معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ویگو ڈالے والے:انصار عباسی
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پشاور میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویگو ڈالے والے سیاستدانوں اور صحافیوں کا پیچھا چھوڑیں اور دہشت گردی کی طرف توجہ دیں۔ بہت اچھی بات کی عمر ایوب نے۔ ہونا بھی یہی چاہیے لیکن ویگو ڈالے والوں کو یہاں تک پہنچانےمیں سیاستدانوں کی کتنی ذمہ داری ہے اس بات کا بھی عمرا یوب جائزہ لے لیں۔
عمران خان ویگو ڈالے والوں کے تو بہت قریب رہے، اُنہی ویگو ڈالے والوں کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کیلئے استعمال کیا، صحافیوں کو ٹارگٹ کیا۔ اب ویگو ڈالے والے عمران خان اور اُن کی پارٹی کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور عمران خان اور تحریک انصاف کے مخالفین اس پر خوش ہیں۔ اس سب کے باوجود عمران خان تو اب بھی ویگو ڈالے والوں کے ساتھ ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔
وہ تو سیاستدانوں کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ عمران خان کی تو کوشش ہے کہ ویگو ڈالے والے ایک بار پھر اُن کے ساتھ مل جائیں اور اُن کے مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کریں جس کا شکار آجکل عمران خان اور پی ٹی آئی ہے۔ چند دن پہلے خان صاحب نے کہا کہ وہ مذاکرات کے دروازے اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کیلئے بند کر رہے ہیں۔
ویسے خان صاحب نے سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے اپنا دروازہ تو کبھی کھولا ہی نہیں تھا جبکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی منتیں ترلے ہی کرتے رہے کہ مجھ سے مذاکرات کر لیں۔ فوج نے صاف صاف کہہ دیا کہ اُن کا دروازہ مذاکرات کیلئے بند ہے۔ اور اب عمران خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ پر بھی مذاکرات کے دروازے، جو کبھی کھلے ہی نہیں، کو بند کر رہے ہیں۔ عمران خان کو تو سمجھانا شایدممکن نہیں لیکن عمر ایوب نے جو بات کی اور وہ واقعی چاہتے ہیں کہ ویگو ڈالے والے سیاست سے دور ہو جائیں تو پھر تحریک انصاف کو سیاسی جماعتوں سے بات کرنی پڑے گی، پھر تحریک انصاف کو ن لیگ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ اگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گی نہیں، اگر سیاستدان ایک دوسرے کو ہی جیلوں میں ڈال کر خوش ہوتے رہیں گے اور اس کو جمہوریت کی پہچان کے طور پر دیکھیں گے تو پھر ویگو ڈالے والے ہی مضبوط ہوں گے،اور سیاستدان ایک دوسرے ہی کو نشانہ بناتے رہیں گے۔
عمر ایوب اور تحریک انصاف کے دوسرے رہنمائوں کو چاہئے کہ عمران خان کو سمجھائیں۔ نفرت کی سیاست ختم کریں، دوسروں کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرنے، جھوٹ اور بہتان تراشی سے اجتناب کریں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلانےکیلئے اتفاق رائے پیدا کریں۔ سیاست کبھی پاکستان میں قابل فخر نہیں رہی لیکن عمران خان اور تحریک انصاف نے سیاست میں بہت گند پیدا کر دیا، جس کی ایک جھلک تحریک انصاف کے اسلام آباد کے جلسہ میں علی امین گنڈا پور نے دنیا کو دکھائی۔ جو کچھ وہاںکہا گیا، اُس کے صحافیوں سے متعلق حصہ پر تو عمرایوب، بیرسٹر گوہر سمیت کتنے تحریک انصاف کے رہنمائوں نے معافی مانگی جبکہ گنڈاپور کی تقریر کے باقی حصوں پر بھی پہلے ایک دو دن تحریک انصاف کے رہنما معذرت خواہ ہی دکھائی دیے لیکن جیل سے عمران خان نے تو گنڈاپور کی تقریر کی مکمل حمایت کر دی اور یہ کہہ دیا کہ جو پی ٹی آئی رہنمااُس تقریر کی مخالفت کر رہے ہیں وہ بزدل ہیں اور اُنہیں پارٹی چھوڑ دینی چاہیے۔ نہیں معلوم عمران خان کے اندر کا غصہ اور نفرت کیسے ختم ہو ں گے۔
یہ غصہ اور نفرت اُس وقت بھی موجود تھے جب عمران خان ملک کے وزیراعظم تھےاور آج بھی ہے جب وہ جیل میں ہیں۔ تحریک انصاف کے کسی رہنماکی جرات نہیں کہ وہ بات کرے جو عمران خان کی مرضی کے خلاف ہو، اس لیے ہو گا وہی جو عمران خان چاہتے ہیں۔ ویگو ڈالے والوں کو سیاسی معاملات سے نکالنا ہے تو پھر عمران خان کو صرف اور صرف سیاستدانوں سے ہی بات کرنی پڑے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ویگو ڈالے والے ہی سیاستدانوں کو اپنی مرضی سے نچاتے رہیں گے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)