مشرقی پاکستان اور قریشی صاحب!

ان دنوں سردی اتنی زیادہ ہے کہ اس کی شدت کم کرنے کے لئے لحاف اوڑھتے ہیں تو ہم سے زیادہ لحاف کو سکون ملتا ہے کہ وہ سردی کی وجہ سے خود کپکپا رہا ہوتا ہے ۔گزشتہ روز ایک صاحب مجھے ایک کتاب دینے آئے میں نے دیکھا کہ ان کا سانس پھولا ہوا ہے اور پیشانی پر پسینہ ہے انہوں نے جب کتاب مجھے تھمائی تو میرا اپنا سانس پھول گیا اور پیشانی پسینے سے شرابور ہو گئی ’’مشرقی پاکستان ایک ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کے عنوان کی حامل یہ کتاب الطاف حسن قریشی کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہیں یہ کتاب پندرہ سو صفحات پر مشتمل ہے چنانچہ اس کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ پیشانی پر پسینہ آ جاتا ہے مگر جب میں نے کتاب پڑھی تو اندازہ ہوا کہ پیشانی پر نمودار ہونے والا پسینہ اس کی ضخامت ہی نہیں شاید یہ عرق ندامت بھی ہے جو ہماری کرتوتوں کی وجہ سے ہمارے جگر کا ٹکڑا ہم سے الگ ہوا ۔

الطاف حسن قریشی ماشااللہ نوے برس کے ہیں اور آج کے لکھاریوں میں شاید بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی صحافتی زندگی کے آغاز میں اردو ڈائجسٹ میں قریشی صاحب کے طویل انٹرویوز اور بعدازاں ان کے کالم نہ پڑھے ہوں ،میں قریشی صاحب کے خوشہ چینوں میں ہوں اور آج بھی کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو اندازہ ہوا کہ ان کا ایک حصہ میں بہت پہلے پڑھ چکا ہوں ہم لوگوں میں سے کچھ نے مشرقی پاکستان کے سانحہ کو اس شدت سے محسوس نہیں کیا جس شدت سے محسوس کیا جانا چاہئے تھا مگر قریشی صاحب نے اس غم اور ندامت کوحرزِ جاں بنالیا۔مشرقی پاکستان کے سانحہ کے متعدد اسباب ہیں مگر یہ سانحہ ہمارے آمروںکی خواہش کے نتیجہ میں ظہورپذیر ہوا ۔جنرل ایوب خان نےاپنے دور اقتدار میں اس شرمناک عمل کے لئے کام کرنا شروع کر دیاتھا اور پھر جنرل یحییٰ خان نے اس آغاز کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ہم لوگ اس شرمناک واردات کے کرداروں کو کیسے معاف کر سکتے ہیں جنہوں نے شیخ مجیب الرحمان کو اس راستے کی طرف دھکیلا جدھر وہ جانا نہیں چاہتے تھے ۔جب ان کی جماعت نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کر لی تھی تو انہیں ان کاحق انہیں کیوں نہیں دیاگیا ؟شیخ مجیب الرحمان آخری دم تک پاکستان کو یکجا رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن سیاسی شاطروںنے ان کی ہر کوشش ناکام بنا دی اس حوالے سے الطاف حسن قریشی کے تجزیئے میری رائے سے قدرے مختلف ہیں مگر ان کی دردمندی میں کوئی شبہ نہیں ۔

قریشی صاحب نے مکتی باہنی کی قتل وغارت گری کوکھل کر بیان کیا ہے اور پاکستان دشمن مغربی میڈیا نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے بنگالیوں کی تعداد بہت بڑھا چڑھاکربیان کی جس کی تردید قریشی صاحب نےبہت سی گواہیوں کے ساتھ کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ہم نے بنگالیوں کو ان کا حق نہ دیا تو پھر جنرل نیازی ایسے بزدل جرنیل کو کھل کھیلنے کا موقع دینے کی بجائے اور پاکستان کے ٹکڑے ہونے سے بچانے کی بجائے کنفیڈریشن کی بات کی جا سکتی تھی جس کے نتیجے میں ہمیں بھارت ایسے ازلی دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔مجھے آج بھی جب 16دسمبر یاد آتا ہے تو شدت غم سے دل ڈوبنے لگتا ہے مجھے یاد پڑتا ہے میرے والد ماجدمولانا بہائو الحق قاسمی اس روز رات کو مسجد میں گئے تو انہوں نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا حتیٰ کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں مگر اس روز مغربی پاکستان میں روز مرہ کےتمام کام ہوتے رہے، لوگوں نے اس ذلت کو محسوس ضرور کیا مگر پھر بھول بھال گئے۔جماعت اسلامی نے اس شرمناک شکست کو جنرل یحییٰ خان کی شراب نوشی سے جوڑا اور شراب کی دکان پر نمازیوں نے سارا غصہ شراب کی بوتلوں پر اتارا ،یوں اس سانحہ کے اصل ذمہ داروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی بر ی الذمہ قرار دے ڈالا۔

آخر میں صرف یہ کہ قریشی صاحب نے پوری دردمندی سے اپنی تحریروں کو یکجا کیا ہے تاکہ آنے والے مورخ اس سانحہ کے حوالےسے لکھتے ہوئے بے شمار مواد بیٹھے بٹھائے حاصل کرسکیں ۔میں قریشی صاحب کا روزِ اول سے مداح ہوں اورعمر کے اس حصے میں اپنی مختلف تحریروں کو یکجا کرنے کے لئے انہوں نے جتنی محنت کی وہ پاکستان سے عشق کی حد تک محبت کے بغیر ممکن نہیں تھی ،اس حوالےسے ایقان حسن قریشی بھی داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کتاب کی تدوین میں ہاتھ بٹایا۔