ (بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے ) بنچ کے ایک رکن نے بعد میں اعتراف کیا کہ بنچ پر باہر سے اثر ڈالا گیا تھا۔اس بنیاد پر 2012 میں اس کیس سے متعلق عدالت کے ایڈوائزری اختیار سے متعلق ایک ریفرنس دائر کیا گیا جس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔

آئین پاکستان کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب 1999 میں چیف آف آرمی اسٹاف نے طاقت کے بل پر منتخب وزیراعظم کو ہٹا کر قانون ساز ادارے کو تحلیل کیا۔ عدالت نے ایک بار پھر آئین کے آرٹیکل 184(3) کا سہارا لیا اور ظفرعلی شاہ بنام جنرل پرویز مشرف کا فیصلہ دیتے ہوئے اس عدالت نے اقتدار پر قبضے کو جائز قرار دلوا دیا حالانکہ اس سے قبل عدالت مس عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے فیصلے میں نظریہ ضرورت کو دفن کیا گیا تھا ۔ دوسری طرف عدالت نے اقتدارپر قابض شخص کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا ۔3نومبر 2007کو جب اس عدالت کے ججز کو غیرقانونی طور پر ایک آئین شکن نے ہٹا دیا تو ٹکا اقبال محمد خان بنام پرویز مشرف کیس میں اس عدالت نے اس فیصلے کو جائز قرار دلوادیا۔ پھر ایک خصوصی عدالت نے اس آئین شکنی پر مقدمہ چلا کر سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا لیکن اس فیصلے کو ایک ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا جس کے خلاف اپیل اس عدالت (سپریم کورٹ) میں آج بھی سماعت کی منتظر ہے لیکن سزاپانے والے شخص وفات پاگئے اور عدالت میں اس اپیل کی سماعت نہ ہوسکی۔آرٹیکل 184(3) کا سہارا لے کر دو منتخب وزرائے اعظم کو فارغ کردیا گیا ۔ کئی منتخب ممبران اسمبلی کو آرٹیکل 63(f) کی بنیاد پر نااہل قرار دلوایا گیا کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں جبکہ کچھ کو صادق اورامین قرار دلوا دیا۔عدالت کے اس کردار نے عوام کے اعتماد کو مجروح کیا اور اس کے سیاسی طور پر فریق ہونے کا تاثر ابھرا۔

اسی طرح ریکوڈک اورا سٹیل مل سے متعلق عدالت نے سوموٹودائرہ اختیار استعمال کرکے فیصلے دیئے جو کہ ریاست کی معاشی پالیسیوں میں عدالتی مداخلت تھی ۔ ان کے نہایت برے معاشی اثرات پڑے اور ریاست کو عالمی سطح پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا ۔ان وجوہات کی بنیاد پر عدالت تنقید کی زد میں آئی اور اب وقت آگیا ہے کہ ان غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔(جاری ہے)