ڈائنوسار سے بھی قدیم، دیوقامت سمندری جانور دریافت

نیواڈا: امریکی سائنسدانوں نے نیواڈا کے پہاڑوں میں ایک ایسے دیوقامت سمندری جانور کے رکازات (فوسلز) دریافت کیے ہیں جو تقریباً 24 کروڑ سال قدیم ہیں۔ اس کی کھوپڑی چھ فٹ سے بھی زیادہ لمبی ہے جس کی بنیاد پر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ سمندری جانور کم از کم 56 فٹ لمبا رہا ہوگا۔

اس قدیم و معدوم جانور کا تعلق سمندری جانوروں کے ’اکتھیوسار‘ (Ichthyosaur) قبیلے سے ہے جسے ’سمندری ڈائنوسار‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم اب تک اکتھیوسارز کے رکازات بہت کم ملے ہیں جو اگرچہ 25 کروڑ سال پرانے ہیں لیکن جسامت میں خاصے کم ہیں۔
نو دریافتہ اکتھیوسار، جسے ’سمبوشپونڈائلس ینگورم‘ (Cymbospondylus youngorum) کا نام دیا گیا ہے، ان سب سے جسامت میں بڑا ہونے کے علاوہ ڈائنوساروں سے زیادہ قدیم بھی ہے۔

دیوقامت ڈائنوسار کے سب سے پرانے رکاز 21 کروڑ 50 لاکھ سال قدیم ہیں لیکن یہ اکتھیوسار ان کے مقابلے میں بھی ڈھائی کروڑ سال قدیم ہے۔

’ینگورم‘ کے رکازات 2011 میں دریافت ہوئے تھے جو خاصی حد تک مکمل کھوپڑی کے علاوہ کندھوں اور ریڑھ کی ادھوری ہڈیوں پر مشتمل تھے۔

انہیں نیواڈا کے آگسٹا پہاڑ میں رکازات کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھنے والی ایک وسیع چٹان کی کھدائی میں برآمد کیا گیا تھا۔

طویل عرصے کی محتاط چھان بین اور تجزیئے کے بعد، آخرکار ماہرین یہ جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ’ینگورم‘ کا ارتقاء خشکی پر چلنے والے کسی جانور سے ہوا تھا لیکن یہ ڈائنوسار سے بہت مختلف تھا۔

یہ 24 کروڑ 70 لاکھ سال سے 23 کروڑ 70 لاکھ سال تک قدیم ہے جس کی لمبائی تقریباً 56 فٹ رہی ہوگی۔ اب تک اتنی بڑی جسامت والا اتنا قدیم جانور کوئی اور دریافت نہیں ہوا ہے۔

اس کا تعلق جس زمانے سے ہے، اس دور میں ڈائنوسار بھی بہت چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے جنہوں نے بہت بعد میں جا کر زیادہ جسامت حاصل کی۔

اس کی لمبی تھوتھنی جیسی کھوپڑی اور اس میں باریک دانتوں کی باقیات ظاہر کرتی ہیں کہ یہ سمندر میں تیرتے دوران چھوٹے آبی جانوروں کا شکار کیا کرتا تھا۔

البتہ، اس کی کھوپڑی پر ناک کے نتھنوں والے نشانات بھی بہت واضح ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مچھلی جیسا حقیقی آبی جانور نہیں تھا بلکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سطح سمندر پر آکر ہوا میں سانس لیا کرتا تھا اور واپس غوطہ لگا کر گہرائی میں چلا جاتا تھا۔ ’ینگورم‘ کی جسامت موجودہ زمانے کی دیوقامت ’اسپرم وہیل‘ جتنی رہی ہوگی۔

اس دریافت کی روشنی میں ہمیں دیوقامت جانور کے ارتقاء سے متعلق مزید جاننے اور سابقہ تصورات بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

نوٹ: یہ تحقیق ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔