تونسہ سے گجرات تک

سپریم کورٹ آف پاکستان میں فائل کی گئی ایک پٹیشن میں انکشاف ہوا ہے کہ کچھ دن پہلے ڈیرہ غازی خان‘ بھکر‘ خوشاب اور بہاولنگر کے فنڈز کاٹ کر‘ یہ پیسہ گجرات میں چودھری خاندان کے حلقوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ یقینا یہ کام وزیراعلیٰ پنجاب کی منظوری سے ہوا ہے۔ پٹیشن میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کے ایک عزیز‘ جو صوبائی اسمبلی کا ممبر ہے‘ کو بھی اپنے صوبائی حلقے کے لیے اربوں کا فنڈ ملا ہے لہٰذا اُس شخصیت کے لیے ایک علاقے کے فنڈز کاٹ کر اپنے عزیز کے حلقے میں ٹرانسفر کرنا معمولی بات تھی۔

ویسے مجھے اس امر پر کوئی حیرانی ہے اور نہ ہی کوئی افسوس۔ کبھی افسوس ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ ہمارے سرائیکی علاقوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے کہ وہاں کے فنڈز لاہور یا دیگر علاقوں میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ میرے علاقے کے لوگوں کو بھی اس سے اب فرق نہیں پڑتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب لیہ میں نیا ہسپتال بن رہا تھا‘ جس پر ستر کروڑ خرچ ہونے تھے کہ اسی دوران شہباز شریف کی جدہ اور لندن سے برسوں بعد واپسی ہوئی تو وہ سیدھے وزیراعلیٰ لگ گئے۔ ان کے پہلے حکم ناموں میں سے ایک یہ تھا کہ اس سے پہلے جن جن اضلاع میں فنڈز مختص کیے گئے ہیں‘ وہ فوری طور پر لاہور واپس منگوا لیے جائیں۔ اس کیساتھ ہی مختلف اضلاع کی ڈسٹرکٹ کونسلز کو بھی حکم دیا گیا کہ جو فنڈز آپ کے پاس پڑے ہیں‘ وہ بھی فوراً لاہور بھیج دیں۔ یوں ان پسماندہ علاقوں کے سب فنڈز لاہور منگوا کر وہاں میٹرو اور دیگر منصوبے فوراً شروع کر دیے گئے۔ یوں لیہ میں بننے والے ہسپتال کا ڈھانچہ آنے جانے والوں کے لیے ایک عبرت کا نشان بن گیا۔

ایک دن اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف راجن پور کے جلسے میں کہتے پائے گئے کہ ترقی دیکھنی ہے تو لاہور جا کر دیکھو۔ یوں ہمارے علاقے کے لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑے اور لاہور چل پڑے‘ جہاں مزدوری بھی ملتی تھی‘ بچوں کے لیے تعلیم‘ صحت اور بہترین میٹرو بھی۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لاہور میں آبادی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ لاہور کے مقامی اب صاف ستھری ہو امیں سانس لینے کو ترس رہے ہیں۔ میرے جیسے باہر سے آنے والوں نے ان لاہوریوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ وہاں ترقیاتی کاموں کے نام پر ہونے والی کھدائیوں‘ زمین کے سینے میں پروئے گئے سریے و سیمنٹ‘ اور میٹرو کے نام پر لاہور کے آسمانوں پر ڈالی گئی چھتوں نے اب ان کا جینا حرام کر دیا ہے۔ اب لاہور میں آپ سانس نہیں لے سکتے۔ وہاں ہر سال سموگ جینا حرام کر دیتی ہے۔ دو سال پہلے تک دہلی دنیا کا آلودہ ترین شہر تھا لیکن ہم نے بڑی محنت سے دہلی کو اس میدان میں بھی پچھاڑ دیا اور اس وقت پہلے درجے پر لاہور فائز ہے۔ جب سب فنڈز ایک ہی شہر پر خرچ ہوں گے اور باقی صوبہ منہ تکتا رہ جائے گا تو یہی کچھ ہوگا۔

اس طرح جب ہمارے عثمان بزدار صاحب وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے ایک نیا طریقۂ واردات ایجاد کیا۔ ان میں شاید اعتماد کی کمی تھی اس لیے وہ لاہور کی بیوروکریسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فنڈز نہیں لے سکے لہٰذا انہوں نے نیا طریقہ دکھایا یا پھر یہ کہ بیوروکریسی نے انہیں اس کام پر لگا دیا۔ انہوں نے ڈیرہ غازی یا تونسہ کے لیے نئے فنڈز کا اجرا کرنے کے بجائے ڈیرہ غازی خان کے قریبی شہروں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا۔ اگر ہسپتالوں میں آلات کی ضرورت پڑی تو لیہ کے ہسپتال سے آلات شفٹ کرا لیے گئے۔ کالج اَپ گریڈ ہوئے تو نئے استاد بھرتی کرنے کے بجائے لیہ کالج کے استادوں کو وہاں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ بسوں کی ضرورت پڑی تو ملتان اور بہاولپور پر ہاتھ صاف کیا گیا۔ بزدار صاحب کو لایا گیا تھا کہ وہ ان علاقوں میں ترقیاتی کام کرائیں گے۔ ان علاقوں کا بجٹ اور فنڈز بڑھائیں گے۔ انہوں نے الٹا کام کیا‘ اپنے رشتہ داروں کو ٹھیکے دلوائے۔ اب سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا ہے لہٰذا نہ کوئی حساب نہ کتاب کہ کتنا پیسہ آیا اور کہاں خرچ ہوا۔بزدار صاحب نے تو ایم ایم روڈ پر میرے رولا ڈالنے پر مجھے کہا: مٹھائی تیار رکھیں‘ آپ کی سڑک پر کام شروع ہونے والا ہے۔ کچھ دن بعد پتا چلا کہ سب بہانہ تھا۔ الٹا وہ سڑک جو پانچ سرائیکی اضلاع سے گزرتی ہے‘ پنجاب سے وفاق کو دے دی گئی کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں‘ آپ سنبھالیں۔ وفاق نے پانچ سو کلومیٹر سڑک کے لیے صرف اٹھارہ ارب رکھے‘ یعنی کچھ مٹی وغیرہ ڈال کر جان چھڑا لی گئی۔ اب چودھری پرویز الٰہی ان علاقوں کے فنڈز اپنے علاقوں میں لے گئے ہیں۔

ویسے میں ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ اب مجھے کوئی شکایت نہیں ہے کہ سرائیکی علاقوں کا بجٹ کہیں اور شفٹ کر دیا گیا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اب سو روپے میں سے بمشکل دس بیس روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتے ہیں اور اَسی روپے سیاستدان اور افسر شاہی کھا جاتے ہیں۔ ترقیاتی کام تو اب ایک بہانہ ہے مال بٹورنے کا۔ سڑک کے نام پر کچی مٹی ڈال کر بلز کلیئر کر لیتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو رواں ماہ مکمل ہونے والی تیس کلومیٹر طویل‘ اَسی کروڑ روپے سے بننے والی لیہ کروڑ روڈ کی جا کر حالت دیکھ لیں۔ ابھی افتتاح ہوئے بیس دن نہیں ہوئے اور سڑک ٹوٹنا شروع ہوگئی ہے۔ چند ماہ بعد یہ نئی سڑک شاید نظر بھی نہ آئے کیونکہ ابھی وہاں گنے کا سیزن شروع ہونے والا ہے اور اسی سڑک پر گنے کے ٹرک اور ٹرالیاں چلیں گی۔ جو سڑک عام ٹریفک کا بوجھ نہیں اٹھا پائی‘ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ ٹنوں کا وزن اٹھانے والی سینکڑوں ٹرالیوں کا بوجھ اٹھا پائے گی؟ جو سڑک اتنی منتوں ترلوں کے بعد بنی تھی‘ وہ ابھی سے ٹوٹنا شروع ہو گئی ہے۔

پسماندہ علاقوں کا استحصال ہمیشہ سے جاری رہا ہے اور مزے کی بات ہے کہ اس کی قیمت ان پسماندہ علاقوں سے زیادہ ترقی یافتہ علاقوں نے چکائی ہے۔ اب میرے جیسے دیہاتی اپنے اپنے گائوں میں رہنے کو تیار نہیں ہیں جہاں ان کے پاس آمدن کے ذرائع اور وسائل نہیں ہیں۔ انہیں اب سب کچھ بڑے شہروں میں نظر آرہا ہے۔ اگر تاریخ پڑھیں تو ہمیشہ بڑے خوشحال شہر پسماندہ لوگوں کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ پہاڑوں اور صحراؤں سے اٹھنے والے لوگوں نے شہر کے شہر برباد کیے۔ اگرچہ اُس وقت دوردراز علاقوں سے حملہ آور آتے تھے لیکن اب ریاستیں بننے کے بعد ملک کے اندر ہی ایسی ہجرت ہر وقت جاری رہتی ہے۔ پچھلے دو‘ تین برسوں میں آسلام آباد کی آبادی بھی اچانک بڑھ گئی ہے۔ یہاں بھی اب ٹریفک کا وہی حشر ہو چکا ہے جو پہلے لاہور اور کراچی میں نظر آتا تھا۔
بہرحال اس پورے رجیم چینج کے نام پر جو امریکہ سے آزادی لینے کی عمران خان نے تحریک شروع کی تھی‘ اس کا سارا فائدہ گجرات کے چودھریوں کو ہوا ہے۔ مونس الٰہی اور سالک حسین چودھری خاندان کے بڑے بن کر ابھرے ہیں۔ اب عمران خان یا زرداری اور شریف خاندان جو خود کو بڑے کھلاڑی سمجھتے تھے‘ انہیں اب یہ دو کزن اپنے ہاتھوں میں کھلاتے ہیں۔ عمران خان ہر وقت مونس الٰہی کو لیے بیٹھے ہیں تو زرداری صاحب نے چودھری شجاعت حسین کے بیٹے سالک کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ اس رجیم چینج کی مہربانی سے چودھری پرویز الٰہی کے لیے قسمت کا دروازہ کھلا اور اب انہوں نے ایک سو ارب سے زائد فنڈز اٹھا کر گجرات میں اپنے خاندان کے حلقوں اور قریبی علاقوں میں بھجوا دیے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان‘ تونسہ یا بھکر‘ جہاں سیلاب نے تبائی مچائی تھی‘ وہاں کے فنڈز اب گجرات میں خرچ ہوں گے۔ پہلے بزدار نے سب ریوڑیاں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو ٹھیکیدار بنا کر بانٹ دی تھیں‘ اب ریوڑیاں بانٹنے کی باری پرویز الٰہی صاحب کی ہے اور وہ‘ آپ کو پتا ہے کہ اس کھیل کے بہت پرانے کھلاڑی ہیں۔