کوئی فرق نہیں پڑتا

اس ملک میں ایسی ایسی انہونی ہوتی ہے کہ اب کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے پر حیرانی نہیں ہوتی۔
ابھی آڈیو لیکس کی گفتگو سن لیں۔ لگتا ہے شریف خاندان وہیں سے کام شروع کررہا ہے جہاں 2018ء میں چھوڑ کر گیا تھا۔ مریم نواز اب بھی اپنے داماد کے پلانٹ کیلئے پریشان ہیں۔ ساری گفتگو سن لیں تو اندازہ ہوگا کہ عوام میں ہمارے حکمرانوں کا چہرہ کچھ اور ہے اور بند دروازوں کے پیچھے یہ سب کچھ اور سوچتے اور کرتے ہیں۔ اس سے بڑا سکینڈل کیا ہوگا کہ وزیراعظم کے دفتر کی ساری ریکارڈنگ آپ کو کسی عالمی ویب پر میسر ہو۔ آپ بہت امیر ہیں تو چند لاکھ پاؤنڈز دے کر وہ ساری گفتگو سن سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو خرید کر اکیلے سنیں یا پھر پوری دنیا کو اس میں شریک کر لیں۔ مان لیا دنیا میں بہت کام ہوتے ہیں اور بڑی بڑی سرخیاں لگتی ہیں‘ ملکوں کی بدنامیاں ہوتی ہیں‘ کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن آج تک یہ نہیں سنا ہوگا کہ کسی ملک کے وزیراعظم کا پورا دفتر بـَگ ہو جائے اور بَگ یا ہیک ہو کر اس کی ساری کارروائی یا گفتگو انٹر نیٹ پر میسر ہو۔ جس کی جیب میں پیسے ہوں تو وہ خرید کر بانٹ بھی دے۔ اگرچہ بہت سے لوگ کہیں گے کہ ایسا امریکہ میں بھی ہوا جب سنو ڈن نے ساری تفصیلات دنیا کو بتا دیں کہ امریکی کیسے جاسوسی کرتے ہیں اور دنیا بھر کے بڑے لیڈرز اِن کے ٹارگٹ پر ہیں۔ اور تو اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا فون بھی امریکیوں نے ہیک کر رکھا تھا۔ وکی لیکس کا بھی کہا جا سکتا ہے کہ سارا ڈیٹا چوری ہوگیا تھا۔ لیکن اس معاملے میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ جن لوگوں نے وہ کام کیا‘ وہ سامنے آئے اور ان کی رسائی اس ڈیٹا تک تھی۔ لیکن پاکستان کے معاملے میں تو وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو ہیک کرکے پوری دنیا میں سب کچھ پھیلا دیا گیا کہ یہ لیں جناب سب کا کچا چٹھا۔ دنیا بھر میں ہیکرز ہوں یا انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ سب کوشش کرتے ہیں کہ وہ مخالفوں کے اہم لیڈروں کی گفتگو سن سکیں‘ کوئی انفارمیشن لے سکیں کہ وہ کیا منصوبے بنا رہے ہیں یا نئی معاشی یا دفاعی پالیسیاں کیا ہوں گی اور کن کن ممالک کی سربراہان سے کیا بات چیت ہوئی۔ اس کام کے لیے پہلے ایجنسیاں اپنے لوگ پلانٹ کرتی تھیں‘ ایجنٹس ڈھونڈے جاتے تھے یا پھر فون ٹیپ کرکے معلومات لی جاتی تھیں۔ ہیومن انٹیلی جنس پر بھروسا کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے روایتی طریقے ختم ہوتے چلے گئے اور اب ان کی جگہ جدید آلات نے لے لی ہے۔ اب تو ایسے آلات مارکیٹ میں آچکے ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد ایسے جاسوسی آلات سامنے آئے کہ دنیا حیران رہ گئی کہ صرف فون سم کی مدد سے آپ اس بندے کی لوکیشن ٹریس کر کے پکڑ سکتے ہیں۔ اب اگرچہ یہ بڑی عام سی بات محسوس ہوتی ہے لیکن بیس سال پہلے یہ بڑی حیران کن ٹیکنالوجی سمجھی جاتی تھی اور بڑے بڑے خطرناک لوگ اس سے پکڑے گئے اور انہیں پتا تک نہ چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ یہی ڈرون ٹیکنالوجی تھی جس نے جنگ کا طریقہ کار ہی بدل دیا۔ رہی سہی کسر سمارٹ فونز نے پوری کر دی ہے۔ فون کے ذریعے ہیکنگ اب بڑا آسان کام ہے۔ کسی کا فون دور بیٹھ کر ہیک کیا جا سکتا ہے اور اس کی گفتگو سنی جا سکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم کی سائبر سکیورٹی کا یہ حال ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ایک اچھے سرکاری افسر نے کچھ سال پہلے مجھے بتایا تھا کہ جب وزیراعظم ایک پرائم ایجنسی کے دفتر بریفنگ لینے گئے تھے تو انہیں باقاعدہ طور پر خبردار کیا گیا تھا کہ وہ وٹس ایپ چیٹ سے گریز کریں کیونکہ ایک نئی ایپ کے ذریعے اب یہ کمپرومائز ہو چکی ہے۔ ان کا اشارہ شاید اسرائیلی سسٹم پیگاسس کی طرف تھا۔ عمران خان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ ایک چینی ایپ استعمال کیا کریں جو محفوظ ہے۔ اب یہ نہیں پتا کہ انہوں نے یہ مشورہ مانا یا نہیں لیکن ہمارے ہاں سکیورٹی ادارے اب بھی چینی دوستوں کو زیادہ قابلِ بھروسا سمجھتے ہیں کیونکہ چین اس خطے میں واحد ملک ہے جس کے مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرے اور ہمارا مفاد بھی اس میں ہے کہ چین کے مفادات کا تحفظ کریں۔ یوں دونوں ملکوں کا ایک دوسرے پر اعتبار کا لیول بہت ہائی ہے۔ اس لیے خان صاحب کو کہا گیا تھا کہ وہ چینی پراڈکٹ استعمال کریں تاکہ ان کی خفیہ گفتگو یا چیٹ ہیک یا لیک نہ ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کو کیسے ہیک کیا گیا؟ یقینی طور پر یا تو حکام کے فون ہیک کرکے دور سے ساری گفتگو سنی اور ریکارڈ کی گئی۔ اگرچہ عام وزیٹرز کو وزیراعظم ہاؤس میں فون لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن وزیراعظم یا ان کے وزیروں کو نہیں روکا جاتا‘ لہٰذا ان فونز کے ذریعے سب ریکارڈنگ ممکن ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ پورے وزیراعظم ہاؤس کو ہی بَگ کر لیں کہ کسی کونے میں کوئی بھی آواز ابھرے گی تو خفیہ جگہوں پر رکھے خفیہ مائیکس فوراً آپ کو سب گفتگو سنا دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کیا یہ ساری گفتگو صرف موجودہ وزیراعظم کی ریکارڈ کی گئی ہے یا اس سے پہلے وزیراعظم کے دور میں بھی یہی کام ہو رہا تھا؟ عمران خان تو خود انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ ایجنسیاں ان کا فون ٹیپ کرتی ہیں تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب کی دفعہ گفتگو پروٹوکول سے ہٹ کر ریکارڈ کی گئی تھی۔
یقینی طور پر یہ کسی بھی ملک کے لیے بہت پشیمانی کا باعث ہے کہ ملک کے وزیراعظم کی گفتگو ریکارڈ کرکے کسی عالمی ویب سائٹ پر رکھ کر بولی لگوائی جائے اور اسے بیچ دیا جائے۔ یہ شرمندگی یقینا سیکرٹ ایجنسیوں کے لیے بھی ہوگی جو اتنا بڑا breach نہ روک سکیں۔ جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں پر آنکھ رکھیں اور ملک کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس اپنے راز چھپانے کے لیے کون سا سائبر سسٹم موجود ہے جو آج کے دور کے تمام سائبر اٹیکس اور سائبر بگنگ‘ ہیکنگ یا ریکارڈنگ کو ناکام بنا سکے؟ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ ہمارے پاس بڑے قابل لوگ موجود ہیں یا قابل لوگوں کی مدد موجود ہے جو اس سسٹم کو چلا رہے ہیں‘ وہ تو سب ناکام نکلے ہیں۔ ان لوگوں کی قابلیت کسی کام نہیں آئی‘ چند ہیکرز نے سب کچھ الٹا کر رکھ دیا۔
ان آڈیو لیکس نے بہت سے لوگوں کے چہرے سے نقاب بھی اتار دیا ہے۔ شریف خاندان کی اپنی آڈیو کہ کیسے خاندان کو فائدے دینے ہیں یا پھر الیکشن کمیشن‘ پی ٹی آئی ایم این ایز کے استعفوں کا مسئلہ ہو یا پھر صحت کارڈ اور پٹرول کی قیمتیں‘ مریم نواز کی گفتگو نے ان کو بھی وہی روایتی سیاستدان ثابت کیا ہے کہ عوام میں کچھ اور دعوے کرو اور بند دروازوں کے پیچھے پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا جواز پیش کرو۔ پھر اس ڈرامے کی کیا ضرورت تھی کہ نواز شریف مفتاح اسماعیل سے ناراض تھے یا مریم نواز کا یہ ٹویٹ کہ وہ اس فیصلے میں شامل نہیں بلکہ ناراض ہیں۔ اگر آپ کا اندر باہر ایک نہیں تو پھر عوام کو دھوکا دے کر کیا ملے گا؟ اتنا کردار تو ہونا چاہیے کہ مفتاح اسماعیل کو اکیلے سوشل میڈیا کی بھڑوں کے آگے ڈالنے کے بجائے خود سٹینڈ لیتے کہ ہاں تیل کی قیمتیں بڑھانا ضروری ہے۔ سب اچھے کام آپ کے کھاتے اور سب برے مفتاح اسماعیل رکھ لے۔ بہرحال اسحاق ڈار کی واپسی ہو‘ جو خود بہت سکینڈلز میں ملوث ہیں اور ان پر بڑے سنگین الزامات ہیں‘ یا مریم نواز کی آڈیو لیکس‘ ان سے اس قوم کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہی میرا پرانا فقرہ کہ سب کو لٹیرا اپنی اپنی مرضی کا چاہیے۔