ہر تین سال بعد

وہی پرانا فقرہ دہرانے کو دل چاہ رہا ہے کہ ہم یہ سمجھ کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب مزید ہمارے ساتھ کیا برا ہوگا جو اب تک ہو چکا ہے اور ہر دفعہ ہم غلط نکلتے ہیں۔ ہر دفعہ کچھ نیا ہوتا ہے‘ اور ایسا ہوتا ہے کہ جو کچھ پہلے ہوا تھا وہ اس کے مقابلے میں بہت کم لگتا ہے۔
ملک میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی بھی کچھ ایسا ہی ایشو بن چکا ہے کہ اب اس کے مقابلے میں پچھلے واقعات کم اہم لگتے ہیں۔ ہر تین سال بعد یہ مرحلہ درپیش ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ آخری دفعہ یہ موقع 2016ء میں پیدا ہوا تھا جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آیا تھا۔ بظاہر تو جنرل راحیل شریف مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے تھے لیکن ان کے قریب سمجھے جانے والا ایک افسر اس حق میں تھا کہ وہ ایک سال کی توسیع لے لیں تاکہ اگلے سال اُس کے اپنے آرمی چیف بننے کے امکانات روشن ہو جائیں۔ شنید ہے کہ جنرل راحیل شریف اس بات پر راضی ہو گئے تھے لیکن نواز شریف نہیں مانے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ڈان لیکس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی تاکہ حکومت کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ مدتِ ملازمت میں توسیع دے دے۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی کئی بار مارشل لا لگانے کی باتیں ہوتی رہیں‘ کچھ حلقے عمران خان کے دھرنے کا خالق بھی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام کو سمجھتے تھے کیونکہ وہ اس حق میں تھے کہ نواز شریف کا تختہ الٹ دیا جائے؛ تاہم جنرل راحیل شریف اس پر تیار نہ ہوئے۔ نواز شریف کی موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے بارے کہا گیا تھا کہ انہوں نے بند کمروں میں ہونے والے اجلاسوں میں اس تجویز کی مخالفت کی تھی کہ فوج کو حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہیے۔ وہ جمہوریت کے حق میں دلائل بھی دیتے تھے۔ اُن کی اسی جمہوریت پسندی کی وجہ سے نواز شریف حکومت نے انہیں دیگر سینئر افسران پر ترجیح دے کر چیف بنایا تھا۔ موجودہ آرمی چیف نے اپنے پیش رو کے دور میں سویلین اور فوجی حکام کے تعلقات میں پڑنے والی دراڑ کو فوری طور پر ختم کیا جس پر انہیں اندرونی مخالفت کا سامنا بھی رہا اور جس کا اظہار انہوں نے صحافیوں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی کیا۔
اب پھر سے وہی منظر نامہ بن چکا ہے۔ اگرچہ یہ منظر نامہ اس وقت بھی بنا تھا جب تین سال قبل نئے آرمی چیف کی تقرری کا وقت قریب آیا تو عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی توسیع دینے کا فیصلہ کیا اور معاملہ عدالت میں جا پہنچا اور عدالت سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ میں لینڈ کر گیا جہاں اسے باقاعدہ ایک قانون کی شکل دی گئی۔ اس وقت بھی اگر آپ کو یاد ہو تو پورا ملک ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا۔ جب تک توسیع کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا تھا یہ صورتحال برقرار رہی۔ اگر اُس وقت نئی تعیناتی ہو جاتی تو آج حالات اس لیے کچھ مختلف ہوتے کہ جنرل پرویز مشرف کے نو برس اور جنرل کیانی کے چھ برس تک آرمی چیف رہنے کے بعد ایک نئی روایت پیدا ہو جاتی کہ اگلا چیف بھی تین سال بعد ریٹائر ہو جاتا لیکن جنرل راحیل شریف کے بعد یہ سلسلہ پھر سے رک گیا۔
شنید ہے کہ جانے والے چیف کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بعد جو جنرل چیف بن رہا ہے وہ اس کی مرضی کا ہو۔ یہ انسانی مزاج ہے۔ کوئی بھی تنظیم یا دفتر ہو‘ اس کے باس کا اپنا پسندیدہ افسر ضرور ہوتا ہے جسے وہ اپنی جگہ بٹھا کر گھر جانا چاہتا ہے جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس تنظیم کے اوپر بیٹھے لوگ جنہوں نے اس سیٹ پر بندہ لگانا ہوتا ہے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس جگہ کوئی ایسا بندہ لائیں جس پر گھر جاتے باس کا زیادہ اثر و رسوخ نہ ہو یا وہ یہ نہ سمجھتا رہے کہ اس کا پرانا باس ہی اسے اس سیٹ پر بٹھا کر گیا تھا لہٰذا وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ حکومتیں بھی ہمیشہ یہی سوچتی رہی ہیں کہ نیا آرمی چیف ایسا لایا جائے جو اپنے پچھلے باس کے اثر میں نہ ہو۔ اگر آپ پچھلا پیٹرن دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ جنرل کیانی یا جنرل راحیل اپنی جگہ جس افسر کو آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے حکومت نے ان کو نہیں لگایا۔ یہ بھی سمجھداری کہیں یا پروفیشنل اپروچ کہ ہر ریٹائرڈ چیف سے جاتے وقت وزیراعظم یہ ضرور پوچھتا ہے کہ ان کے خیال میں نیا چیف کون ہونا چاہیے مگر وہ جو ریکمنڈ کرتا ہے اس کی جگہ اپنی پسند کے‘ اپنے حساب سے بے ضرر افسر کو ترقی دے دی جاتی ہے۔اس دفعہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہی کچھ ہونے جا رہا ہے کہ جس نام پر موجودہ آرمی چیف اصرار کررہے ہیں اس پر حکومت نہیں مان رہی۔ حکومت کا کہنا ہے اس دفعہ اس فارمولے پر چلا جائے کہ جو سب سے سینئر ہے اسے چیف بنا دیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بھی شاید بڑے عرصے بعد پہلی دفعہ ہوگا کہ موسٹ سینئر افسر آرمی چیف بنے گا۔
ہمارا خیال تھا کہ جمہوریت کے چلنے سے سیاست اور سیاستدان مضبوط ہوں گے۔ سیاسی ادارے خصوصاً پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس کو مضبوطی ملے گی کیونکہ اچھی یا بری 2008ء سے جمہوریت تمام تر سیاسی بحرانوں کے باوجود ابھی تک چل رہی ہے۔ ان بارہ برسوں میں پانچ وزیراعظم گھر بھیجے جا چکے ہیں لیکن پھر بھی جمہوریت چلتی رہی ہے جو اچھا سائن ہے۔ ہمارا خیال تھا وقت کے ساتھ ساتھ وزیراعظم اتنا پاور فل ہو جائے گا اور آرمی چیف کی تعیناتی بھی ایک روٹین کا معاملہ بن کر رہ جائے گی جیسے اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی بن چکی ہے۔ لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ سیاست اور سیاستدان کمزور ہوئے ہیں۔ وہ اپنی کارکردگی پر نہیں بلکہ ایک آرمی جنرل کی سپورٹ کے ساتھ سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدان اب اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ انہیں بیساکھیاں چاہئیں۔ انہیں ایسا جنرل چاہیے جو ان کی حکومت کو اپوزیشن کے ہاتھوں نہ گرنے دے۔ وہ سیاسی آرمی چیف چاہتے ہیں۔ وزیراعظم خود چاہے جتنا بھی نااہل ہو‘ پارلیمنٹ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو یا اس سے حکومت نہ سنبھل پاتی ہو لیکن وہ چاہتا ہے کہ آرمی چیف حکومت کو ہر بحران سے بچائے۔ جیسے عمران خان چاہتے تھے‘ جیسے شہباز شریف چاہتے تھے۔
سوال یہ ہے اگر عمران خان نے اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت کرنی ہے یا شہباز شریف نے بھی اس کندھے پر چڑھ کر حکومت میں آنا ہے تو پھر عمران خان نے اکتوبر 2021ء میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر سٹینڈ کیوں لیا تھا یا شہباز شریف اب نومبر 2022ء میں اپنی مرضی کا آرمی چیف کیوں لگانا چاہتے ہیں؟ پھر تو اس اصول کے تحت یہ فیصلہ بھی آرمی چیف کو ہی کرنے دیں۔ اگلے کہتے ہیں جب آپ کو ہم نے وزیراعظم بنایا تو آپ کو اعتراض نہ تھا اب جب ہم چاہتے ہیں کہ فلاں افسر لگے گا تو آپ فرماتے ہیں یہ وزیراعظم کا حق ہے کہ ہم کس کو لگائیں۔
یہ فطری سی بات ہے اس وزیراعظم کی بات سنی جائے گی یا وہ مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی یا آرمی چیف لگا سکے گا‘ جو فوجی کندھے استعمال کرکے وزیراعظم نہیں بنے گا اور ایسا وزیراعظم ہمارے پاس نہیں ہے‘ لہٰذا ہر تین سال بعد ایک معمول کی تعیناتی سے پورا ملک ہل کر رہ جاتا ہے۔ قابلیت اور میرٹ سے ہٹ کر وزیراعظم سے لے کر آرمی چیف تک سب اپنا بندہ چاہتے ہیں۔