فواد حسن فواد کا خط، میری معذرت اور نیب

8اکتوبر 2022ءکو روزنامہ جنگ میں ”عمران خان، اعظم خان اور فواد حسن فواد“ کے زیرعنوان میرا کالم شائع ہوا۔ جس پر دیگر قارئین کے علاوہ محترم فواد حسن فواد نے بھی اپنا ردعمل ایک خط کی صورت میں بھیجا ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ اس کالم سے فواد حسن فواد یا بعض حلقوں نے ایسا تاثر لیا کہ جیسے میں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو ایک کیٹیگری میں شمار کرتا ہوں اور یہ کہ ان کی گرفتاری ان کے اعمال کا نتیجہ تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نےایساانداز تحریر اختیار کیا جس سے فواد حسن فواد یا کسی اور نے یہ تاثر لیا۔ جب وہ پرنسپل سیکرٹری تھے تو کئی حوالوں سے میں نے ان پر شدید تنقید کی لیکن میں انہیں ہر گز اعظم خان جیسا نہیں سمجھتا اور ان کی گرفتاری کے دن سے لے کر آج تک اس موقف کا ہر فورم پر اظہار کرتا رہا کہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ ظلم ہوا ۔ اب فواد حسن فواد کا خط ملاحظہ کیجئے۔

محترم سلیم صافی بھائی السلام علیکم!

کچھ روز پہلے روزنامہ جنگ میں آپ کا کالم” عمران خان اعظم خان کی یاری اور فواد حسن فواد“ پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔آپ کے کالم سے یہ واضح تاثر ابھرا کہ شاید مجھے جیل بھیجنے کی وجہ میرےکچھ اعمال یا کردار تھا اور اب اعظم خان کے ساتھ بھی وہی ہونے جارہا ہے تو یقین نہیں آیا۔

شاید اس لیے بھی کہ مجھے ہمیشہ یہ گمان رہا کہ آپ ان تمام حقائق سے بخوبی واقف تھے جن کی وجہ سے مجھے جھوٹ پر مبنی الزامات پر جیل بھیجا گیا۔ سو میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کم از کم کچھ ایسے حقائق ضرور آپ کے سامنے رکھوں جن سے آپ نے دانستہ طور پر یا غیر دانستگی میں اغماض برتا ہے۔

آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ میں آج تک کسی منافع بخش عہدے پر براجمان نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اس کی خواہش رکھی ہے ۔میری ملازمت کے ابتدائی دس سال بلوچستان میں گزرے جنہیں میں آج بھی اپنے بہترین دنوں میں شمار کرتا ہوں۔اس دوران میں نے کیسے اپنے فرائض نبھائے، یہ جاننا ہو تو آج بھی کوئٹہ میں جنگ کے کسی معتبر نمائندے یا خود ذاتی طور پر تحقیق کر لیجئے۔ بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ ایسا کرتے ہوئے کوئٹہ میں کسی سے بھی میرے اور میرے محتسب جاوید اقبال کے کردار اور دیانت دونوں کا تعین کروالیں۔ وہ اسلئے کہ جن دنوں میں کوئٹہ میں اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز تھا تو وہ بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے اور ہم ایک ہی عدالتی احاطے میں کام کرتے رہے۔

اوتھل ضلع لسبیلہ کے صحرا سے لیکر وزیراعظم ہاؤس اور اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار کی رہگزاریوں تک میں نے ایک ہی جذبے ،لگن اور محنت سے کام کیا ۔ رہی وزیر اعظم کی سیکرٹری کے طور پر تعیناتی تو جب مجھے اس کیلئے کہا گیا تو میں نے وزیراعظم نواز شریف سے اس پر اختلاف کیا اور انھیں قائل کرنے کیلئے تین افسران کے انٹرویو کروائے ۔عظمت رانجھا ،ندیم حسن آصف اور حسیب اطہر ،تینوں آج بھی حیات ہیں اور آپ سب سے علیحدہ علیحدہ تصدیق کرسکتے ہیں۔

اس کے باوجود وزیر اعظم نے میری تقرری کے احکامات جاری کیے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اس حیثیت میں اسی جوش اور جذبے سے کام کیا جو اس عہدے کا تقاضا تھا لیکن کسی ایک لمحے کے لئے بھی قانون اور قاعدے سے متضاد کوئی رائے دی اور نہ ہی کسی ایسے حکم نامے پر بلاجواز دستخط کیے۔ وزیراعظم ہاؤس میں ان پانچ برسوں میں تعینات کسی بھی افسر اور اہلکار کو بلائیں اورحلف دے کر پوچھیں کہ کیا ایک لمحے یا ایک مرتبہ بھی انہیں یہ کہا گیا کہ کسی فائل پر اپنا نقطہ نظر رکھنے سے پہلے پوچھ لیں۔ اس کے برعکس ہر ایک کو بارہا کہاگیا کہ آپ کا کام بغیر کسی دباؤ کے قانون اور قاعدے کے مطابق فائل دیکھنا ہے اور اس پر تحریری رائے دینا ہے۔ اگر میں یا وزیراعظم اس سے اختلاف کریں گے تو زبانی نہیں بلکہ تحریری کریں گے۔

میری گرفتاری کے بعد چار ماہ تک ایک ٹیم وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھی ایک ایک کاغذ کو چھانتی رہی۔ اس کی بھی جس سے چاہیں تصدیق کرلیں یا پھر خود ارباب شہزاد اور اعظم خان سے ہی پوچھ لیں۔ اس سے بھی بڑھ کر میرے خلاف بنائے دونوں ریفرنس چھان لیں۔ کیا کسی ایک بھی ایسے فیصلے کا ذکر ہے جس سے مجھے کوئی فائدہ ملا ہو یا جو براہ راست یا بالواسطہ میرے کسی عزیز، رشتہ دار یا دوست کے فائدے کے لیے ہوا ہو یا کسی کے اکاؤنٹ سے تحقیقات کے دوران کوئی ٹی ٹی یا کوئی نا قابل تصدیق رقومات ملیں ؟ اس کے باوجود مجھے دوایسے مقدمات میں ملوث کیا گیا اور آج تک عدالتی حاضریوں سے گزارا جا رہا ہوں جن میں سچائی کا رتی بھربھی شائبہ نہیں۔ میں نے بدترین میڈیا ویکٹمائزیشن کے باوجود اپنے آپ کو روکا ہے کہ زیر سماعت مقدمات پر بات نہ کروں لیکن آپ یا کوئی بھی اور اینکر جس روز چاہے روبرو بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہوں لیکن صرف اسی وقت جب وہ پروگرام براہ راست نشر ہو۔ اور آپ چاہیں تو نیب کےکسی بھی شخص یا خود جاوید اقبال کو بلوا لیں کہ وہ بھی روبرو ہو جائے۔ اس وقت کی وزارتوں اور اداروں میں تعینات کسی بھی شخص سے پوچھئے کہ کیا میں نے کبھی کسی کو کسی منافع بخش عہدے پر تعینات کرنے کے احکامات دیے؟ احکامات تو چھوڑ ئیے کیا کبھی سفارش بھی کی؟ ان میں سے کئی آج بھی اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور ان میں سے کئی ایک میرے خون کے پیاسے بھی رہے ہیں، یوں مجھے یقین ہے کہ تکلف نہیں کریں گے۔ یہ بھی پوچھ لیجئے گا کہ مجھ سے پہلے اور بعد میں یہ تقرریاں کیسے ہوتی رہیں؟

آپ کو شاید یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ آشیانہ میں مجھ سے متعلق الزامات کا ٹرائل آج چار سال کے بعد بھی شروع نہیں ہوسکا جب کہ ناجائز اثاثوں کے کیس میں پہلے نیب نے ریفرنس فائل کرنے میں تقریباً ایک سال کا وقت لیااور باقی تین سال میں سے دو سال سے زائد عرصہ متعلقہ عدالت میں کسی جج کی تعیناتی ہی نہیں کی گئی۔اکتیس مئی 2022سے عدالت خالی ہے اور ہم پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

میں نے پچھلی حکومت کی فسطائیت کا بھی مقابلہ کیا ہے اور اس حکومت کا بھی کررہا ہوں۔ اس سے میرے خاندان کو کیا کیا نقصانات ہوئے اور ہو رہے ہیں ، اس کا حساب ایک دن یہاں نہیں تو اللہ کی عدالت میں ہوگا۔میں آپ ہی کی وساطت سے سپریم کورٹ سے یہ درخواست کر رہا ہوں کہ وہ نیب کے قوانین اور مقدمات کے متعلق جو کیس سن رہے ہیں اس میں مجھے بھی طلب کر لے اور صرف چند منٹ میرے دو کیسوں کا احوال بھی سن لے شاید انہیںدرست فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔