معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سیلاب :اُم الآفات کیسے؟
اس سے پہلے بھی پاکستان میں کئی مرتبہ قدرتی آفات آئی ہیں۔ زلزلوں کی شکل میں بھی اور سیلابوں کی شکل میں بھی ۔لیکن حالیہ بارشوں اور سیلاب یا آفت کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ، افسوس کہ ہمارے بعض اہلِ صحافت اور ہم اہل صحافت نے اسے معمول کی ایک آفت سمجھ رکھا ہے ۔ہم یہ بھول رہے ہیں کہ یہ بارشیں14 جون سے شروع ہیں اور آج تک کہیں نہ کہیں برس رہی ہیں ۔
جولائی کا پورا مہینہ گزر گیا اور اب ستمبر میں بھی بارشیں رُکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اس سال معمول سے تقریباً ساڑھے تین گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور ابھی ہورہی ہیں۔
سندھ میں تو یہ شرح چھ گنا زیادہ ہے،جس کے نتیجے میں ملک کے 81اضلاع مکمل طور پرآفت زدہ قرار دے دیے گئے ہیں۔2010 کے سیلاب کے نتیجے میں 20 ملین لوگ متاثر ہوئے تھے لیکن اس سیلاب کے نتیجے میں تقریباً 40 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔
2010 کےسیلاب میں دو ملین ایکٹر اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی تھیں جب کہ اس سیلاب کے نتیجے میں ابھی تک چار ملین ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔تب پاکستان کا20 فی صد علاقہ متاثر ہوا تھا جب کہ اب 38فی صد پاکستان متاثر ہوا ہے۔
حالیہ سیلاب کے نتیجے میں17 لاکھ گھر تباہ ہوئے، 14 سوانسان لقمۂ اجل بنے، لگ بھگ آٹھ لاکھ مویشی مر گئے۔ تقریباً چھ ہزار کلومیٹر سڑکیں اور 264 پل تباہ ہوگئے۔ گلگت بلتستان اور پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں ایک طرح کی، بلوچستان میں دوسری طرح کی ، پختونخوا کے اضلاع نوشہرہ ، چارسدہ ،ڈی آئی خان ، ٹانک یا پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں ایک اور طرح کی تباہی ہوئی۔
مالاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستان میں سیلاب آیا اور دریائوں یا ندیوں کے کنارے سب کچھ بہا کر لے گیا۔ بلوچستان میں بھی کم وبیش ایسا ہی ہوا ۔ آبپاشی کا نظام تباہ ہوا جب کہ وہاں بھی بعض جگہوں پر سندھ اور جنوبی پنجاب کی طرح پانی بدستور کھڑا ہے۔
نوشہرہ اور چارسدہ سے لے کر جنوبی پنجاب اور سندھ میں دریا کے کنارے اضلاع میں تباہی کی نوعیت یوں مختلف ہے کہ وہاں دریائوں سے نکلنے والا اور بارش کا پانی کھڑا ہوگیا اور وہ علاقے سمندر کا منظر پیش کرنے لگے ۔یہ ایسی تباہی ہے کہ دنیا بھر میں گھومنے والے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو بھی کہنا پڑا کہ انہوں نے اپنے پورے کیرئیر میں ایسی تباہی نہیں دیکھی ۔
یہ امر پیش نظر رہے کہ انسانی جانوں کے لحاظ سے 2005کے زلزلےمیں 87ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بنے تھے لیکن مالی نقصان محض پانچ اعشاریہ دو بلین ڈالر کا ہوا تھا جب کہ حالیہ سیلاب کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ30ارب ڈالرلگایا گیا ہے ۔ جب2005 کا زلزلہ آیا تھا یا پھر2010 کا سیلاب آیا تھا تو پاکستان پہلے سے ہی معاشی بدحالی کا شکار نہیں تھا لیکن سیلاب کی موجودہ آفت ایسے عالم میں آئی ہے کہ جب پاکستانی معیشت پہلے سے زیادہ تباہ حال ہے ۔
عمران خان کے دور میں ڈالر کی اڑان مسلسل جاری رہی ۔ پورے خطے میں پاکستان کی سالانہ شرح ترقی کم رہی جب کہ افراطِ زر یا مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ رہی ۔ اب جب اتحادیوں نے حکومت سنبھالی تو اسے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے عمران خان حکومت کے فراڈ کا حساب چکانا اور اسے بہر صورت راضی کرنا تھا ورنہ پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا ۔
چنانچہ آئی ایم ایف کی شرائط کی خاطر تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں غریب آدمی توکیا اچھے بھلےخوشحال لوگوں کے بس سے بھی باہر ہوگئی ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ آئی ایم ایف سے قسط کے لئے ہم نے کتنے پاپڑ بیلے حالانکہ اس کے مجموعی پروگرام کا حجم سات ارب ڈالر ہے جب کہ سیلاب کے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ تیس ارب ڈالر ہے جو آگے جاکر مزید آٹھ دس ارب ڈالر بڑھ سکتا ہے ۔
مشکل سے حکومت نے چند ارب ڈالر آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے اکٹھے کئے اور اوپر سے تیس چالیس ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ گیا۔ یہ بات بھی مدِنظر رکھنی چاہئے کہ جب 2005کا زلزلہ اور 2010کا سیلاب آیا تھا تو اس وقت پاکستان وار آن ٹیرر میں امریکہ کا اتحادی تھا۔ گلے شکوے ضرور تھے لیکن تب افغانستان کی وجہ سے امریکہ ، برطانیہ اور یورپ پاکستان پر مہربان تھے ۔ اب افغانستان کے تناظر میں امریکہ یا اس کے یورپی اتحادیوں کو پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ اب اگر انسانی بنیادوں پر کچھ مہربانی کردیں تو ٹھیک ،نہیں تو انہیں اب پاکستان سے زیادہ انڈیا کی فکر ہے کیونکہ چین کے تناظر میں وہ ان کی اسٹرٹیجک ضرورت ہے ۔
دوسری طرف ماقبل دونوں آفات کے وقت صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مابین کوآرڈینیشن بہتر تھی جب کہ سیاسی ہم آہنگی کا ماحول بھی موجود تھا لیکن اب اسلام آباد کے سوا باقی صوبوں اور گلگت بلتستان میں عمران خان جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ عمران خان نے سیاسی ماحول کو اتنا پولرائز کردیا ہے کہ سیاستدان ساتھ بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل بھی نہیں بناسکتے ۔
دوسری طرف عمران خان بھرپور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ کبھی عدالتوں اور پولیس کو للکارتے ہیں تو کبھی آرمی چیف کی تقرری کا تنازعہ کھڑا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت حسبِ عادت جواب میں سیلاب کو چھوڑ کر ان موضوعات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور یوں سب سیلاب متاثرین کے ساتھ ظلم کے دانستہ یا نادانستہ مرتکب ہورہےہیں ۔ دوست ممالک بالخصوص یواے ای، سعودی عرب ، ترکی اور چین نے بروقت مدد کی کوشش کی ہے ۔
امریکہ نے بھی اب امدادی رقم کا اعلان کردیا ہے لیکن ایک تو ہونے والی تباہی کے لحاظ سے یہ سب امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے داخلی اور باہر سے آنے والی اس امداد کو انصاف کی بنیاد پر متاثرین تک پہنچا سکیں گے؟ کیوں کہ اب بھی ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بلوچستان کو وہ توجہ نہیں مل رہی جو سندھ کو مل رہی ہے ۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے صاحبانِ اختیار کو یہ احساس نہیں کہ یہ ایک ایسی آفت ہے جس سے مزید کئی آفات جنم لیں گی ۔ مثلا بچائو، بحالی اورریسکیو کے علاوہ اب بڑا چیلنج ان علاقوں میں جنم لینے والی بیماریوں سے نمٹنا ہوگا۔کئی جگہوں پر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی ہے تو کہیں ڈینگی نے انسانی جانیں لینا شروع کردی ہیں۔
اسی طرح جو فصلیں تباہ ہوئی ہیں، اس کی وجہ سے ہمیں مستقبل میں غذائی قلت کا بھی سامنا ہوگا۔ ایک اور آفت معاشرتی مسائل کی صورت میں سامنے آئے گی، جب لوگ بے گھر ہوتے ہیں تو بہت سے معاشرتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس کے نتیجے میں سیاسی حرکیات ہی بدل جائیں گی۔ کچھ ہیرو، زیرو اور کچھ زیرو ہیرو بن جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے سوا کسی اور سیاسی جماعت کی ترجیح سیلاب زدگان کی مددکرنا دکھائی نہیں دیتی۔ یوں ہوسکتا ہے کہ سیلاب زدگان سیاسی جماعتوں اور منطقی نتیجے کے طور پر ریاست سے متنفر ہوسکتے ہیں۔ اسلئے خدا کے بندو، سیلاب زدگان کی طرف توجہ دو کیونکہ یہ ان کی ہی بقا کا نہیں بلکہ پاکستان کی بقا کا بھی سوال ہے۔