فوج، پی ٹی آئی اور عارف علوی

پاکستانی سیاست میں یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ اپنی تخلیق خالق کے گلے پڑگئی۔ اس سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے پرائیویٹ ملیشاز بنائیں جو بعد میں ان کے لئے دردِ سر بن گئیں ۔

افغانستان میں طالبان کو سپورٹ کیا اور یہ معاملہ بھی گلے پڑ گیا ۔بھٹو کی ابتدا میں سرپرستی کی اور وہ بعد میں ان کیلئے اتنا بڑا چیلنج بن گئے کہ انہیں پھانسی پر چڑھانا پڑا۔بے نظیر بھٹو کے خلاف میاں نواز شریف کی سرپرستی کی اور بعد میں وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے گلے کی ہڈی بن گئے۔

حقیقت میں پاکستانی فوج اور اس کی ایجنسیاں کبھی ایک روز بھی سیاست اور سفارت سے لاتعلق نہیں رہیں لیکن جو قیمت مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی ، قوم پرست جماعتوں اور مین اسٹریم مذہبی جماعتوں کو آئوٹ کرنے کی خاطر عمران خان کو لیڈر اور پھر وزیراعظم بنوانے کے لیے اداروں نے ادا کی، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

پی ٹی آئی اپنے آغاز کے وقت گولڈا سمتھ وغیرہ کا پراجیکٹ تھا لیکن 2010میں اسے اسٹیبلشمنٹ نے گود لے لیا۔ آئی ایس آئی نےتب اس پارٹی میں لوگوں کو مجبور کرکے شامل کروایا۔ انہیں سرمایہ داروں سے پیسے دلوائے ، پھر ان سے دھرنے کروائے۔ پولیٹکل مینجمنٹ کی گئی۔

نیب کو بدترین طریقے سے استعمال کیا گیا ۔ عدالتوں سے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سزائیں دلوائی گئیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف بھی اسی طرح کے اقدامات کئے گئے ۔ فارن فنڈنگ کا کیس اسٹیبلشمنٹ نے ہی منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیا ورنہ عمران خان الیکشن سے قبل ہی نااہل ہوجاتے ۔

اس کے باوجود عمران خان الیکشن نہیں جیت سکتے تھے چنانچہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا اور سیکرٹری بابر یعقوب کے ذریعے آر ٹی ایس سسٹم فیل کروایا گیا۔ پھر باوردی سپاہیوں سے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر ان سے پی ٹی آئی کے حق میں مہریں لگوائی گئیں۔

چنانچہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وزیراعظم بنوایا اوریہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان کے حق میں نہ صرف’’ و تعزمن تشا و تذل من تشا ‘‘کا ٹویٹ کیا بلکہ میڈیا کو ہدایت کی کہ وہ چھ ماہ تک عمران خان حکومت کے خلاف کوئی منفی خبر شائع یا نشر نہ کریں۔ لیکن روایتی احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز فوج کے خلاف ہوگئے۔

عمران خان کی سپورٹ کی وجہ سےپہلے چار سال فوج کو مخالف جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اب پی ٹی آئی نے تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔

مین اسٹریم میڈیا کے وہ اینکرز اور تجزیہ کار جو آئی ایس پی آر کی برکت سے اپنی دکان چلارہے تھے ، کو عمران خان نے فوج کے خلاف کھڑا کردیا ۔عمران خان سے مفادات اور ہدایات لینے والی میڈیا آرگنائزیشنز ، میڈیا پرسنز اور ٹرولز نے عسکری اداروں کی وہ کردار کشی کی کہ الامان الحفیظ ۔

یہ سب کچھ وہ سویلین بالادستی کے لیے نہیں کررہے تھے بلکہ انہیں بلیک میل کرکے چاہتے تھے کہ وہ دوبارہ انہیں گود لے لیں اور ان کے لیے ماضی کی طرح غیرآئینی اقدامات کریں ۔ تاہم اس مرتبہ فوجی قیادت نے جس صبر اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا وہ حیران کن تھا۔

وہ میڈیا آرگنائزیشن اور وہ میڈیا پرسن جن کی ساری دکانداری فوج کی سرپرستی کی مرہون منت تھی، فوج کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرنے لگے کہ اگر فوج کا ماضی کا رویہ ہوتا تو وہ اب تک اپنے چینلوں سمیت غائب ہوچکے ہوتے لیکن ان میں سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے قاسم سوری جیسے لوگ جو یونین کونسل کے ممبر نہیں بن سکتے ، کوبھی عمران خان کی شہہ پر پاکستانی فوج اور اس کے میزائل پروگرام کا مذاق اڑانے کی ہمت ہوئی۔

ایک طرف پی ٹی آئی یہ کرتی رہی اور دوسری طرف کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ منت ترلے کرنے کیلئے فوجی قیادت یا ان کے کسی نمائندے کے پاس بندہ نہ بھیجاہو ۔لیکن جب فوج اپنے آئینی رول تک محدود رہنے پر مصر رہی تو پی ٹی آئی فوج کے بارے میں گراوٹ کی اس انتہا تک آگئی کہ جب کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ، اپنے پانچ ساتھیوں سمیت سیلاب زدگان کی مدد کی مقدس ڈیوٹی میں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے تو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز نے اس موقع کو بھی گندے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ انتہائی لغو اور من گھڑت تھیوریز نکالیں اور شہدا تک کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی کہ اس سے نہ صرف شہدا کے ورثا کی فیملیز بالخصوص اور پوری فوج کی بالعموم شدید دل آزاری ہوئی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب صدر عارف علوی نے جنازے میں شرکت کی خواہش ظاہر کی تو انہیں شہدا کے لواحقین کے غم و غصے کے پیش نظر،آنے سے منع کیا گیا جبکہ دوسری طرف وزیراعظم میاں شہباز شریف اور کئی وزرا جنازے میں شریک ہوئے ۔ پی ٹی آئی نے اب ملکی سلامتی کے ساتھ نیا کھلواڑ شروع کردیا ہے اور سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلانے لگی ہے کہ ایمن الظواہری کو جس ڈرون نے کابل میں نشانہ بنایا ، وہ پاکستان کی زمینی حدود سے گیا تھا حالانکہ خود افغان طالبان نے ایسا کوئی الزام نہیں لگایا ۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ ڈرون کرغزستان سے اڑ کر آیا تھا ۔ اب جہاں تک ہوائی کاریڈور یا پھر سرویلنس والے ڈرونز کے پاکستانی سرزمین سے گزرنے کا معاملہ ہے تو پی ٹی آئی کے یہ احمق یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جس قرارداد کے تحت افغانستان میں آیا تھا ، وہ اپنی جگہ پر موجود ہے اور اس قرارداد کی رو سے ہر ملک افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کا پابند ہے ۔ یہ کاریڈور جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کو دیا گیا تھا ۔

عمران خان کی پوری حکومت میں بھی امریکیوں کو یہ سہولت حاصل تھی اور ان کی حکومت میں بھی امریکہ افغانستان تک جانے کیلئے یا پھر سرویلنس کیلئے ڈرون لے جانے کی سہولت سے استفادہ کررہا تھا لیکن پوری حکومت میں عمران خان نے اس کو روکا اور نہ شیریں مزاری جیسے لوگ اس کے خلاف بولے لیکن اب جب سیاست کی ضرورت پڑگئی ہے تو عمران خان اور ان کے ساتھی یہ غلط تاثر دے کر افغان طالبان کو پاکستان کا دشمن بنانے پر تلے ہوئے ہیں کہ حملہ کرنے کیلئے ڈرون پاکستان سے یا پاکستان کے راستے سے اڑا تھا۔

دوسری طرف نہ صرف عمران خان نے امریکہ سے صلح کیلئے اب دوسرا نمائندہ وہاں بھیجا ہوا ہے بلکہ گزشتہ روز امریکی سفیر نے عمران خان کے وزیراعلیٰ محمود خان سے ملاقات کرتے ہوئے ان کی حکومت کو گاڑیوں کا تحفہ بھی دیا۔