سو جوتے اور سو پیاز والا محاورہ

مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ لڑائی کے سو پینترے ہیں اوران میں سے ننانوے پینترے یہ ہیں کہ بھائی! بھاگ لے۔ سو یہ عاجز مشتاق احمد یوسفی کی ہدایت کے مطابق بھاگ لیا ہے۔ اور بھلا کیوں ؟ یقین کریں صرف سوالات سے تنگ آکر بھاگ لیا تھا ‘لیکن عالم یہ ہے کہ بھاگ لینے کے باوجود سوال و جواب کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ برطانیہ آئے چوبیس گھنٹے ہو چکے ہیں مگر اب تک صرف سوالات ہیں جو جان کو آئے ہوئے ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا ہو گا؟ اور تیسرا سوال یہ کہ اس سب کا کیا حل ہے؟ پہلے پہل توجان چھڑوانے کی کوشش کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں کہ میں بھی حالات سے اتناہی باخبر اور آگاہ ہوں جس قدر آپ ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیں تو آپ سے بھی کہیں کم‘ کہ میں نالائق آدمی اس زمانے میں بھی سوشل میڈیا سے لاتعلق ہوں اور ایسی خبریں فی الوقت صرف سوشل میڈیا پر ہی مل رہی ہیں۔ دوسرا سوال یہ کہ اب کیا ہوگا؟ میں جواب دیتا ہوں کہ یہ سوال ایسا پیچیدہ‘ گنجلک اور پریشان کن ہے کہ جن لوگوں نے اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملکی حالات اس نہج تک پہنچائے ہیں یہ تو ان کو بھی معلوم نہیں کہ اب کیا ہوگا؟یہ وہ تیر ہے جو چلانے والوں نے کسی اور نیت اور نشانے پر چلایا لیکن یہ تیر پہنچ کہیں اور گیا ہے۔ ہمارے دوست اورشاندار شاعر ڈاکٹر کبیر اطہر کے دو شعر :
یہ اب کھلا ہے غلط ٹھکانے تک آ گیا ہوں
میں گھر کی خواہش میں قید خانے تک آ گیا ہوں
کہاں سے نکلا تھا میں نشانے سے ہٹ کے لیکن
ہوا کے اصرار پر نشانے تک آ گیا ہوں
بقول ڈاکٹر کبیر اطہر‘ تیر نشانے سے ہٹ کر چلا تھا لیکن ہوا اسے نشانے پر لے آئی‘ مگر ادھر کام الٹ ہوا ہے۔ تیرچلانے والوں نے تو اپنی طرف سے نشانے پر چلایا تھا مگر حالات کا جبر اسے مطلوبہ ہدف کے بجائے کہیں اور لے گیا ہے۔ تیسرا اور آخری سوال ہوتا ہے کہ اب اس کا کیا حل ہے ؟ میں جواب دیتا ہوں کہ اس کا حل بہت آسان ہے لیکن یہ آسان حل ہی تو مشکل ہو گیا ہے اور یہ آسان حل نئے انتخابات ہیں جو پندرہ فریقین کو قبول نہیں ہیں۔ ایک دوست نے حیرانی سے پوچھا بھلایہ پندرہ فریقین کیا ہوئے؟ میں نے کہا تیرہ جماعتیں پی ڈی ایم کی‘ چودھواں الیکشن کمیشن اور پندرھواں وہ جو پہلے چودہ پر بھی بھاری ہے۔
ملک خالد نے فون کیا تو چھوٹتے ہی کہنے لگا۔ بھج گئے او! (بھاگ گئے ہو) میں نے کہا: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم جیسے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں؟ دوسری بات یہ کہ ہم جیسوں کا بھاگنا یا میدان میں کھڑے رہنا لکھنے پر منحصر ہے کہ ہم نے قلم کا میدان چھوڑا ہے یا نہیں۔ ملک کہنے لگا: یہ تو بتاؤ کہ تم دراصل ہو کس کے ساتھ؟ میں نے کہا :ہم کیا اور ہماری اوقات کیا؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ شمار قطار میں تو وہ ہوتے ہیں جو خم ٹھونک کر کسی کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور پھر اس کے ہر غلط سلط کا جواز تلاش کریں۔ اس کے ہر قدم کا جواز تراشیں اور اس کی ہر غلطی کی صفائی دیں۔ ہم تو وہ راندہ درگاہ ہیں جو صبح ایک طرف سے اور شام دوسری طرف سے پتھر کھاتے ہیں۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ایسے میں کوئی بھی ایسا شخص جو جذبات کی زنجیر کا اسیر اور اپنے لیڈر کی خواہشات کا غلام نہ ہو اس صورتحال کی تائید کیسے کر سکتا ہے؟ رہ گئی بات میرے سفر کی‘ تمہیں تو علم ہے کہ میں نے یہ ٹکٹ چار ماہ قبل خریدی تھی جب کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ گزشتہ پچھتر سال سے معاملات کو اپنی چھڑی سے چلانے اور پیادوں کو اپنے اشاروں سے چلانے والے اس قدر بے بس ہو جائیں گے کہ واپسی کا راستہ تلاش کرنا بھی کار محال بن کر رہ جائے گا۔ ہماری حالیہ صورتحال پر دو تین شعر یاد آ رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے تعلقات شعر و ادب سے بے حد کشیدہ ہیں اور شعر تمہارے اوپر سے گزر جاتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ اشعار بہرحال تمہاری دماغی استعداد کو آزمائے بغیر تمہیں سمجھ آ جائیں گے۔ یہ لطیف ساجد کی غزل کے چند اشعار ہیں:
ہم ایک ایسی اندھیر نگری سے منسلک ہیں
جہاں مسائل کے بھید کرسی سے منسلک ہیں
ہم ان بہادر سپاہیوں کی مثال ہیں جو
سروں کی بنیاد پر کہانی سے منسلک ہیں
ہمیں محبت سکھا رہے ہیں لطیف ساجدؔ
جو ہیروشیما و ناگاساکی سے منسلک ہیں
ویسے تو اس غزل کے باقی اشعار بھی شاندار ہیں مگر میں بہرحال تمہارے پرچے میں ایسے سوالات نہیں ڈالنا چاہتا جو تمہارے لئے پریشانی کا باعث بنیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ بزعم خود ہر مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اب حالات ویسے نہیں رہے جیسے وہ بناتے اور بگاڑتے رہے ہیں۔ پہلے وہ جو زہر بناتے تھے اس کیلئے ان کا تریاق برا بھلا چل جاتا تھا لیکن اب کی بار اپنے بنائے گئے زہر کا تریاق ہی نہیں بن پا رہا۔ اس بار ہر تدبیر الٹ رہی ہے اور ہر مہرہ پٹ رہا ہے اور سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ موجودہ حالات کو محض اپنے حالیہ اقدامات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اس کا حل تلاش کر رہے ہیں حالانکہ یہ گزشتہ کئی عشروں کی مسلسل درپردہ حکمرانی کا ردعمل ہے جسے فی الحال صرف فوری انتخابات کے ذریعے ہی کسی حد تک ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔
بھلا نئے انتخابات کروانے میں حرج ہی کیا ہے؟ ان سے کیا ایسی خرابی ظہور پذیر ہو جائے گی جس کا سامنا قوم اب نہیں کر رہی؟ اگر آئندہ انتخابات میں عمران خان جیت گیاتو کیا قیامت آ جائے گی؟ اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان اس ملک کی معیشت برباد کر دے گا تو بھلا اب اس سے زیادہ معیشت کیا برباد ہو سکتی ہے؟ اگر کسی کو گمان ہے کہ وہ اس ملک کی گورننس کو خراب کر دے گا تو بندہ پوچھے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا خراب ہو سکتی ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ عمران خان کے آنے سے اس ملک میں نظام حکومت بگڑ جائے گا تو بھلا اس وقت ملک میں نظام حکومت نام کی کوئی چیز کسی کو دکھائی دے رہی ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کی سیاسی طور پر دم بہ دم گرتی ہوئی مقبولیت کو افراتفری میں ختم کرنے والوں کے تب یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ سارا کھیل الٹ جائے گا اور ان کی یہ حرکت ان کے گلے پڑ جائے گی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہر تدبیر الٹ گئی اور ہر منصوبہ نئی مصیبت بن گیا۔ خوف یہ ہے کہ اگر عمران خان واپس آ گیا تو وہ پہلے والا تابعدار اور اپنی حکومت کو قائم رکھنے کیلئے ہر قسم کا کمپرومائز کرنے والا عمران خان نہیں ہوگا۔ شوقِ وزارتِ عظمیٰ میں ہرچیز‘ ہر شخص اور ہر اصول سے ماضی میں سودے بازی کر کے لیلائے اقتدار سے چمٹے رہنے والا عمران خان اگر اقتدار میں آ گیا تو وہ نہ صرف یہ کہ پہلے سے بالکل مختلف ہوگا بلکہ خطرناک بھی۔ اس ساری خراب صورتحال سے آئینی طور پر نکلنے اور ملکی معاملات کو درست سمت میں چلانے کا محض ایک ہی طریقہ باقی بچا ہے اور وہ صرف نئے انتخابات ہیں۔ لیکن جنہوں نے یہ کرنا ہے وہ اس پر کسی طور راضی نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ سو جوتے اور سو پیاز کھانے والا محاورہ فضول میں نہیں بنا۔