ملک ایسے ہی دیوالیہ نہیں ہوتے

گو کہ میں سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر نہیں ہوں لیکن اس کے باوجود بعض دوست مجھے کچھ نہ کچھ ایسا بھیج دیتے ہیں جو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہو رہا ہے۔ ایسے میں بعض معاملات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ ایک دوست نے گزشتہ روز اسی مہم کا ایک میسج بھیجا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مورخہ بائیس مارچ 2023ء کو پشاور میں ایک عدد اجلاس بسلسلہ زور آزمائی مابین چاند شریف ورویت ہلال کمیٹی ہونا قرار پایا ہے۔ تفصیل میں اجمال یہ ہے کہ مورخہ بائیس مارچ کو تقریباً دو اڑھائی سو افراد اکٹھے ہو کر مرغن خوراک از قسم دم پخت‘ تکہ بوٹی‘ سیخ کباب‘ حلوہ و دیگر لوازمات کام و دھن سے نبرد آزما ہونے کے بعد اپنا رخ چاند شریف کی طرف کریں گے۔ بقول شاہ جی اب محض چاند دیکھنے کیلئے اس قسم کے پیٹ بھرے دو سو افراد تو درکار نہیں ہوتے‘ بائیس مارچ کی رات ان لوگوں نے چاند سے زور آزمائی ہی کرنی ہوگی وگرنہ دوچار لوگ اس کام کیلئے کافی تھے۔ ایک دوربین سے بیک وقت کتنے لوگ چاند دیکھ سکتے ہیں؟ اور یہ تو صرف رویت ہلال کمیٹی کی صوبائی شاخ کے اجلاس کی کہانی ہے‘ ایسا ہی ایک اجلاس کوئٹہ میں بھی ہو گا‘ لاہور میں بھی ہو گا اور حسبِ معمول کراچی والی مرکزی رویت ہلال کمیٹی بھی ایسا ہی اجلاس کرے گی۔ ظاہر ہے وہاں بھی اتنی ہی بلکہ شاید اس سے زیادہ تعداد میں متقی افراد اکٹھے ہوں گے اور اس طرح ہزار بارہ سو افراد مل کر چاند سے نپٹیں گے۔ اگر محض چاند دیکھنا اور اس کے نظر آنے کی شہادتیں ہی اکٹھی کرنی ہوں تو ہر دفتر میں دوچار لوگوں سے کام چل سکتا ہے لیکن یہ مالِ مفت دل بے رحم والا معاملہ ہے۔

اس سارے قصے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے ایڈمنسریٹر اوقاف نے ایک عدد ٹینڈر جاری کیا ہے جس کے مطابق رویت ہلال کمیٹی خیبرپختونخوا کا اجلاس مورخہ بائیس مارچ کو اوقاف آفس کمپلیکس میں ہونا قرار پایا ہے جس میں ایک سو وی آئی پی اور ایک سو دیگر افراد نے شرکت کرنی ہے۔ اس ٹینڈر میں وی آئی پی حضرات کیلئے مجوزہ کھانے کے مینیو میں گیارہ آئٹم ہیں جبکہ عام افراد کیلئے چھ آئٹم ہیں‘ اس کے علاوہ اسقبالیہ چائے کے لوازمات پانچ عدد ہیں۔ یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں روزانہ صبح اُٹھ کر سب سے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہوگیا ہے یا آج بھی بچ گیا ہے؟

فضول خرچی کا یہ عالم ہے کہ خزانہ خالی ہے‘ اس خالی خزانے میں جو تھوڑا بہت پڑا بھی ہے تو وہ کم از کم ہمارا ہرگز نہیں ہے یہ وہ پیسہ ہے جو چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہمیں اپنی ”شو‘شا‘‘ بنانے اور محض دنیا کو دکھانے کیلئے ادھار دیا ہوا ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اب خزانے میں ہمارا ذاتی ایک ٹیڈی پیسہ بھی نہیں ہے۔اس ٹیڈی پیسے سے یاد آیا کسی زمانے میں اسی ملک میں پیسہ نام کی کرنسی واقعتاً موجود ہوتی تھی۔ ایک سوراخ والا پیسہ ہوتا تھا جسے ہم موری والا پیسہ کہتے تھے۔ یہ دراصل آدھا پیسہ ہوتا تھا جو تانبے کا بنا ہوتا تھا۔ کیا زمانہ تھا اس آدھے پیسے سے بھی ہم بازار میں چیز خرید سکتے تھے۔ ایک پورا پیسہ ہوتا تھا یہ پیتل کا تھا۔ میں بچپن میں سکے جمع کرتا تھا اور میرے پاس یہ سارے سکے ایک لکڑی کے خانوں والے ڈبے میں پڑے ہوئے تھے۔ جب اسد نے سکے جمع کرنے شروع کیے تو اس نے یہ سکے مع ڈبہ اٹھا کر اپنی الماری میں رکھ لیے‘ جس روز اس نے یہ ڈبہ اٹھا کر اپنی الماری میں رکھا میں پچاس پچپن سال پیچھے چلا گیا۔ ایک روز اسی طرح میں نے اباجی کی لکڑی کی الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہوئے پتھر کے پیالے میں سے دو تین چاندی کے سکے نکالے تھے اور اپنے سکوں والے ڈبے میں ڈال لیے تھے۔ چیزیں سدا سے اسی طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی آ رہی ہیں۔

بچپن کے شوق کسی طور ختم نہیں ہوتے‘ بس ان کا رُخ تبدیل ہو جاتا ہے‘ اب اسد سکے جمع کرتا ہے اور میں اس کیلئے ادھر ادھر سے سکے لاتا رہتا ہوں۔ امریکہ میں اتنی اقسام کے سکے ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں سکوں کی بنیادی اقسام میں پینی‘ نکل‘ ڈائم اور کوارٹر ہے یعنی ایک پینی‘ پانچ پینی‘ دس پینی اور پچیس پینی۔ ایک ڈالر کرنسی نوٹ کی شکل میں ہے۔ دو ڈالر کا نوٹ بھی موجود ہے مگر بہت ہی کم دکھائی دیتا ہے بلکہ اسے آپ نایاب ہی سمجھیں۔ پانچ‘ دس‘ بیس‘ پچاس اور سو ڈالر کے نوٹ ہیں۔ سوڈالر کا نوٹ امریکی کرنسی میں سب سے بڑی قیمت کا نوٹ ہے۔ یہ تو عام نوٹ اور سکے ہیں؛ تاہم امریکہ میں ہر سال نئے نئے سکے جاری ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ کی پچاس ریاستوں کے نام پر پچاس طرح کے کوارٹر جاری ہو چکے ہیں۔ یہ دو ٹکسالوں میں ڈھلتے ہیں ایک فلاڈیلفیا جبکہ دوسری ڈینور میں ہے۔ ہر سکے پر ان دونوں ٹکسالوں میں ڈھلائی ہونے والوں سکوں کے درمیان فرق ظاہر کرنے کے لیے D یا F لکھا ہوتا ہے۔ پھر امریکہ کے نیشنل پارکس پر اب تک چھپن مختلف کوارٹر جاری ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے سابق آنجہانی صدور پر اب تک چالیس ایک ڈالر کے سکے جاری ہو چکے ہیں۔ چاندی کے سکوں کی تعداد بیسیوں کہوں تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ سونے کے درجنوں سکے جاری ہو چکے ہیں بلکہ اب بھی امریکہ میں خالص سونے کے طور پر لوگ یہی سکے خریدتے ہیں۔ یہ سکے کوارٹر‘ آدھا ڈالر اور ڈالر کی شکل میں ہیں اوران کی بھی درجنوں اقسام ہیں‘ حتیٰ کہ ایک سکہ تو پلاٹینم دھات کا بنا ہوا بھی جاری ہوا‘ امریکہ میں اگر سکوں کی گنتی کی جائے تو وہ سینکڑوں میں چلی جاتی ہے‘ ممکن ہے یہ گنتی چار فگرز تک جا پہنچتی ہو۔

پاکستان میں سکوں کی سب سے مکمل تاریخ اور اقسام دیکھنی ہوں تو وہ کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع سٹیٹ بینک میوزیم میں موجود ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پرانی عمارت کو اب ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں کبھی ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ہر آنے میں چار پیسے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں سکے پائی‘ آدھا پیسہ‘ پیسہ‘ ٹکہ‘ آنا‘ دو آنے‘ چار آنے‘ آٹھ آنے اور روپیہ ہوتے تھے۔ تب روپیہ کافی تگڑا اور موٹا تازہ ہوتا تھا۔ ایوب خان کے زمانے میں اعشاری نظام آیا تو روپیہ سو پیسے کا ہو گیا۔ سکوں کی شکل اور قیمت بدل گئی۔ ایک پیسے کا چھوٹا سا سکہ آ گیا اسے ہم ٹیڈی پیسہ کہتے تھے۔ قارئین! معاف کیجئے‘ اسی ٹیڈی پیسے سے میں بھٹک کر ماضی میں چلا گیا۔

گزشتہ ماہ میں کراچی گیا تو پرانی یادیں تازہ کرنے کیلئے سٹیٹ بینک میوزیم چلا گیا‘ سکوں کی تاریخ دیکھتے ہوئے لین دین کی ابتدائی کرنسی دیکھی‘ یہ کوڑی سے شروع ہوتی تھی۔ اس سے بھی کمتر قیمت کیلئے پھوٹی کوڑی استعمال ہوتی تھی‘ سٹیٹ بینک میوزیم کے ہال میں ایک شو کیس کے اندر لین دین کی ابتدائی شکل کے درجہ بدرجہ سکے میں تبدیل ہونے کی ساری تاریخ پڑی ہوئی تھی۔ کوڑی کی روپے میں تبدیل ہونے کی ساری کہانی میرے سامنے تھی۔ دیکھا کہ کوڑی کس طرح زینہ بہ زینہ روپے میں تبدیل ہوئی اور پھر اس روپے کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دوبارہ کوڑی میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ اب ہمارا روپے کا سائز ٹیڈی پیسے جتنا اور قیمت ایک کوڑی برابر رہ گئی ہے۔

خزانہ خالی ہے اور اس قریب الدیوالیہ ملک میں شاہ خرچیوں کا یہ عالم ہے کہ چاند دیکھنے کیلئے سرکاری خرچے پر ہزار بارہ سو بندے پُر تعیش کھانے پر اکٹھے کیے جاتے ہیں‘ خالی خزانے کی حفاظت کیلئے ایک عدد وزیر خارجہ خصوصی طور پر برطانیہ سے منگوایا گیا ہے اور ایک فارغ حکومت کو نہ چلانے کی غرض سے چھیاسی وزیر بھرتے کیے ہوئے ہیں۔ ملک ایسے ہی دیوالیہ نہیں ہوتے‘ اس کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔