چالیس سال بعد

آخر کار پچھلے چھ ماہ سے جاری سیاسی جنگ و جدل کسی حد تک کنارے جا لگی ہے۔ جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف مقرر ہو چکے ہیں۔ یہ سوال اس وقت سب کے ذہنوں میں ہے کہ کیا نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے‘ جو اس وقت سیاسی ہنگامہ چل رہا ہے‘ وہ تھم جائے گا یا اب پہلے سے بھی زیادہ شروع ہو جائے گا؟ اس کے دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب نیا آرمی چیف آئے گا تو بہت سارے پرانے ایشوز دفن کرکے آئے گا۔ عمران خان کو جو بھی ایشوز تھے وہ جانے والوں سے تھے جس کا اظہار وہ ہمیشہ اپنے جلسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں کرتے رہے ہیں۔ بدھ کے روز یوم دفاع اور شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی آخری تقریر میں عمران خان کا نام لیے بغیر اُن کے بیانیے پر تنقید کی اور پہلی دفعہ اپنا نقطۂ نظر کھل کر بیان کیا۔
امید ہے کہ نئے آرمی چیف اپنے کندھوں پر وہ بوجھ اٹھائے جی ایچ کیو میں داخل نہیں ہوں گے جس کی وجہ سے ملک ہیجان کا شکار رہا بلکہ نئی شروعات ہوں گی۔ فوج اپنے اس وعدے پر قائم رہے گی کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ لگتا ہے اِن دو تین برسوں میں وہ تلخ سبق سیکھے جا چکے ہیں جو گزشتہ چالیس برسوں میں نہیں سیکھے گئے تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے بھی پریس کانفرنس میں برملا کہا تھا کہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ ہم نے بڑی سوچ سمجھ کے بعد کیا ہے‘ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں فوج کے وہ سب افسران شامل ہیں جنہوں نے اگلے پندرہ سے بیس برس تک فوج کی قیادت کرنی ہے۔ اس ایک فقرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کے اندر واقعی سیاست میں عدم مداخلت کا احساس گہرا ہوا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ انہیں یہ احساس ہو چکا ہے کہ سیاست میں مداخلت کے الزام سے اُن کی ساکھ شدید متاثر ہو رہی ہے۔
ایک سیاسی گھوڑا جب بڑا ہو کر سیاسی میدان میں بھاگنے دوڑنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ کچھ عرصہ بعد انہی سے لڑ پڑتا ہے جو اُس کے ممدو معاون ہوتے ہیں۔شنید ہے کہ اسّی کی دہائی میں جنرل حمید گل‘ جنرل ضیاء اور جنرل جیلانی نے نواز شریف پر اس لیے خوب کام کیا تاکہ وہ پنجاب سے بھٹو کی سیاست کو ختم کر سکیں۔ بھٹو کی سیاست کو تو خیر نواز شریف ختم نہ کر سکے کیونکہ وہ کام بعد میں زرداری صاحب نے سر انجام دیا لیکن اس پورے عمل میں نواز شریف اور مقتدرہ کے درمیان ایسی تلخی پیدا ہوئی جو آج تک دور نہیں ہوسکی۔ 2017ء میں نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے جس جے آئی ٹی جی کی سفارشات پر ہٹائے گئے اس میں دو افراد مقتدرہ کے بھی شامل تھے۔اسی وجہ سے نواز شریف یہی سمجھتے ہیں کہ انہیں ہٹانے میں مقتدرہ کا بھی عمل دخل تھا اور یہ بات انہوں نے کبھی نہیں چھپائی بلکہ کئی مرتبہ بڑے واضح الفاظ میں اس کا اظہار کیا۔ نواز شریف پروجیکٹ ناکام ہونے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اب ان کے مقابلے پر عمران خان پروجیکٹ لانچ کیا جائے۔ اس دفعہ جنرل ضیا کی جگہ جنرل پرویز مشرف نے لے لی تھی جبکہ جنرل (ر) حمید گل نے بھی شروع کے دنوں میں عمران خان کو اپنی شاگردی میں لے لیا اور انہیں گروم کرنا شروع کیا۔ پھر جہاں جنرل (ر) حمید گل نے چھوڑا تھا وہاں سے جنرل شجاع پاشا نے کام شروع کیا۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری جنرل ظہیر الاسلام نے لے لی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ لیکن اب فوج کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بڑے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی اور اپنے اس وعدے پر کاربند رہے گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ یہ فیصلہ فوجی قیادت نے گزشتہ برس فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی؛ تاہم یہ احساس ہونے میں برسوں بیت گئے۔
ایک طرف اداروں کا سیاست میں عدم مداخلت کا واضح اعلان ہے تو دوسری طرف نواز شریف اور عمران خان شکایات لیے بیٹھے ہیں کہ جب انہیں مدد کی ضرورت تھی تو انہیں بچانے کے بجائے الٹا سیاسی بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا گیا۔نواز شریف کو مقتدرہ سے اُس وقت شکایت پیدا ہوئی جب پاناما سکینڈل سامنے آیا اور دو اہم افسران کی خدمات سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی کے حوالے کی گئیں۔ نواز شریف پر شاید واضح ہو چکا تھا کہ اب وہ بچ نہ پائیں گے۔ وہ توقع رکھتے تھے کہ انہیں بچایا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور ہر دفعہ انہیں یہی پیغام ملا کہ عدالتی امور میں کسی طور مداخلت نہیں کی جا سکتی لیکن یہ بات نواز شریف کیمپ ماننے کو تیار نہ تھا لہٰذا دوریاں بڑھتی گئیں اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ کیسے نواز شریف وزیراعظم ہاؤس سے نکلے اور وہ دن بھی آیا جب وہ اور مریم نواز اڈیالہ جیل میں جا پہنچے۔ اور عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد نواز شریف اور مریم نواز نے بھی براہِ راست مقتدرہ پر لفظی گولہ باری کی۔
یہ شکایات عمران خان کو بھی پیدا ہوگئیں جب تحریک عدم اعتماد کے بعد انہوں نے مقتدرہ سے مدد مانگی۔ وہ کئی دفعہ اپنے جلسوں اور تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے نیوٹرلز کو خود بھی کہا اور اپنے وزیر خزانہ شوکت ترین کو بھی ان کے پاس بھیجا کہ آپ یہ کام نہ ہونے دیں۔ ملکی اکانومی درست سمت جارہی ہے۔ حکومت تبدیل ہونے سے نقصان ہوگا اور پھر ہم ریکور نہیں کر پائیں گے لیکن ان کی حکومت ختم ہو گئی اور چور ڈاکو ملک پر مسلط ہو گئے جس سے معیشت کا بیڑہ غرق ہوا۔
اگر دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالوں کے آرمی چیف کے دورانیے میں پانچ وزیراعظم گزرے جن میں نگران وزیراعظم جسٹس ناصرالملک بھی شامل تھے۔ ان میں سے دو وزیراعظم اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو ٹھہراتے رہے ہیں جس کا جواب اب جنرل باجوہ نے اپنی آخری تقریر میں دینے کی کوشش کی ہے۔ ویسے سوال تو نواز شریف اور عمران خان دونوں سے بنتا ہے کہ جنرل باجوہ آپ کو کیوں بچاتے؟ آپ اس ملک کے وزیراعظم تھے۔ پارلیمنٹ اور ملک چلانا آپ کی ذمہ داری تھی نہ کہ جنرل باجوہ کی۔ نواز شریف کیوں یہ توقع رکھ بیٹھے تھے کہ جنرل باجوہ پاناما کرپشن سکینڈل پر عدالتی کاموں میں مداخلت کر کے ان کی مدد کریں گے اور ان کے خاندان کی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں مدد کریں گے کیونکہ انہوں نے انہیں آرمی چیف مقرر کیا تھا؟یا پھر عمران خان کیوں یہ توقع جنرل باجوہ سے رکھتے تھے کہ وہ ان کی پارلیمنٹ چلانے‘ ان کے اہم بلز پاس کرانے یا ووٹنگ میں مدد کریں گے یا جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہورہی تھی تو وہ باقاعدہ طور پر ایک سیاسی پارٹی کا رول ادا کریں گے اور ان کی حکومت نہیں گرنے دیں گے کیونکہ عمران خان نے انہیں تین سال پہلے پارلیمنٹ سے ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع لے دی تھی؟
اب مزے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف جنرل باجوہ سے پاناما سکینڈل سے مدد کے خواہاں تھے کہ میں نے آپ کو چیف مقرر کیا تھا اور خان تحریک عدم اعتماد پر مدد مانگتے تھے کہ میں نے تین سال آپ کو توسیع دی۔ یہ تھے ہمارے سیاستدان‘ جو اپنے ہی لگائے ایک چیف سے اپنی حکومت بچانے کیلئے مدد کے خواہاں تھے۔ ان کے پاس اپنی کارگردگی یا صلاحیت یا ایمان داری نہ تھی جو ان کی حکومت بچا سکتی۔ بہرحال فوج کو چالیس سال بعد ہی سہی‘ اگر احساس ہوگیا ہے کہ انہیں سیاست سے دور رہنا ہے تو یہ خوشی کی خبر ہے۔ لیکن مجھے شک ہے یہ سیاستدان فوج کو غیرسیاسی رہنے نہیں دیں گے‘ یہ فوج کو دوبارہ سیاست میں گھسیٹ لائیں گے کہ حکومت لینے میں ہماری مدد کرو یا حکومت کرنے میں۔ یہ سیاستدان اپنی عادت سے مجبور ہیں۔