ارشد شریف کے تو پانچ بچے تھے

مرحوم ضیا الدین صاحب کے بڑے بیٹے ڈاکٹر اطہر محمود کا میسج تھا جو انہوں نے دوست وسیم حقی صاحب کے ذریعے بھجوایا۔ ڈان کے دوست عامر وسیم کا فون بھی آیا۔وہ بھی ڈاکٹر اطہر کا پیغام دے رہے تھے۔شاید ڈاکٹر اطہر کے پاس میرا موبائل نمبر نہ تھا۔اطہر ہارٹ سپیشلسٹ ہیں۔جب میں ڈان میں تھا توملاقاتیں ہوتی تھیں۔وہ اُس وقت میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔انہیں اس بات پر شرمندگی تھی کہ ضیا صاحب پر منعقدہ تقریب میں ان کے چھوٹے بھائی اکبر محمود کی تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے ان کے کلپس نکال کر مجھے اور حامد میر کو نشانہ بنایا‘ جیسے وہ تقریر ہمارے خلاف کی گئی ہو۔ڈاکٹر اطہرمیرے ضیا صاحب کے ساتھ تعلق اور احترام سے واقف ہیں‘ لہٰذا انہیں شرمندگی اور افسوس تھا کہ کیسے ان کے بھائی کی باتیں جو عموماً میڈیا اور صحافیوں کے حوالے سے تھیں‘ کا رخ میری اور حامد میر کی جانب موڑ دیا گیا۔انہوں نے ایک وائس نوٹ بھی بھیجا اور کہا کہ وہ خود ٹوئٹر یا سوشل میڈیا پر نہیں ہیں ورنہ خودبیان جاری کرتے۔انہوں نے احسن اقبال‘ حکومت اور ان سبھی صحافیوں کا شکریہ ادا کیا جو اُس روز ضیاصاحب کی عزت افزائی کیلئے جمع ہوئے تھے۔
جب میں نے ٹوئٹر پر اپنے اور حامد میر کے خلاف یہ مہم دیکھی تو مسکرا دیا۔ اس ہال میں سو سے زائد صحافی اور دیگر لوگ موجود تھے لیکن ٹوئٹر پر ایک پارٹی کے فالورز کو لگا کہ ضیاالدین صاحب کے بیٹے اکبر محمود نے صرف رئوف کلاسرا اور حامد میر کو دیکھ کر وہ باتیں کیں۔ چند لمحے تو مجھے اپنی اہمیت کا احساس بھی ہوا۔اس نوجوان نے میڈیا کے حوالے سے عمومی باتیں کیں جو اکثر ہوتی رہتی ہیں۔اس نوجوان نے کسی کا نام نہ لیا‘ لیکن ہمارے دوستوں کو لگا کہ ہدفِ تنقید ہم دونوں تھے ‘جبکہ اکبر محمود نے مجھے خود بڑی عزت دی‘ بڑے احترام سے اپنے والد صاحب پر لکھے گئے میرے کالموں پر شکریہ ادا کیا۔فرض کریں اگر ہم دونوں ہدفِ تنقید تھے تو کیا میں اور حامد میر صاحب آسمان سے اترے ہیں جن پر تنقید نہیں ہوسکتی یا کوئی ہمارے بارے میں رائے نہیں دے سکتا؟ ہر کسی کی اپنی اپنی رائے ہے اور یہی جمہوریت ہے اور اسی سے معاشرے چلتے ہیں۔اس ہال میں ضیاالدین صاحب کی بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں جنہوں نے بڑے اچھے انداز میں گفتگو کی اور سب کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وہ ضیاالدین صاحب کے لیے اکٹھے ہوئے ۔
میں یہ وضاحتیں ہرگز نہ کرتا کیونکہ روز کوئی نہ کوئی دوست یا سیاسی جماعت سوشل میڈیا پر ہم پر تبرہ کرتی ہے۔کبھی ایک کے فالورز ناراض تو کبھی دوسری کے۔ اب تو عادت سی ہوگئی ہے اور یقین کریں اب ایسی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون خوش ہوا اور کون ناراض‘ لیکن ضیاالدین صاحب کے بڑے بیٹے ڈاکٹر اطہر محمود کی خواہش تھی کہ ان کا پیغام پہنچایا جائے۔ ویسے میرا سوال ہے ان سب لوگوں سے جو ہم صحافیوں سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم اسی صورت میں نیک صحافی کہلا سکتے ہیں اگر وہی کچھ بولیں اور لکھیں جو وہ سننا چاہتے ہیں یا پڑھنا چاہتے ہیں۔وہ جو کچھ میرے منہ سے سننا چاہتے ہیں یا پڑھنا چاہتے ہیں‘ خود وہی کچھ کیوں نہیں لکھتے یا بولتے؟انہیں میرے لکھے یا بولنے کی ضرورت کیوں ہے؟
میں ٹوئٹر کے نئے مالک ایلان مسک کا ٹوئٹ پڑھ رہا تھا‘ اس نے بڑی خوبصورت بات کی کہ اس نئے دور میں اب ہر کوئی صحافی ہے‘ہر کوئی لکھاری ہے۔ یہ Citizen journalismکا دور ہے۔مطلب یہ ہے کہ وہ دور گئے جب چند صحافی یا اخبارات ہوتے تھے جو چوبیس گھنٹوں بعد آپ کے گھر پہنچتے تھے۔ٹی وی بھی ایک ہوتا تھا اور وہ بھی شام چھ بجے سے بارہ بجے تک چلتا تھا۔ ایک ریڈیو ہوتا تھا۔پھر چینلز کی بھرمار ہوئی۔اب یوٹیوب‘انسٹاگرام‘ ٹوئٹر اور فیس بک کا دور ہے۔ اب تو ہر بندہ صحافی ہے۔ پتر کار ہے۔ قلم کار ہے۔وہ جو چاہے رائے دے سکتا ہے۔وہ اب کسی کا محتاج نہیں کہ اس کے سیاسی خیالات کی نمائندگی کرے۔اب آپ ٹوئٹر پر اکاؤنٹ بنائیں‘جو آپ کو ٹھیک لگتا ہے ‘ لکھ کر ٹوئٹ کر دیں۔ آپ یوٹیوب پر اکاؤنٹ بنائیں‘ کیمرے کا رخ اپنی طرف کریں اور جو بولنا ہے بول دیں اور اسے یوٹیوب پر چڑھا دیں۔فیس بک پر پیج بنائیں اور اپنی ویڈیوز‘ تحریریں یا خیالات وہاں چھاپ دیں۔ آپ کا فیس بک پیج اب آپ کا اپنا اخبار ہے۔ اپنا ٹی وی ہے۔اپنا شو ہے۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ جو آپ سوچتے ہیں وہی دوسرے لکھیں یا بولیں یا وہ کچھ کریں جو آپ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کرپاتے۔ جدید دنیا نے آپ کو اس قدر پاور فل کر دیا ہے کہ آپ کے اندر بولنے اور لکھنے کی صلاحیت ہے تو آپ سٹار بن سکتے ہیں۔ اب آپ رئوف کلاسرا یا حامد میر کے محتاج نہیں رہے کہ وہ آپ کی بات کریں۔اب آپ اپنی بات خود کریں۔ ہم صحافیوں نے جو بات کرنی ہے اس کی ہم نے ذمہ داری لینی ہے۔ہمارے اوپر قانون ہیں‘ہمیں ایف آئی اے کو جواب دینا ہے‘پیمرا نے ہمیں بلانا ہے‘عدالتوں میں اپنا لکھا‘بولا ثابت کرنا ہے‘ مگرآپ سب کو یہ آزادی حاصل ہے کہ آپ کسی کو کچھ کہہ دیں آپ کو کسی نے نہیں بلانا ۔
میں اپنے دوستوں کو کہتا رہتا تھا کہ سوشل میڈیا کی اس دنیا میں ہمیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہم نے ٹوئٹر کو گھر کی باندی سمجھ لیا ہے‘جو دل چاہا لکھ دیا‘جو گالی منہ میں آئی دے دی۔ ٹوئٹس اور ری ٹوئٹس کے چکر میں پڑ گئے کہ جو بڑی گالی دے گا اس کو زیادہ لائیکس اور ری ٹوئٹس ملیں گے۔ہم واہ واہ اور بلے بلے کے محتاج ہوگئے اور یوں ہم صحافیوں کی صحافت کا جنازہ نکل گیا۔واہ واہ سے یاد آیا پچھلے ہفتے کینیڈا سے میرا دوست شاہد مصطفی کاہلوں آیا ہوا تھا۔اسلام آباد کلب میں لنچ پر شاہد صدیقی صاحب بھی موجود تھے۔ دور سے ایک صاحب میری طرف آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب تھے۔مجھ سے ہاتھ ملایا اور افسردہ لہجے میں کہنے لگے: ارشد شریف کے قتل کا افسوس ہوا۔ بولے: مجھے اعتراف کرنے دیں کہ اُس دن کلب کی پارکنگ میں جب میری ارشد شریف‘ آپ اور سینیٹر انور بیگ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے ناراض ہو کر کہا تھا کہ ارشد شریف کو زیادہ ہوا نہ بھریں۔اس کے پانچ چھوٹے بچے ہیں۔آپ ٹھیک کہہ رہے تھے۔شاید میں غلط تھا۔
میں‘ارشد شریف اور انور بیگ لنچ پر ملے تھے۔میری وہ ارشد شریف سے آخری ملاقات تھی۔میں دو گھنٹے ارشد شریف کو لنچ پر ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔اس سے یہی بات کررہا تھا کہ ٹوئٹر پر ہاتھ ہولا رکھو۔ واہ واہ بلے بلے اور ری ٹوئٹس کے غلام مت بنو‘خود کو ریسٹ دو‘اپنی صحت کا خیال کرو‘تم ہم سب کو بہت پیارے ہو‘ اپنے بچوں کو بہت عزیز ہو‘ صحافت ایک لمبا سفر ہے‘ایک آدھ دن کی بات نہیں‘ٹھنڈے ہو جائو۔پارکنگ میں یہی صاحب مل گئے اور ارشد شریف کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔وہی واہ واہ۔ وہ ارشد کو اکساتے‘ بھڑکاتے رہے۔یہ بات بھی کرو‘ وہ بات بھی کہو۔ مجھ سے چپ نہ رہا گیا‘ میں نے کہا: سر جی آپ کو پتا ہے ارشد شریف کے پانچ بچے ہیں‘اس کی بیوہ ماں ہے اورایک بہن کی ذمہ داری بھی ہے۔ 2011ء میں والد اور بھائی کی ایک ہی دن موت کے بعد اب یہ گھر میں اکیلا مرد ہے‘اکیلا کمانے والا ہے۔اسے نارمل رہنے دیں‘نارمل صحافت کرنے دیں جو یہ برسوں سے کرتا آیا ہے۔کرنل صاحب کو میری باتیں پسند نہ آئیں۔میں نے کہا: سر جی جو آپ ارشد شریف سے کہلوانا یا کرانا چاہتے ہیں وہ خود کیوں نہیں کرتے؟
آج ارشد شریف کے قتل کے ایک ماہ بعد وہ مجھے کلب میں افسردہ لہجے میں کہہ رہے تھے: رئوف صاحب آپ اُس دن درست کہہ رہے تھے ‘ارشد شریف کے تو واقعی پانچ بچے تھے۔
میں خاموش‘ اداس اور خالی آنکھوں سے کرنل صاحب کو دیکھتا رہا۔