اخوّت۔ منی اور اصل پاکستان

2001ءمیں ایک درویش صفت بیوروکریٹ ڈاکٹر امجد ثاقب نے پاکستان کے اصل مرض کی تشخیص کی۔ وہ اس حقیقت کو جان گئے کہ اس ملک کا اصل مسئلہ غربت اور جہالت ہے۔ وہ دین اسلام کی اصل روح بھی سمجھ چکے کہ :

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کیلئےکچھ کم نہ تھے کروبیاں

چنانچہ سرکاری نوکری کو خیرباد کہہ کر انہوں نے انصار مدینہ کے مواخات کے جذبے کے تحت ”اخوت“ کی بنیاد رکھی لیکن غریبوں کو خیرات خور یا بھکاری بنانے کی بجائے انہوں نے انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ انہوں نے انتہائی غریب لوگوں کو بلاسود قرضہ دینے اور ان کیلئے چھوٹا کاروبار شروع کرنے کی اسکیم تیار کی ۔ ابتدا اپنے آپ سے کی اور اپنے جیسے چند لوگوں کو ساتھ لیا۔ پہلے سال محتاجوں کو صرف دس ہزار روپے کا قرضہ دیا جاتا تھا۔ اس کام کیلئے انہوں نے گائوں کی مسجد کو مرکز بنایا اور نمود و نمائش کی بجائے خاموشی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دی۔ آج گلگت بلتستان سے گوادر تک اور چترال سے کراچی تک لاکھوں غریب نہ صرف باعزت روزگار کے مالک بن چکے ہیں بلکہ کئی ایک لینے والے کی بجائے دینے والے بن کر اب اخوت کے اس کارخیر میں اپنا حصہ بھی ڈال رہے ہیں۔ابھی تک’’ اخوت‘‘ 55لاکھ غریب پاکستانیوں کو 180ارب روپے کا بلاسود قرضہ دے کر انہیں بے روزگار سے برسرروزگار بناچکا ہے ۔ آج غریبوں کو قرضہ دینے کا ”اخوت“ کا یہ پروگرام پوری دنیا کا واحد، منفرد اور مکمل طور پر سود سے پاک پروگرام بن چکا ہے اور اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر نہ صرف اس پروگرام کی تعریف ہورہی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے عظیم ساتھیوں کی خدمت انسانی کیلئے بے چین روح نے انہیں قرضہ اسکیم پر ہی اکتفا نہیں کرنے دیا اور وہ کئی دیگر میدانوں میں خدمت خلق کیساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی کود پڑے۔ اخوت ایجوکیشن سروس کے تحت پہلی فرصت میں انہوں نے پنجاب کے چار ہزار نان فنکشنل اسکولوں کو فنکشنل بنایا اور 350اسکولوں کا انتظام سنبھال لیا ،جہاں غریب بچوں کو معیاری تعلیم دی جارہی ہے۔ اسٹریٹ چلڈرن کیلئے اخوت لرننگ ہبز (Akhuwat Learning Hubs) انکے علاوہ ہیں ۔ 2015میں اخوت نے ایسے طلبہ کیلئے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے حاصل نہیں کرسکتے، اخوت ریزیڈنشل کالج قائم کرنے شروع کئے جہاں مکمل طور پر مفت تعلیم اور ہاسٹل کی سہولت دی جاتی ہے۔ ابھی تک اخوت نے این جے وی ہائی اسکول کراچی، اخوت کالج برائے خواتین چکوال، اخوت فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اخوت کالج قصور قائم کئے ہیں ۔

ان کالجز کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر کالج مِنی پاکستان کا منظر پیش کررہا ہے کیونکہ ان میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان سے طلبہ و طالبات کو داخلہ دیا گیا ہے ۔ الحمدللہ اخوت کالج قصور کو یونیورسٹی کی حیثیت سے ترقی دے دی گئی ہے جہاں کی سالانہ ری یونین تقریب 16سے 18دسمبر تک منعقد ہوئی ۔ اخوت کے نام اور کام سے میں عرصہ دراز سے واقف تھا اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے رابطہ رہتا ہے اس لئے پہلے بھی انہوں نے کئی بار دعوت دی لیکن گزشتہ برسوں میں بوجوہ میں نہ جاسکا۔ مجھےیہ تو یقین تھا کہ اخوت فائونڈیشن کی یونیورسٹی بھی ان کے دیگر پراجیکٹس کی طرح اپنی مثال آپ ہوگی لیکن یہ کہ اس قدر خوبصورت عمارت ہوگی ، قومی یکجہتی کی فضا پیدا کرنے کیلئے مختلف علاقوں اور زبانوں کااتناحسین امتزاج ہوگا اور جدید تعلیم کیساتھ دینی تعلیم اور سب سے بڑھ کر تربیت پر بھی اس قدر زور ہوگا، اس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ قرطبہ کی عمارتوں کے طرز پر تعمیر کردہ اس خوبصورت اور وسیع و عریض عمارت کے اندر داخل ہوا تو استقبال کیلئے خوبصورت پینٹ کوٹ میں ملبوس اور ٹائی پہنے لائن میں کھڑے طالب علموں کے چاق و چوبند دستے نے میرا استقبال کیا اور گارڈ آف آنر پیش کیا۔ ایک طالب علم بلوچستان، دوسرا پختونخوا، تیسرا پنجاب، چوتھا گلگت بلتستان اور پانچواں سندھ سے تعلق رکھتا تھا۔جن طلبہ نے گارڈ آف آنر دیا وہ بھی اسی طرح پاکستان کی تمام قومیتوں پر مشتمل تھے ۔ مجھے معلوم ہوا کہ ہاسٹل کے ہر کمرے میںبھی چار طلبہ کی رہائش کا انتظام ہے اور خصوصی طور پر اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ چاروں طالب علم مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہوں ۔ ان تعلیمی اداروں کا سلوگن ایمان، احسان، اخلاص اور انفاق ہے اور طلبہ کی تعلیم و تربیت میں خصوصی طور پر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ ان قرآنی صفات کا مجموعہ اور نمونہ بنیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے جو موضوع دیا گیا تھا میں اپنے خطاب کے دوران اس کی طرف جا ہی نہ سکا کیونکہ اس یونیورسٹی کے دورے میں جو کچھ دیکھا اور سنا، اس کی وجہ سے میرے خیالات اور احساسات میں ایک انقلاب سا آگیا تھا۔ میں نے اس یونیورسٹی کی صورت میں ایک ایسا منی پاکستان دیکھا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جو حقیقی معنوں میں قائداعظم کے پاکستان کا عکاس تھا۔ ہنگامے کی جگہ ڈسپلن، گندگی کی جگہ صفائی، نفرت کی بجائے اخوت، مایوسی کی جگہ امید اور پھر ایمان، احسان، اخلاص اور انفاق کے جذبات اور احساسات ، اسی لئے اپنی تقریر میں مجھے یہ کہنا پڑا کہ اگر اخوت کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ بھی ہماری طرح روایتی صحافی، سیاستدان، سرکاری افسر یا جرنیل بننے کی بجائے امجد ثاقب بن جائیں تو پاکستان کو جنت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ افسوس یہ ہے کہ اس ملک میں بڑھک باز سیاستدان تو بہت ہیں لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگ بہت کم ہیں حالانکہ قومیں نعروں، جلسوں اور دعووں سے نہیں بلکہ اخوت جیسے قومی تعمیر کے اداروں سے ترقی کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے ساتھیوں کی کاوشوں کو مزید برکت دے۔ آمین