ایوان صدر میں باجوہ نیازی ملاقات۔ اصل حقائق

گزشتہ روز جاوید چوہدری صاحب نے اپنے کالم میں عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کی ایوان صدر میں خفیہ ملاقات کی روداد شائع کی جس پر ایک بار پھر اس موضوع پر بحث گرم ہوئی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان کے چیف آف اسٹاف شبلی فراز نے اس حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا اور حسب عادت جھوٹ بولا کہ یہ ملاقات قمر جاوید باجوہ کی خواہش پر ہوئی حالانکہ جب وہ ایوان صدر جارہے تھے تو انہیں عمران خان یا کسی اور نے بتایا تک نہیں تھا کہ وہ کس سے ملنے جارہے ہیں اور پھر وہ خود بتارہے ہیں کہ انہیں میٹنگ میں بیٹھنے دیا گیا اور نہ نکلنے کے بعد عمران خان نے انہیں کوئی تفصیل بتائی ۔ انہوں نے آدھا سچ بتایا کہ عمران خان نے کھانا نہیں کھایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ غصے یا جادو ٹونے کےخوف سے جنرل باجوہ نے کھانا چکھا تک نہیں ۔چنانچہ میں حقائق کو درست کرنے کیلئے اسی روزنامہ جنگ میں ساڑھے چار ماہ قبل( 24ستمبر 2022)شائع ہونےوالے’’ایوان صدر میں چیف نیازی ملاقات۔۔حقائق اور نتائج“ کا ایک حصہ دوبارہ شائع کررہا ہوں ، جس کی اس دن سے آج تک ایوانِ صدر، شبلی فراز یا کسی اور نے ایک حرف کی بھی تردیدنہیں کی ۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت وہ آرمی چیف تھے اور یہ لوگ دن کو بیان دے کر رات کو انہیں منانے کے لئے منت ترلہ شروع کرتے اور اب وہ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں تویہ سب سینہ تان کر ان کے خلاف بول رہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے اصل جرم اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کا ارتکاب 2018میں کیا جب پولیٹکل مینجمنٹ ، عدلیہ اور میڈیا کے ہاتھ مروڑنے اور پھر الیکشن والے دن پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے کے نام پر الیکشن میں دھاندلی کروا کے جعلی اسمبلیوں اور جعلی وزیر اعظم کو قوم کے سرپر مسلط کیا۔ ان کا اصل جرم یہ ہے اور تنقید اس پر ہونی چاہئے لیکن پی ٹی آئی اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے اسے قوم کے ذہنوں سے محو کرکے یہ تاثر دے رہی ہے کہ جنرل باجوہ نے اصل جرم کا ارتکاب 2022میں کیا۔ یعنی جو ان کا جرم تھا اور خلوتوں میں اب تسلیم بھی کرتے ہیں کہ ان سے یہ غلطی سرزد ہوئی، اسے ان کا کریڈٹ بنا دیا اور جب انہوں نے جرم سے تائب ہوکر تلافی کئے بغیر مزید آئین کی خلاف ورزی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اسے ان کا جرم بنا دیا گیا اور انہیں طرح طرح کے القابات سے پکارا ۔ حالانکہ ان القابات سے انہیں نواز شریف ، زرداری ، اسفندیارولی ولی، سراج الحق ، خالد مقبول صدیقی ، محمود اچکزئی اور اخترمینگل وغیرہ کوپکارنا چاہئے تھا۔ ان کا اگر کبھی محاسبہ ہو تو 2018کے کردار کی بنیاد پر ہونا چاہئے نہ کہ 2022کے کردار کی بنیاد پر اور آج ان کے ساتھ یا آج جو چارسوتباہی ہے یہ 2022کی نہیں بلکہ 2018میں فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے کردار کا نتیجہ ہے۔

اپنے 24 ستمبر 2022’’ایوان صدر میں چیف نیازی ملاقات۔ حقائق اور نتائج“ کے زیرعنوان کالم میں میں نے لکھا تھا کہ :

’’حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد شاید ہی کوئی روز ایسا گزرا ہوجب نیازی صاحب یا ان کے کسی نمائندے نے کسی نہ کسی چینل سے آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کا منت ترلہ نہ کیا ہو۔ان کا یہی مطالبہ رہا کہ وہ ماضی کی طرح انہیں گود لے کر موجودہ حکومت کو رخصت کرکے دوبارہ انتخابات کروادیں تو وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ان رابطوں کے دوران انہوں نے جنرل قمرجاوید باجوہ کو گارنٹی کے ساتھ ایکسٹینشن کی آفر بھی کی لیکن وہ نیوٹرل رہنے پر اصرار کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کرتے رہے۔ نہ چیف کے رشتہ داروں کو چھوڑا گیا ، نہ سابق فوجی افسران کو اور نہ ان کے ذاتی دوستوں کو ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ افغانستان کیلئے امریکہ کے سابق نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی آرمی چیف کو درخواستیں کروائی گئیں کہ وہ عمران نیازی سے ایک ملاقات کرلیں۔

واضح رہے کہ امریکی نیوکانز کے رکن زلمے حکومت کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد پاکستان آئے تھے اور نیازی صاحب سے خفیہ اور طویل ملاقات کی تھی۔ علاوہ ازیں پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی دن رات منت ترلے میں لگے رہے جبکہ عارف علوی بھی ہمہ وقت اسی کام میں لگے رہے لیکن آرمی چیف پھر بھی ملنے کو تیار نہیں تھے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ایک دن اچانک عارف علوی آرمی چیف کے گھر جاپہنچے اور کافی دیر تک منت ترلہ کرکے انہیں اپنے گھر یعنی ایوان صدر میں اپنے لیڈر عمران نیازی سے ملاقات پر آمادہ کیا۔ چنانچہ نیازی صاحب سے شدید مایوس اور دکھی جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم شہباز شریف کو مطلع کرکے اس ملاقات کیلئے ایوان صدر گئے۔ حسبِ عادت عمران نیازی نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایم کیوایم اور باپ پارٹی کو الگ کروا کے موجودہ حکومت ختم کردیں اور فوری انتخابات کروادیں۔ جواب میں انہیں بتایا گیا کہ پہلے ہی پی ٹی آئی کیلئے غیرآئینی کردار ادا کرنے کی وجہ سے فوج بہت بدنام ہوئی ہے اور وہ دوبارہ یہ غلطی نہیں کرسکتی۔ ان کے سامنے اعدادوشمار رکھ کر بتایا گیا کہ اگر وہ اقتدار میں رہتے تو جون تک ملک ڈیفالٹ کرجاتا جبکہ امریکی سازش کے جھوٹے بیانیے سے بھی انہوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

عمران نیازی اصرار اور عارف علوی وغیرہ بیچ بچاؤ یا منت ترلہ کرتے رہے تو جواب میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی تمام احسان فراموشیوں اور فوج میں تقسیم کی کوشش کے باوجود فوجی قیادت ان کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتی اور نہ یہ چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو جو بھٹو یا نواز شریف وغیرہ کے ساتھ ہوا لیکن فوج انہیں فوری طور پر الیکشن نہیں دے سکتی۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ موجودہ سیٹ اپ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کرکے وقتی طور پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی استحکام آگیا ہے۔ اب بھی ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں نہیں آرہے ۔ روزانہ فوج اور حکومت کوششیں کرکے چند ارب کا انتظام کرتے اور ملکی انتظام چلاتے ہیں جبکہ اوپر سے سیلاب نے کسر پوری کردی ہے ۔ تاہم اگر اتحادی جماعتوں کا آپس میں کوئی مسئلہ آجاتا ہے اور حکومت خود ٹوٹ جاتی ہے یا پھر اگر معاشی استحکام کے بعد متفقہ طور پر سیاسی جماعتیں قبل ازوقت انتخابات کراتی ہیں تو فوج نہ رکاوٹ بنے گی اور نہ مداخلت کرے گی“۔

اس پر میں آج صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ:

’خفیہ ملاقاتیں کی ہیں تو قائم بھی رہو اس پر عمران‘

آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے