ملتان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے والے …(2)

اپنی منظور شدہ استعداد سے کہیں زیادہ‘ دو ہزار سے زائد بستروں اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں آؤٹ ڈور اور ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں اور ان کے لواحقین کیلئے نشتر ہسپتال میں سرے سے کوئی باقاعدہ پارکنگ ہی موجود نہیں ہے۔ ساٹھ پینسٹھ سال قبل جب نشتر ہسپتال معرض وجود میں آیا تب ملتان شہر میں بمشکل چند درجن گاڑیاں ہوں گی‘ زیادہ تر لوگ سائیکل اور موٹر سائیکل استعمال کرتے تھے۔ آبادی کم تھی اور نشتر ہسپتال میں بنے ہوئے وارڈزکے درمیان والی خالی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی پارکنگ بنی ہوئی تھیں تب کے حساب سے یہ انتظام کافی تھا لیکن اب جبکہ بینکوں نے ان لوگوں کو بھی گاڑیاں لے دی ہیں جن کے گھر والے ان کو موٹر سائیکل بھی نہ لے کر دیتے‘ تو ایسے میں جبکہ اس ہسپتال میں بیک وقت سینکڑوں گاڑیاں‘ موٹر سائیکل اور سائیکلوں کے علاوہ رکشے بھی اندر آ جائیں تو وہاں کیا غدر مچتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ گزشتہ چند سال سے یہ ہو رہا ہے کہ ہسپتال کی ساری سڑکیں پارکنگ لاٹ بن چکی ہیں اور ہسپتال کی عمارت کے فرنٹ میں کبھی پھولوں بھرا خوبصورت لان ہوا کرتا تھا وہ اب باقاعدہ پارکنگ بن چکا ہے۔
میں نے وزیراعلیٰ کو تجویز دی کہ اس مسئلے کا واحد دیرپا حل صرف یہ ہے کہ نشتر ہسپتال میں ایک عدد کثیرالمنزلہ پارکنگ پلازہ بنا دیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے فوری طور پر اتفاق کر لیا مگر پھر فنڈز کا مسئلہ درپیش آ گیا اور آخر میں یہ ہوا کہ اس پلازے کیلئے جگہ ہی فائنل نہیں ہو سکی۔ حالانکہ اس کیلئے سڑک کے دوسری طرف نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹلز کے وارڈن وغیرہ کی رہائش گاہ میں کام ہو سکتا تھا‘ مگر ہر جگہ سرخ فیتہ کار فرما ہے اور یہ معاملہ ابھی تک درمیان میں لٹکا ہوا ہے۔ اسی طرح کینسر کی ابتدائی سٹیج پر تشخیص کیلئے ملتان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن (MINAR) میں اس مشینری کی فراہمی کا کہا۔ لاہور اور کراچی کے درمیان ایک وسیع خطے میں اس جدید مشینری کی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس پر حیرانی کا اظہار کیا اور وعدہ بھی کیا تاہم اس انسٹی ٹیوٹ اور نشتر ہسپتال کے درمیان یہ معاملہ آن پڑا کہ MINAR ایک وفاقی ادارہ ہے جبکہ نشتر ہسپتال صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہے‘ لہٰذا یہ سکینر MINAR کے بجائے (دنیا بھر میں اس قسم کے پراجیکٹ نیوکلیئر میڈیسن والے چلاتے ہیں) نشتر ہسپتال کو دینے کا فیصلہ ہوا۔ یہ فیصلہ تکنیکی طور پر بالکل ہی غلط تھا اور میرا مؤقف تھا کہ نشتر ہسپتال والے تو پیٹ سکینر سے بھی کہیں کم پیچیدہ Linear Accelerator (LINAC)جو ان کے پاس 2012ء سے پہلے کا آیا ہوا تھا اور عرصہ دس سال سے زائد گزر جانے کے باوجود اسے چلانا تو رہا ایک طرف اسے ابھی تک نصب بھی نہیں کر سکے۔ اس پیٹ سکینر کو کیسے چلائیں گے؟ نشتر والوں کے پاس نہ ٹیکنیشنز موجود ہیں اور نہ ہی نیو کلیئر میڈیسن ایکسپرٹس ہیں‘ ایسے میں ایک ارب سے زیادہ قیمت کا یہ سکینر برباد ہو جائے گا‘ مگر میری ایک نہ سنی گئی۔ بہرحال خدا خدا کر کے اس سکینر کی منظوری بھی ہو گئی اور پیسے بھی مل گئے ہیں۔ خدا کرے کہ اب یہ بخیر و خوبی نصب بھی ہو جائے اور چل بھی پڑے تو اس خطے کے لوگوں کو اس سہولت سے بہت آسانی مل جائے گی۔
ان تجاویز کے علاوہ ملتان کی واحد سرکاری پبلک لائبریری قلعہ کہنہ قاسم باغ کی حالت کی درستی‘ کپاس کے پتا لپیٹ وائرس فری بیج کی تیاری اور جمخانہ کلب کا معاملہ صفر بٹا صفر ہے۔ جمخانہ کی زمین منظور بھی ہو گئی تھی مگر اس زمین کو جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ والے دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ تو قصہ تھا جدید ملتان کی کسمپرسی کا لیکن یہ چند سال کا نہیں‘ عشروں کی چشم پوشی کا نتیجہ ہے کہ ہزاروں سال سے مسلسل آباد دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ملتان آج بھی بہت سے حوالوں سے باقاعدہ پسماندہ ہے۔
انگریزوں کی کاسہ لیسی کے حوالے سے ملتان کے مخدوموں‘ گدی نشینوں اور جاگیرداروں کے بارے میں میرے نظریات اور خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن انگریزوں کی ساری کاسہ لیسی‘ چاپلوسی‘ خدمت گزاری اور خدمات کی حد تک ناپسندیدگی کے مرتبے پر فائز ان لوگوں میں بہرحال ملتان میں تعلیم کی ترقی کے حوالے سے اگر گیلانی خاندان کی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے تو یہ بھی بددیانتی ہوگی۔ حضرت موسیٰ پاک شہید کے گدی نشین خان بہادر مخدوم شیخ محمد غوث رابع المعروف پیر سید صدرالدین شاہ کا بیٹا سید محمد رضا شاہ گیلانی مارچ 1934ء میں میونسپل کمشنر ملتان بنا اور 21 دسمبر 1934ء میں ملتان کی تاریخ کا پہلا غیر سرکاری چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ منتخب ہوا۔ سید محمد رضا شاہ گیلانی نے چیئرمین کے انتخاب میں تب کے انگریز ڈپٹی کمشنر سر ای پی مون کو شکست دی۔ اسی دوران گیلانیوں نے انجمن اسلامیہ ملتان کی بنیاد رکھی اور اس کے زیر انتظام ملتان میں تعلیم کے فروغ کیلئے سکول بنانے کی ابتدا کی۔ انجمن اسلامیہ نے ملتان میں اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ‘ اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ‘ اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ اور علمدار حسین اسلامیہ کالج بنایا۔ بعد ازاں ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج اور گیلانی لاء کالج تعمیرکیا۔ ملتان میں تعلیمی خدمات کے حوالے سے گیلانی خاندان کا نام یقینا نہایت عزت و احترام سے لیا جائے گا۔
فی زمانہ سیاستدانوں کا ترقیاتی کاموں میں سے پیسے غتربود کرنا اس انتخابی سیاست کے نتیجے میں رونما ہونے والے نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ الیکشن پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے دراصل سیاسی کاروبار میں سرمایہ کاری کے زمرے میں آتے ہیں اور ظاہر ہے کاروبار میں سرمایہ کاری نفع کی خاطر کی جاتی ہے اس لیے اب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے ہاں سیاست عبادت وغیرہ جیسی تہمتوں سے قطعاً پاک ہے اور یہ محض ایک کاروبار ہے۔ دو چار لوگوں کا استثنا اپنی جگہ مگر کسی بھی چیز بارے فیصلہ کرتے ہوئے اس کے اکثریتی طبقے کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی سے وابستہ اس قسم کے سارے قصے کہانیاں اپنی جگہ پر کافی حد تک درست ہیں‘ تاہم ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ملتان کی تعمیر و ترقی میں ان کے حصے سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔ ان کے ملتان کیلئے میگا پراجیکٹس میں سب سے بڑھ کر ملتان ایئر پورٹ کے نئے ٹرمینل کی تعمیر ہے جس کا کریڈٹ صرف اور صرف سید یوسف رضا گیلانی کو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ملتان تا ہیڈ محمد والا پل اور سڑک‘ ایمن والا پتن پر دریا کا پل‘ جس کی وجہ سے جلال پور پیروالا تک رسائی بہت آسان ہو گئی۔ ملتان میں کمہاراں والا چوک‘ نو نمبر چونگی چوک‘ کلمہ چوک‘ نشتر روڈ اور کینٹ سے پرانا شجاع آباد روڈ والے فلائی اوورز اور چوک کچہری پر پرانے فلائی اوور میں توسیع کے علاوہ ناردن بائی پاس کو دو رویہ کرنا اور بوسن روڈ اور ملتان پبلک سکول روڈ کی کشادگی جیسے کام شامل ہیں۔ گو کہ اس آخری والے کام کے طفیل ان کے تب کے سپانسر احمد حسین ڈیہڑ کی زمینوں کی قیمت آسمان تک چلی گئی مگر بعد میں ملک احمد حسین ڈیہڑ ان کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کو پیارا ہو گیا اور بالآخر لوٹا بن کر آج کل پریشان ہے۔
اگر گیلانی خاندان اور قریشی خاندان کا ملتان کی تعمیر و ترقی میں موازنہ کیا جائے تو اس سلسلے میں ہمارے شاہ محمود قریشی کے والدِ گرامی مخدوم سجاد حسین قریشی جو گورنر پنجاب اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ بننے سے قبل قومی اسمبلی کے رکن اور میونسپل کمیٹی ملتان کے میئر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی گورنری کے دوران دولت گیٹ چوک ضرور کشادہ کروایا۔ اللہ مجھے بدگمانی سے بچائے‘ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ ان کی گاڑی گھر سے نکلتے ہی جگہ تنگ ہونے کے باعث اس چوک میں پھنس جاتی ہوگی۔ اس چوک کو ان کے گھر ”القریش‘‘ سے متصل ہی سمجھیں۔ (جاری)