نئے انتخابات سے پہلے

عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں یا مونس الٰہی اور اُن کے ابا جان کی بات مان کر چند ہفتوں کی تاخیر کر دیں‘ پاکستانی سیاست کو اُس وقت تک قرار نہیں آئے گا جب تک اس کے جملہ ذمہ داران ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ سابق وزیراعظم عمران خان ہر روز ارشاد فرماتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل فوری انتخابات میں ہے۔ انہی کے ذریعے عوام کا اعتماد رکھنے والی حکومت برسرِ اقتدار آسکتی ہے‘ یہ حکومت پاکستان کو سیاسی استحکام بخش سکتی ہے اور اس سیاسی استحکام کی کوکھ سے وہ بچہ جنم لے سکتا ہے جسے معاشی ترقی کہتے ہیں۔ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا‘ اُس وقت تک معیشت بھی بحال نہیں ہوگی‘ معیشت بحال نہیں ہوگی تو لوگوں کو چین نصیب نہیں ہوگا۔ اُن کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔ جب سے وہ زخمی ہو کر لاہور کے زمان پارک میں اپنے گھر تک محدود ہوئے ہیں‘ یہ بات مسلسل کہتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر روز میڈیا کارکنوں کا کوئی گروپ اُن سے ملاقات کرتا ہے یا تحریک انصاف کے کارکن اُن سے ملتے ہیں یا اُن کے حامی اراکینِ اسمبلی کا کوئی وفد شرفِ باریابی حاصل کرتا ہے‘ تو یہی بات اُن سے منسوب ہو کر میڈیا میں گونجنے لگتی ہے‘ وہ زخمی نہیں ہوئے تھے تو بھی اُن کا اصرار اسی بات پر تھا۔ جس دن سے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور اُنہیں اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکلنا پڑا‘فوری انتخاب کا نعرہ اُن کی زبان پر ہے۔اُن کی اس بات کو بے وزن نہیں کہا جا سکتا کہ جمہوری ممالک میں فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی کو حاصل ہوتا ہے۔یہ درست ہے کہ اسمبلیاں ایک مخصوص مدت کے لیے چُنی جاتی ہیں اور انہیں بزورِ بازو تحلیل نہیں کرایا جا سکتا لیکن قبل از وقت انتخابات کرانے کی بھی کوئی ممانعت نہیں ہے‘ اپوزیشن کو ان کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے‘ وہ اس کے لیے دبائو بڑھا سکتی ہے کہ حکومت قبل از وقت رائے دہندگان سے رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے۔عمران خان جب وزیراعظم تھے تو اُن کی اپوزیشن جماعتیںجو آج حکومت میں ہیں‘ نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے نہیں تھکتی تھیں۔اُنہیں2018ء کے نتائج پر اعتراض تھا‘ اُن کی طرف سے ”سلیکٹڈ حکومت‘‘ کی پھبتی کسی جاتی تھی‘ لیکن اُس وقت عمران خان اس مطالبے پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھے۔انہوں نے کئی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر جو مخلوط حکومت بنائی تھی‘ وہ اُسے ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔دستور میں دی گئی مدت پوری کرنے پر زور دیتے تھے اور اپنے مخالفین کو صبر کی تلقین کرتے تھے۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وزیراعظم عمران خان اور اُن کے اتحادیوں میں پھوٹ پڑ گئی‘اُن کی اپنی جماعت میں بھی بغاوت ہوئی‘ نتیجتاً قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف وزیراعظم بن گئے‘ اراکینِ اسمبلی کی اکثریت اُن کے ساتھ مل گئی۔اس کی وجوہ جو بھی ہوں‘عمران خان اپنے دوست جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمہ دار قرار دیں یا امریکہ بہادر کی طرف انگلی اٹھائیں‘ سامنے کی حقیقت یہی تھی‘ اور ہے کہ قومی اسمبلی کی اکثریت کی تائید سے وہ محروم ہو گئے جس کے نتیجے میں حکومت ہاتھ سے جاتی رہی۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر عمران خان نے پہلا فیصلہ تو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا کیا‘ اس کے ساتھ ہی نئے انتخابات کا مطالبہ داغ دیا۔وہ دن جائے اور آج کا آئے‘وہ اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں جبکہ اُن سے دن رات نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے والے اقتدار پر براجمان ہو کر خان صاحب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے اُنہیں اس کے فائدے سمجھا رہے ہیں۔ گویا حکومت اور اپوزیشن (چہرے بدلنے کے باوجود) رہنما اپنی بات پر قائم ہیں۔حکومت اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کے حق میں دلائل لانے میں مصروف ہے تو اپوزیشن اپنی بانسری بجا رہی ہے۔
عمران خان نے جب سے اقتدار چھوڑا ہے‘ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ عوامی سطح پر اُن کی پذیرائی ہو رہی ہے‘اُن کے حامی بضد ہیں کہ دوبارہ اُنہیں اقتدار میں لا کر دم لیں گے۔ضمنی انتخابات میں اُنہیں بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کے ساتھ وہ کچھ بھی ہو رہا ہے جو اس سے پہلے اپوزیشن کے ساتھ ہو رہا تھا‘الزامات لگ رہے ہیں‘فائلیں پھرولی جا رہی ہیں‘مقدمے قائم ہو رہے ہیں‘عدالتوں میں نااہلی کی درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں‘ توشہ خانے سے تحائف لینے اور فروخت کرنے کے حوالے سے وہ کچھ کہا جا رہا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آڈیو لیکس ہو رہی ہیں اور خان صاحب کو باور کرایا جا رہا ہے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے اُن کا نواز شریف بنا دیا جائے گا۔ جس طرح نواز شریف2018ء کے انتخابات سے باہر کر دیے گئے تھے‘اسی طرح عمران خان کو انتخابی سرکل سے باہر نکالنے کی تیاریاں(مبینہ طور پر) زور و شور سے جاری ہیں۔ وسوسے اور اندیشے ہیں کہ پھیلتے جا رہے ہیں یا پھیلائے جا رہے ہیں اور یوں پاکستانی سیاست میں بے چینی ہی بے چینی ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار‘ سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بگڑ رہی ہے‘ قرضوں کا بوجھ کمر توڑے ہوئے ہے‘ ڈالر ضرورت سے کم ہیں‘ آئی ایم ایف سے رابطے جاری ہیں۔اِدھر اُدھر بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن مشکلات ایک دن میں پیدا ہوئی ہیں‘ نہ ایک دن میں کم ہو سکتی ہیں۔ اخراجات کم کر کے یا آمدن بڑھا کر معیشت کو بحال کرنے کی کوئی اجتماعی کاوش بروئے کار نہیں آ پا رہی۔سندھ اور خیبرپختونخوا کے سیلاب اور بارش زدگان کی طرف بھی وہ توجہ نہیں دی جا رہی جس کے وہ مستحق ہیں۔ انتخابات کا مطالبہ کرنے والے اور اسے مسترد کرنے والے اپنی اپنی ایڑیوں اور چوٹیوں کا زور لگائے ہوئے ہیں۔عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے دبائو بڑھانا چاہتے ہیں‘ وزرائے اعلیٰ اُن کے اشارے پر جان دینے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے استعفے ابھی تک منظور نہیں ہوئے‘شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ اُن کے ارکان اب سپیکر کے سامنے اجتماعی(یا انفرادی) طور پر پیش ہو کر اپنی نشستیں خالی قرار دلوانے کے لیے سر پر کفن باندھ چکے ہیں۔عمران خان کا خیال ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ ساتھ اگرقومی اسمبلی میں اُن کے ارکان کے استعفے بھی منظور کرا لیے جائیں تو ضمنی انتخابات کی نائو ڈوب جائے گی اور اُن کے مخالفین کو عام انتخابات پر راضی ہونا پڑے گا۔
عمران خان نئے انتخابات جلد کرا گزریں یا اُن کے مخالف ”مقررہ مدت‘‘ پر ڈٹے رہیں‘سیاسی استحکام اُس وقت تک حاصل نہیں ہو گا جب تک فریقین ایک دوسرے کا اقرار نہیں کریں گے۔دونوں کو رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے‘دونوں میں سے کسی ایک نے حکومت بنانی ہے اور کسی ایک کے حصے میں حزبِ اختلاف کے بینچ آنا ہیں۔ اگر وہ اسی طرح ایک دوسرے سے الجھے رہیں گے جس طرح سے گزشتہ پانچ (بلکہ اس سے بھی زیادہ) سالوں سے الجھے ہوئے ہیں تو سیاسی استحکام کیسے آئے گا‘سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو معیشت کیسے سنبھلے گی؟کل بھی یہی بات درست تھی‘ آج بھی درست ہے اور کل بھی درست ہو گی کہ ایک دوسرے کو تسلیم کیا جائے‘ مذاکرات کے دروازے کھولے جائیں‘ آئندہ انتخابات کی تاریخ اور انتظامات پر اتفاق کیا جائے‘جو جیت جائے اُسے مبارک باد دی جائے اور ہارنے والوں کو آئندہ انتخابات تک انتظار کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہو گا‘ وہ کچھ ہوتا رہے گا‘جو کل ہو رہا تھا‘ جو آج ہو رہا ہے۔