کئی درس دینے والا ایک منظر

بڑھتی ہوئی آبادی اور روز روز کے دھرنوں کے تناظر میں اسلام آباد پولیس میں وفاقی حکومت نے سولہ سو کانسٹیبلز کی بھرتی کا فیصلہ کیا۔ آپ سب کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف سولہ سو اسامیوں کے لئے تقریبا ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں نے آن لائن درخواستیں دیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں ماسٹر ڈگری ہولڈرز بھی تھے۔ہم جانتے ہیں کہ ایک کانسٹیبل کی تنخواہ کتنی قلیل اور ڈیوٹی کتنی مشکل ہے ۔ انہیں جون جولائی کی شدید گرمی کی دوپہر میں یا پھر دسمبر کی سرد رات میں چیک پوسٹ پر کھڑا رہ کر ایسے عالم میں ڈیوٹی دینا پڑتی ہے کہ کسی بھی وقت کوئی خودکش حملہ آور آکر ان کے ساتھ پھٹ سکتا ہے یا پھر وہ کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بن سکتا ہے ۔ پولیس کانسٹیبل اپنے گھر اور بچوں سے مہینوں دور رہتا ہے اور اب تو رانا ثنااللہ اور اکبر ناصر خان کچھ بہتری لائے ہیں ورنہ ان کی تنخواہ نہایت کم اور رہائش نہ رہنے کی قابل تھی ۔اب اگر جان خطرے میں ڈالنے والی اورکم تنخواہ والی کانسٹیبل کی سولہ سو اسامیوں کیلئے ڈیڑھ لاکھ نوجوان(جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل تھے) درخواستیں دیتے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں بیروزگاری کی حالت کیا ہے؟۔ ان ڈیڑھ لاکھ امیدواروں کی اسکروٹنی کی گئی۔ قد، چھاتی اور دوڑ کے مقابلوں میں جنہوں نے رہ جانا تھا وہ باہر رہ گئے اور28ہزار امیدوار باقی بچے ۔ ان 28 ہزار امیدواروں کو تحریری امتحان کیلئے گزشتہ روز اسلام آباد کے اسپورٹس کمپلیکس میں بلایا گیا تھا۔ 28 ہزار امیدواروں سے بیک وقت امتحان لینا اسلام آباد پولیس کا ایک انوکھا کارنامہ یوں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کو ایک جگہ جمع کرنا، ان کے موبائل اور بیگ باہر رکھوانا اور پھر نقل کی روک تھام کیلئےڈرون سے بھی نگرانی کرنا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔دہشت گردی کے خطرے کے ساتھ سال کے آخری دن یعنی اکتیس دسمبر کو ہونے والے امتحان میںگوادر سے لے کر گلگت تک اور پشاور سے لے کر کراچی تک وہ لڑکیاں اور لڑکے شریک تھے جو پہلی اسکروٹنی میں جسمانی طور پر فٹ قرار دئیے گئے تھے۔ اسلام آباد پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں بھائی، والد یا ماں کی صورت میں مزید لوگ بھی ان امیدواروں کے ساتھ اس روز اسلام آباد آئے تھے اور انہیں سنبھالنا ایک الگ چیلنج تھا۔ ان ہزاروں امیدواروں کی تصاویر اور ویڈیو فوٹیجز اس روز سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئیں اور ان پر طرح طرح کے تبصرے ہونے لگے۔ تاہم میری توجہ تین اہم نکات کی طرف گئی جو آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں یہ نوجوان لڑکے لڑکیاں انتہائی نظم وضبط کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ چند امیدواروں کے موبائل چوری ہونے کی خبریں ضرور آئیں لیکن ظاہر ہے کہ 28ہزار امیدواروں کے بیگ اور موبائل باہر رکھنے کا انتظام کوئی آسان کام نہیں تھا جبکہ خود ان امیدواروں نے بھی غلطی کی تھی کہ اس جگہ تک بیگ یا موبائل لائے تھے۔یہ سال کا آخری دن تھا۔ پولیس کورات کو نیوائیرنائٹ کو پرامن بنانے کی تیاری بھی کرناتھی ۔ دوسری طرف اسی دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا اور بے یقینی کی وجہ سے پولیس اس کیلئے بھی کسی حدتک تیاری میں لگی تھی لیکن اس کے باوجود 28ہزار کے اس مجمع میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا ، نہ کسی لڑکے نے کسی لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کی اور نہ کوئی احتجاج ہوا۔ ہزاروں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اس اجتماع کی تصاویر اور ویڈیوز باہر آئیں تو ان سے خطاب کیلئے کچھ سیاستدانوں کے منہ میں پانی بھر آیا اور بعض حکومتی شخصیات نے ان سے خطاب کی خواہش بھی ظاہر کردی لیکن اسلام آباد پولیس نے ان سے معذرت کرلی ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ ہمارے نوجوان سیاسی قیادت اور نااہلیوں کے باوجود مہذب اور منظم ہیں ۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر نظم و ضبط اور قانونی اجازت ہو تو چاہے پچاس ہزار لوگ بھی اسلام آباد آجائیں تو انتظامیہ انہیں تحفظ فراہم کرسکتی ہے ۔ واضح رہے کہ اس روز اسلام آباد میں ان نوجوانوں کو جمع کرنے سے چند روز قبل اسی شہر میں ایک خودکش حملہ ہوا تھا۔ انتظامیہ کے بعض لوگ بھی دہشت گردی کے خطرے کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کو جمع کرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کے معاشی مستقبل اور پولیس کی ضرورت کی خاطر یہ رسک لیا گیا ۔ یہ سیاستدانوں کیلئے لمحہ فکریہ اور سبق ہے، اور اگر وہ اسلام آباد میں احتجاج کیلئے ضابطہ کار اور قانون کے احترام پر اتفاق کریں تو وہ اپنا جلسہ جلوس بھی کرسکیں گے اور کہیں کنٹینر لگانے، سڑکیں بند کرنے اور شیلنگ کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی ۔اگر بے روزگاری ،ذہنی بیماریوں کا شکار بدحال نوجوان اور ان کے والدین اتنی بڑی تعداد میں عزت و احترام کے ساتھ آکر مقابلے کے امتحان میں شریک ہوسکتےہیں اور بخیروخوبی واپس جاسکتے ہیں تو جلسے جلوس بھی پرامن طریقے سے ہوسکتے ہیں ۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ 2022 کے آخری چھ ماہ ہم نے یہ دعوے سنتے ہوئے گزارے کہ اسلام آباد میں دھرنے کیلئے دس لاکھ لوگ لائے جائیں گے جس کی وجہ سے یہاں کے تاجروں اور کاروباری لوگ شدید بے چینی کا شکار رہے ۔ گزشتہ روز اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران ان کا ہوٹل بیشتر اوقات ویران رہا لیکن جب سے دھرنے کا خطرہ کم ہوا ہے، ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ ان کے ہوٹل کے تمام کمرے بک نہ ہوئے ہوں حالانکہ دس تو کیا اسلام آباد میں کوئی پانچ لاکھ لوگ بھی نہیں لاسکا۔پولیس کانسٹیلبز کی بھرتی کیلئےٹیسٹ کے اس عمل نے کم از کم ہمارے لئے انسانوں کی گنتی ٹھیک کروا دی۔اس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ اگرکوئی لیڈر دس لاکھ لوگ اسلام آباد لائے گا تو اسےاسپورٹس کمپلیکس جیسے چالیس اسٹیڈیم بھرنے پڑیں گے اور پارکنگ کیلئے ڈی چوک سے لے کر موٹروے تک انتظامات کرنے پڑیں گے ۔

بہ ہر حال سب سے بڑا سبق اس اجتماع نے ہمیں یہ دیا ہے کہ اس ملک میں بیروزگاری ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہے اور کسی بھی صورت سرکاری محکموں میں ان نوجوانوں کو نہیں سمویا جاسکتا ۔ اس لئےنوجوانوں کی اس سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کہ اچھی زندگی گزارنے کا واحد راستہ سرکاری نوکری نہیں بلکہ نجی شعبہ میں جاکر یا پھر کسی بھی طرح کا روزگار شروع کرکے بھی نہ صرف اچھی زندگی گزاری جاسکتی ہے بلکہ معیشت کی بہتری میں حصہ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔