خطرے کی گھنٹی

شکر ہے ایک آواز پی ٹی آئی کی لیڈر شپ میں سے بھی سنائی دی ہے جس پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی ہے جس میں وہ صدر مملکت سے کہہ رہی ہیں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں، پٹرول بم پھینکے جا رہے ہیں، بہت خون خرابے کا اندیشہ ہے، آپ ’’ان‘‘ سے بات کریں اللّٰہ جانے صدر مملکت نے بات کی ہو گی یا نہیں لیکن میں ایک پاکستانی کے طور پر ملک کو خطرات میںگھرا دیکھ کر سخت پریشان ہوں۔زمان پارک میں جو ہو رہا ہے اور اُدھر سے پولیس کو ’’خیر سگالی‘‘ کے جو پیغامات بھیجے جا رہے ہیں، یہ سب کچھ غیر معمولی ہے ۔یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ پولیس نے جن ملزموں کو پولیس پر حملہ کرنے اور انہیں زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ان میں سے کچھ افغانی بھی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا کہ زمان پارک میں موجود گلگت بلتستان کی پولیس نے لاہور پولیس پر ہتھیار تان لئے تھے۔ آج ہی میں نے ایک ویڈیو دیکھی، ایک بس گلگت بلتستان کے نوجوانوں سے بھری ہوئی ہے اور ان میں سے ایک نوجوان مائیک پر اعلان کر رہا ہے کہ ہم کپتان کا ساتھ دینے کیلئے لاہور پہنچ رہے ہیں۔ میرے کچھ دوستوں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے یہ سب پڑھے لکھے لوگ ہیں عام زندگی میں بہت نفیس شخصیت کے مالک ہیں مگر جب پی ٹی آئی کی بات آتی ہے تو ان کی زبان شعلے اگلنےلگتی ہے وہ خان سے اختلافات رکھنے والوں کو بکائو مال ،ملک دشمن اور جانے کیا کیا کچھ کہتے ہیں۔ یہ لوگ کھل کھلا کر خونی انقلاب کی بات کرتے ہیں پاک فوج کے کسی مخصوص گروہ کے بارے میں نہیں بلکہ پوری فوج کو گندی گالیاں دیتے ہیں ۔آپ کو میری یہ بات بہت عجیب لگے گی کہ اسکے باوجود میں انہیں ملک دشمن نہیں نادان محبِ وطن سمجھتا ہوں، خان نے ان پر جادو کیا ہوا ہے اور یہ نہیں جانتے جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جانے والا ہے۔

میرے ان دوستوں کا خیال ہے کہ جب ملک میں خونی انقلاب آئے گا، اس کے نتیجے میں خان مسند اقتدار پر جلوہ فگن ہو گا تو اس کے سامنے کی سب رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور پاکستانی عوام خوشحال ہو جائیں گے۔ میں اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ چار سال اقتدا رمیں رہنےکے باوجود حالات بہتری کی بجائے ابتری ہی کی طرف گئے ہیں، صرف یہ عرض کروں گا کہ میرے ان دوستوں نے شاید ان ملکوں کی تاریخ نہیں پڑھی جہاں خونی انقلاب آئے،ایسے حالات میں سیاسی قیادت کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور اس کی جگہ جرائم پیشہ لوگ لے لیتےہیں، اس کے بعد گھر لوٹے جاتے ہیں خواتین پر مجرمانہ حملے ہوتے ہیں اور ان کی زد میں کوئی ایک جماعت نہیں بلاتمیز تمام جماعتوں کے لوگ بشمول عوام سب آتے ہیں ۔میں نے اپنی زندگی میں قیام پاکستان کے بعد کی تمام سیاسی تحریکیں دیکھی ہیں بہت جوش اور جذبے سے بھری ہوئی عوامی ریلیاں دیکھی ہیں لیکن کسی ایک دور میں بھی ان تحریکوں کے قائدین نے پاکستان کے مختلف صوبوں کے عوام کو ایک دوسرے کے سامنے حریف کے طور پر کھڑا نہیں کیا ،یہ پہلا موقع ہے کہ عوام کو بھی ایک دوسرے کے سامنے دشمن بنا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ۔گالی گلوچ ،مار کٹائی، الزامات اور بیہودہ گوئی عام ہو گئی ہے اور ’’سیاسی اختلاف‘‘ کا یہ معیار پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دل اس صورتحال پر سخت پریشان ہے کہ اگر اس صورتحال کو سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی سے نہ لیا اور حالات کی بہتری کے لئے امن و آشتی کا راستہ نہ اپنایا تو یاد رکھیں

ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

میں یہ کالم لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ میں کہیں صحرا میں اذان تو نہیں دے رہا مگر میں یہ نہیں کہوں گا کیونکہ مایوسی کی فضا میں بعض اوقات ایک امید بھری آواز بھی سنائی دے جاتی اور ایک مدھم سی آواز سنائی تو دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ حالات کو بے قابو دیکھ کر خود وہ عناصر بھی جنہیں میں پاکستان کے نادان دوست سمجھتا ہوں ایک ایک کرکے سامنے آئیں گے اور اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ملک کو کسی ایسی دلدل میں نہیں جانے دیں گے جس سےنکلنا خود ان کے لئے بھی ناممکن ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت ہمارے ذرائع ابلاغ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عوام کے سامنے مثبت اور منفی آرا کا متوازن تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔ تاہم کبھی کبھی وہ بھی جذبات میں آجاتے ہیں یہ موقع جوش کا نہیں ہوش کا ہے، ہم سب کے ہوش میں آنے کا ہے پاکستان سے عشق کرنے والوں کو جاگنے اور جگانے کا فرض ادا کرنے کا ہے۔بہرحال اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں عوام کو پاکستان سے جوڑے رکھیں انہیں ٹکڑوں میں نہ بانٹیں ان دنوں انڈیا ہمارے حالات پر بہت خوش ہے اور اس کی یہ خوشی مختلف بیانات کی صورت میں سامنے آ رہی ہے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے،اب خواب غفلت سے بیدار ہونے کا وقت ہے۔

پس نوشت:میرے گزشتہ روز کے کالم میں ناول نگار محترمہ طاہرہ اقبال کا نام سہواً نیلوفر اقبال شائع ہو گیا ہے جس کیلئے معذرت :

آخر میں قمررضا شہزاد کی ایک غزل:

سنے گا دکھ بھرا قصہ خدا ضرور مرا

زیادہ دور نہیں مجھ سے کوہ طور مرا

کوئی بھی شے یہاں ترتیب میں نہیں مرے دوست

یہ کائنات بھی دراصل ہے فتور مرا

مہک رہی ہے تری آنکھ میں وصال کی رات

رواں دواں ہے ترے خون میں سرور مرا

مجھے نہ ماننے والے ضرور دیکھیں گے

کسی زمانہ آئندہ میں ظہور مرا

یہ آئینہ جو مجھے روز و شب سنوارتا ہے

یہی کرے گا کبھی عکس چور چور مرا

مرا تو ’’میں‘‘ کی رفاقت میں سانس گھٹتا ہے

سو آئے اور کوئی توڑ دے غرور مرا

جلا ہوا ہےسر طاق عشق جو شہزاد

اسی چراغ کی لو میں کہیں ہے نور مرا