ایک مڈل کلاس بیوقوف گھوڑا!

ایک بار تانگے میں جتے ہوئے گھوڑے کے مالک سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ اس بار شادی بیاہ پر دولہا کی سواری کے کام آنے والے گھوڑے کے مالک سے ملاقات کا موقع ملا، دوران گفتگو اس سے خاصی معلومات حاصل ہوئیں، یہ گھوڑا بھی اس وقت پاس ہی کھڑا گردن کھرلی میں ڈالے دانہ کھا رہا تھا، اس وقت اس کی کمر پر آرائش کی کوئی چیز نہ تھی بلکہ اس کا جسم دھول سے اٹا ہوا تھا ۔میرے ایک سوال پر بتایا گیا کہ گھر میں یہ گھوڑا اس سے بھی زیادہ برے حال میں ہوتا ہے البتہ کسی شادی کی تقریب میں شرکت سے قبل اس کے سر پر خوبصورت پھندنا لگایا جاتا ہے ،گوٹے کناری والے ملبوسات سے اسے ڈھانپا جاتا ہے، اعلیٰ درجے کی زین اس پر کسی جاتی ہے، اسے گہنے پہنائے جاتے ہیں، پائوں پر مہندی لگائی جاتی ہے اور جھانجریں پہنائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ گھوڑا دراصل مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا ہے، خاصا STATUS CONSCIOUSہوتا ہے ۔ اس لئے شادی وغیرہ کی تقریب میں مکمل تیاری کے بغیر جانے پر رضامند نہیں ہوتا ،یہ بھی بتایا گیا کہ جب اتنی ٹھاٹھ باٹھ والے گھوڑے پر دولہا سوار ہوتا ہے تو یہ مڈل کلاس گھوڑا اس پر پھولے نہیں سماتا کہ اسے تقریب کی سب سے اہم شخصیت کا گھوڑا بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ گھوڑے کے مالک نے بتایا کہ یہ مڈل کلاس گھوڑا ساری عمر اپنے سے برتر کلاس میں شامل ہونے کی کوشش میں اس کلاس کا گھوڑا بنا رہتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ سے زیادہ بوجھ اسی گھوڑے پر لادا جاتا ہے چنانچہ شادی کی تقریب میں اسے دولہا کے علاوہ شہ بالے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ شادی کی تقریبات کے دوران اس گھوڑے کےلئے سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دولہا کے کوئی عزیز عین اس کے برابر میں کھڑےتھیلے میں ہاتھ ڈال ڈال کر دولہا پر نوٹ نچھاور کرتے ہیں اور پھر بچے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ،مجھے بتایا گیا کہ یہ مڈل کلاس گھوڑا بھی پوری شدت کے ساتھ اس لوٹ مار میں شریک ہونا چاہتا ہے مگر وضعداری اور بزدلی آڑے آ جاتی ہے، اگر اسے اس کام کے لئے مناسب مواقع فراہم کئے جائیں تو وہ کسی کو قریب بھی نہ پھٹکنے دے۔

یہ مڈل کلاس گھوڑا تمام عمر شدید قسم کے احساس کمتری میں مبتلا رہتا ہے، ہمیں بتایا گیا کہ ایک بار اس گھوڑے کو باقاعدہ ماہر نفسیات کے پاس لے جانا پڑا۔ماہر نفسیات نے اس کے کان میں کچھ کہا جس پر اس نے انکار میں سر ہلایا ،جس پر ماہر نفسیات نے اس کے علاج سے معذوری کا اظہار کیا، بعد میں اس ماہر نفسیات نے بتایا کہ میں نے اس سے پوچھا تھا تم سجے سجائے گھوڑے کی بجائے عام گھوڑا بننا پسند کرو گے کہ سر پر کلغی اور پائوں میں قیمتی جھانجر کے بغیر بھی ایک گھوڑا معزز ہو سکتا ہے مگر اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔ اس نوع کی نفسیاتی پیچیدگیاں دراصل مختلف عوامل کے باعث پیدا ہوتی ہیں اور ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ چونکہ ابتدا ہی سے یہ شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگوں کو زرق برق لباس اور قیمتی گہنوں میں ملبوس دیکھتا ہے اس لئے وہ اپنے سر کی کلغی اور پائوں کی جھانجر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا خواہ اس کے لئے اسے دولہا اور اس کے شہ بالے کو بھی اپنی پیٹھ پر سوار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

اس گھوڑے کو متذکرہ نوع کی تقریبات میں اگلے پائوں اٹھا کر رقص کرنے کی کوشش کرتے بھی دیکھا جاتا ہے لیکن اس کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کیونکہ اس صورت میں دولہا کے منہ کے بل گرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں گھوڑے کی بدنیتی شامل ہوتی ہے، وہ تو محض بڑے لوگوں کی خوشی کو اپنی خوشی ظاہر کرنے کے لئے رقص کرنا چاہتا ہے، اپنی پیٹھ پر بٹھا کرگھوڑے کے مالک نے دوران گفتگو گھوڑے کی نیت پر کھل کر شک کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کی یہ حرکت دانستہ ہوتی ہے، وہ نہ صرف دولہا میاں کو منہ کے بل گرانا چاہتا ہے بلکہ باراتیوں پر بھی دولتیاں جھاڑنے کی دبی دبی خواہش دل میں رکھتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ ایسا کر بھی گزرتا ہے تاہم زیادہ تر وہ ’’کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے‘‘کے چکر میں رہتا ہے، اس کی امکانی وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ معاشی حالات کے باعث اس گھوڑے کی اپنی شادی نہیں ہو پاتی اس لئے وہ لاشعوری یا شعوری طور پر کسی اور کو بھی سہرے باندھے نہیں دیکھ سکتا۔