بے سمت سفر …(1)

سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم ایک Frustrated جنریشن پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی پیدا نہیں کر رہا۔ دنیا بھر میں تعلیمی نظام مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنائے جا رہے ہیں اور وہاں نصاب اور درسیات (Curriculum) ملک و قوم کے علاوہ عالمی مارکیٹ میں پیشہ ورانہ طلب کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں عشروں پرانا‘ گھسا پٹا اور متروک نصاب پڑھا کر توقع کی جا رہی ہے کہ کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان اس تعلیم کے زور پر کوئی باعزت اور اچھی آمدنی والا روزگار تلاش کر لے گا۔ متوقع روزگار کو مدنظر رکھ کر کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان نے ایک طرف تو سوشل سائنسز یعنی سماجی علوم کو نئی نسل کی ترجیحات سے بالکل ہی خارج کر دیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری نئی نسل سماجی اور معاشرتی علوم کے حوالے سے ہر طرح سے فارغ ہو چکی ہے۔ معاشرے میں اخلاقیات کا معیار اور معاشرتی ذمہ داری نام کی کسی چیز کا وجود باقی نہیں رہا۔
دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ سماجی علوم سے منہ موڑ کر ہم نے جن سائنسی اور نیم سائنسی علوم کو مستقبل میں اپنے لئے باعثِ روزگار سمجھ کر اپنایا ان علوم کی کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ یہ متروک سکہ کہیں چلنے کا نہیں ہے۔ اسے ایسے سمجھیں کہ جیسے ہم کسی بچے کو شارٹ ہینڈ سیکھنے کے لیے اس وقت دو سالہ کورس میں داخل کروا دیں جب دفتروں میں شارٹ ہینڈ جاننے والوں کے لیے نئی آسامیوں پر پابندی لگا دی گئی ہو یا بچے کو ٹائپ کی کلاس میں تب داخل کروائیں جب دفتروں میں ٹائپ رائٹر نامی چیز کا وجود ہی ختم ہو چکا ہو۔ سماجی اور معاشرتی علوم سے قطع تعلق کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم بحیثیت شہری‘ معاشرے میں بہتری لانے کے لیے اپنا کردار سرانجام دینے کے قابل نہیں رہے اور سائنسی علوم میں عالمی سطح پر کسی قسم کے مقام کے حصول میں اس لئے ناکام ہو گئے ہیں کہ ہمارے تدریسی نظام میں رائج نصاب اتنا فرسودہ‘ بے کار اور متروک قسم کا ہے کہ اس کا عملی طور پر مستقبل کی طلب میں کوئی مقام ہی نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم کسی زائد المیعاد دوائی سے کسی مریض کا علاج کریں اور اس کے صحت مند ہونے کے منتظر ہوں۔
ہمارا زیادہ سے زیادہ جدید نصاب بھی وہ ہے جو گزشتہ چند سال میں اپنی اہمیت کے حوالے سے دم ِآخر پر ہے یعنی اور دو تین سالوں میں آؤٹ ڈیٹڈ ہو جائے گا۔ اس کی مارکیٹ میں نہ طلب ہو گی اور نہ کوئی مستقبل ہو گا۔ نہ ہمارے پاس مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ ہے اور نہ curriculumہے۔ حتیٰ کہ عالم یہ ہے کہ اب ہمارے پاس اچھے استاد بھی نہیں ہیں۔ سرکاری میڈیکل کالجوں میں فیکلٹی کا یہ عالم ہے کہ اگر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز والے سرکاری کالجوں کو میڈیکل کالجوں کے لیے طے شدہ سرکاری پیمانے کے مطابق پرکھیں تو اکثر سرکاری کالجوں کی رجسٹریشن ہی منسوخ ہو جائے۔ کئی شعبے ایسے ہیں جن میں پروفیسر تو رہے ایک طرف ایسوسی ایٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر ہی موجود نہیں۔ میڈیکل کے نصاب اور درسیات کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ہاں وہ چیزیں پڑھائی جا رہی ہیں جو دنیا بھر میں برسوں پہلے متروک ہو چکی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیے جانے والے مطلوبہ امتحانات کے لیے ہمارے ڈاکٹر جب نئے سرے سے تیاری کرتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں میڈیکل سائنس کس سپر سانک جہاز پر سوار ہے اور وہ اب تک کس گدھا گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔
آئی ٹی اس وقت شاید دنیا بھر میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا سیکٹر ہے۔ اس میں بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ مارکیٹ شیئر کا حامل ہے کہ بھارت نے اپنی زیادہ آبادی کو دنیا بھر میں بیکاروں میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنے اس روز افزوں بڑھتے ہوئے پاپولیشن بینک کو ہنرمند Human capitalمیں تبدیل کر دیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دبئی‘ ابوظہبی‘ کویت‘ قطر‘ اومان‘ سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک میں پاکستانیوں کی اکثریت مزدوری‘ بیرا گیری‘ ڈرائیوری‘ اور اسی قسم کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں خون پسینہ بہا رہے ہیں جبکہ بھارتیوں کی اکثریت بینکنگ‘ کمرشل سیکٹر‘ مارکیٹنگ‘ آئی ٹی سیکٹر اور مینجمنٹ میں ٹاپ پوزیشنز پر بیٹھی ہے اور اس کا جہاں بھارت کو زرِ مبادلہ کمانے میں فائدہ ہے اس کیساتھ ساتھ پاکستان کو یہ نقصان ہو رہا ہے کہ وہاں کے کاروباری اداروں اور صنعتوں میں کلیدی اسامیوں پر بیٹھے ہوئے بھارتیوں کے باعث وہاں پیدا ہونے والی ہر اسامی پر بھارت سے افرادی قوت منگوا رہے ہیں۔
میں امریکہ سے واپسی کے لیے اپنی ٹکٹ کی تاریخ تبدیل کروانا چاہتا تھا۔ ٹکٹ پر دیے گئے نمبر پر فون کیا تو دوسری طرف سے بولنے والے کے لہجے سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ساؤتھ انڈیا سے ہے۔ میں نے جو نمبر ڈائل کیا تھا وہ امریکہ کا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ احمد آباد بھارت سے بات کر رہا ہے اور جب اس نے میری پاکستان سے جاری کردہ قطر ایئرویز کی ٹکٹ کی تاریخ تبدیل کر کے مجھے نئی ٹکٹ بھجوائی تو وہ کانٹیکٹ سنٹر احمد آباد بھارت سے جاری کردہ تھی۔
میں ایک صاحب کا وڈیو کلپ دیکھ رہا تھا جس میں وہ بتا رہے تھے کہ کراچی یونیورسٹی میں مستقبل میں نوجوانوں کے کیریئر کی رہنمائی کے لیے ایک فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس فیسٹیول کی تشہیری مہم کے سلسلے میں پینا فلیکس پر جو تصویر لگی ہوئی تھی اس میں مہمان خصوصی کو ماؤس‘ کی بورڈ‘ لیپ ٹاپ وغیرہ کے بارے میں آگاہی دی جا رہی تھی اور کمپیوٹر کی سکرین پر ونڈوز کا جو ورژن دکھایا جا رہا تھا وہ ”ونڈوزسیون‘‘ تھی۔ یعنی اکیسویں صدی میں ان کو بیسویں صدی کی تعلیم کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اب اس قسم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب یہ نوجوان مارکیٹ میں جائیں گے تو اس متروک اور زائد المیعاد علم کی کوئی جگہ نہیں ہوگی تو پھر یہ نوجوان معاشرے میں مایوسی کی تصویر بن کر پھرے گا۔ اپنی چار چھ سالہ پیشہ ورانہ تعلیم پر لعنت بھیجے گا۔ نتیجتاً یہ نوجوان خودکشی اور جرائم کی دنیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا اور ہر دو صورت میں اس کو اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کے کیس کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اس بات سے کسی کو غرض نہیں ہوگی کہ اس کی تمام تر اعلیٰ تعلیم کا مارکیٹ میں درکار طلب سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ ہم متروک نصاب اور درسیات پڑھا رہے ہیں بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمیں ابھی تک اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ہم نے اپنے طلبہ کو کس بیکار مشقت میں ڈال رکھا ہے۔ بھارت آج آئی ٹی میں اس لئے چھایا ہوا ہے کہ وہاں تعلیمی نصاب مرتب کرنے والوں نے مستقبل میں پیدا ہونے والی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب بنایا اور آج دنیا بھر میں وہ اپنی اس درست منصوبہ بندی کا پھل کھا رہے ہیں۔ 2022 ء میں صرف آئی ٹی سیکٹر کی سروسز سے بھارت نے ایک سو پچاس ارب ڈالر کا زرِمبادلہ کمایا جو گزشتہ سال کی نسبت 17.2 فیصد زیادہ تھا۔ دوسری جانب ہمارے ملک کی کل برآمدات بمشکل پینتیس ارب ڈالر ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ آئندہ سالوں میں بھارت کہاں ہو گا اور ہم کدھر کھڑے ہوں گے۔ حالانکہ اس موازنے پر اس بات کا قوی امکان ہے کہ ”محب وطن پاکستانی‘‘ مجھ پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگا سکتے ہیں۔ اب صرف اس احمقانہ فتوے کے خوف سے اس سچائی کے اظہار سے منہ تو نہیں پھیرا جا سکتا۔ (جاری)