امجد اسلام امجد، جسے بھلایا نہ جا سکے گا!

آج صبح ناشتے کے دوران فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف عباس تابش تھے انہوں نے مجھے اچانک صدمے سے محفوظ رکھنے کےلئے کچھ تمہید کے بعد بتایا کہ امجد اسلام امجد انتقال کر گئے ہیں اور مجھے یوں لگا میری اور امجد کی نصف صدی سے کہیں زیادہ طویل دوستی نے آخری ہچکی لے لی ہے ۔اس کے بعد عزیر احمد اور دوسرے دوستوں کے فون آنے لگے پشاور سے ناصر علی سعید نے مجھے پُرسا دینے کے لئے کال کی اور میرا دل ڈوبتا چلا گیا ۔امجد میرا سب سے پرانا دوست تھا۔

امجد سے میری پہلی ملاقات اسلامیہ کالج لاہور کے شمع ثانیہ کے ہاں مشاعرے میں ہوئی اس وقت ہم دونوں کالج کے طالب علم تھے اور غالباً ہم دونوں کی زندگی کا یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں ہم بطور شاعر شریک ہوئے ،ہم ایک دوسرے کے نام سے واقف تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ملاقات’’برائے نام ‘‘سے دوستی اور پھر دوستی کی انتہا تک پہنچ گئی ۔پھر یوں ہوا کہ میں اور امجد اسلام ایم اے او کالج لاہور میں بطور لیکچرار کولیگ بھی ہو گئے گھر سے باہر زیادہ وقت ہم ایک ساتھ ہی گزارتے تھے، اندرون ملک اور بیرون ملک کے مشاعروں میں بھی ہم اکٹھے ہوتے تھے اس دور میں اندرون ملک مشاعروں میں ہمیں بسوں ،ویگنوں اور ٹرین میں سفر کرنا پڑتا تھا ایک دفعہ اوکاڑہ والوں نے تو ہمارے سفر کے لئے جو ویگن بھیجی وہ اوکاڑے سے بکروں کی کھالیں لاہور ڈراپ کرنے آئی اور واپسی پر شاعروں کو اوکاڑہ ڈراپ کیا۔

ہم سب کی طرح امجد بھی سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اس نے ثابت کر دیا کہ اپنے کام سے لگن اور محنت انسان کو وہ مقام دیتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے چنانچہ امجد نے شاعری شروع کی تو برصغیر پاک وہند میں اس کا نام گونجنے لگا ،ڈرامے لکھے تو ہر طرف دھوم مچ گئی وہ اخبار میں کالم بھی لکھتا تھا، امجد بے حد زود نویس تھا لکھنے بیٹھتا تو ایک ہی ’’سانس‘‘ میں سب کچھ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا وہ انتہائی خوش خط بھی تھا اور اس کے برعکس میں ہر کام میں سست رو ہونے کےساتھ ساتھ بدخط بھی تھا اور یوں میں گزشتہ تین چار برسوں سے اتنا فعال نہیں رہا جتنا کبھی ہوتا تھا گھٹنوں میں تکلیف کے بعد گزشتہ چند ماہ سے میں بیرون ملک اور اندرون ملک کے علاوہ اپنے شہر کی تقریبات میں بھی شرکت سے گریز کرتا ہوں کہ جہاں دو چار سیڑھیاں بھی ہوں وہ میرے لئے ایک امتحان ہوتی ہیں سیڑھیاں نہ بھی ہوںتو بھی اسٹیج پر تو چڑھنا ہی پڑتا ہے۔ میرے برعکس امجد آخری عمر میں بھی نہایت ناتواں ہونے کے باوجود دور دراز کے سفر اختیار کرتا اور رات بھر مشاعروں میں بیٹھا رہتا ۔چند ماہ پیشتر میں اور امجد ایک ٹی وی چینل میں مدعو تھے اس روز میں نے دیکھا کہ کار تک جانے کے لئے اسے ایک مداح کا سہارا لینا پڑا اس دوران اس نے آہستہ سے میرے کان میں کہا یار یہ ٹی وی چینلز والے بہت بڑے مفت برہیں ہمیں آئندہ ان کے پروگراموں میں شرکت کا معاوضہ طلب کرنا چاہئے ۔میں نے جواب میں ہنستے ہوئے کہا ’’بچے ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ بغیر معاوضہ ادا کئے ان کے پروگراموں میں شرکت کر لیتے ہیں کچھ چینلز پر کچھ لوگوں کو آنے کےلئے بڑے مہنگے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ‘‘ اس پر اس کی نحیف سی ہنسی سنائی دی۔

امجد کو انپے اکلوتے بیٹے علی ذیشان سے شدید محبت تھی، دو بیٹیاں اور ان سے بھی وہ ٹوٹ کر محبت کرتا تھا ایک بیٹی روشین عہد حاضر کے سب سے بڑے مزاح گو شاعر انور مسعود کے بیٹے عاکف سے بیاہی گئی اور یوں انور مسعود کے ساتھ اس کی دیرینہ دوستی رشتہ داری میں بدل گئی ہماری بھابی اس کی چچا زاد ہیں امجد نے اسے مخاطب کرنا ہوتا تو اس کے نام سے نہیں پکارتا تھا بلکہ ’’دوست‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا تھا اس تخاطب میں وہ یگانگت اور محبت ایک سراپاکی شکل اختیار کر لیتی تھی جو ان کے درمیان ساری عمر رہی، میں اور امجدنے توہمارا وقت شاید عزیز واقربا کے ساتھ قدرے کم ہی گزارا ہو جتنا ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ گزارا ،لوگ تصور نہیں کر پاتے تھے کہ میں اور امجد کسی محفل میں اور سفر وحضرمیں اکٹھے نہ ہوں ،ویسے بھی لوگ محفلوں میں ہمیں اتنا ہی دیکھنا چاہتے تھے کہ انہیں ہماری جملہ بازیوں کا چسکا پڑ گیا تھا ہم دونوں جہاں ہوتے وہاں سنجیدہ بات کی گنجائش ذرا کم ہی ہوتی بلکہ ایک بیرونی سفر میں حضرت ضمیرجعفری بھی ہمارے ساتھ تھے وہ چارپائی پر لیٹے اونگھ رہے تھے اور میں اور امجد ایک دوسرے پر جملے کس رہے تھے اس دوران ضمیر صاحب نے ہمیں نیم وا آنکھوںسے دیکھا اور کہا ’’آج پتہ چلا کہ جب تمہیں کوئی تیسرا نہ ملے تو تم ایک دوسرے کے ساتھ ’’نیٹ پریکٹس‘‘ کرتے ہو۔

احمد شاہ کے لاہور میں جاری ادبی میلے میں آج امجد اسلام کے ساتھ ایک خصوصی سیشن تھا مگر وہ وہاں نہیں ہو گا وہاں اس کی یاد ہو گی اور یہ وہ یاد ہے جو کبھی دلوں سے محو نہیں ہوگی میں تو بقیہ عمر کی باقی ماندہ گھڑیاں بس اس یاد کے ساتھ بسر کروں گا۔