وینٹی لیٹر سے وینٹی لیٹر تک!

14نومبر 2021،آج کے دن ، آج سے ایک سال پہلے ،جب صبح سورج طلوع ہو رہا تھا ،تب میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ آج جب یہ سورج غروب ہوگا تب میری بیگم ، میرے بچوں کی ماں، میری محبت، میری بہترین دوست ،میرے لئے ہر لمحے دعائیں مانگنے والی کے آخری سفر کا آغاز ہورہا ہوگا، میری سب سے پیاری شے کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہوگی ، میری زندگی کی سب سے قیمتی شے کا Beginning to the Endہورہا ہوگا، میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جسے میں نے ٹوٹ کر چاہا، جس نے مجھے ٹوٹ کر چاہا، جس نے میری خاطر 3سال اپنے گھر والوں سے باقاعدہ جنگ لڑی، جس نے میرے لئے ہر دُکھ سہا،ہرغم بھگتا، جو میرے لئے کرائے کے مکانوں میں رُلی ، جس نے میرےلئے نوکریاں کیں ،جس نے میرے لئےفاقے کاٹے ،جس نے میری ہر غلطی نظر انداز کی، جس نے مجھے کامیابی کا رستہ دکھایا، جس نے مجھے اُٹھنا ،بیٹھنا ،بولنا سکھایا، جوہر کٹھن لمحے میں میرے ساتھ کھڑی رہی ، جس نے ہر نازک لمحے میں میرا ہاتھ نہ چھوڑا، اس کی دنیا اور میری دنیا میں کچھ مشترک نہیں تھا سوائے محبت کے، وہ بہت امیرتھی اور میں بہت غریب ، وہ پلی بڑھی دبئی میں اور میں خالص پینڈو، اسے گھر سے ماہانہ جیب خرچ 10ہزار ملتا تھا ، میری تنخواہ ساڑھے تین ہزار، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور میں بارہویں پاس (بعد میں مجھے بی اے، ایم اے بھی اسی نے کروایا) جس کے پاس شادی سے پہلے اپنی کاراورمیں ویگنوں ،بسوں کا مسافر،جو میرا سب کچھ اور جس کے بنا میں کچھ نہ۔

میرے لئے اس نے کیا کچھ نہ کیا، ایک چھوٹی بلکہ بہت ہی چھوٹی سی مثال، ہماری شادی سے چندسال پہلے اُس کی بہن کی شادی ہوئی، 5تقریبات،90کی دہائی میں ڈیڑھ کروڑ لگا، ہماری شادی کا وقت آیا، چونکہ میرے پاس کچھ نہ تھا، اس نے اپنے جمع کردہ ایک لاکھ روپے مجھے دیے،پھر میرا بھرم رکھنے کیلئے اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ انتہائی سادگی سے شادی کرے گی ،صرف نکاح اور ولیمہ ہوگا ، پھر اس نے میر ے ساتھ بیٹھ کر اس ایک لاکھ کا بجٹ بنایا ،نکاح پر اتناخرچہ، ولیمے پر اتنا خرچہ، اتنے مہمان ، اس کے دیے ایک لاکھ میں ہمارا نکاح ،ولیمہ ہوا، جو زیور میں نے اسے پہنائے وہ بھی اسی نے مجھے دیے تھے ، جس کرائے کے مکان میں ہم شفٹ ہوئے ، اس کا چھ مہینے کا کرایہ بھی اسی نے دیا، گھر کا سارا فرنیچر بھی وہی لائی ، ہمیں جو سلامیاں ملیں ،ان پیسوں سے اس نے اگلے 6ماہ گھر کا خرچہ چلایا، وہ نازونعم میں پلی ہوئی تھی، شادی سے پہلے گھر میں اس کے کام کرنے کیلئے ملازم، شادی ہوئی تو برسوں تک اس نے خود کپڑے دھوئے ،جھاڑو پھیرے ،گھر کی صفائی کیا کرتی ،کھانا پکاتی،برتن دھوتی، یہ علیحدہ بات اِدھر وہ میری زندگی میں آئی،اُدھر میرے کیرئیر کو پر لگ گئے، میر اہر الٹا کام سیدھا ہوا، میری مٹی سونا بنی اور چند برسوں بعد وہ وقت بھی آیا جب اللّٰہ نے ہمیں وہ کچھ عطا کردیا جوہم نے سوچا بھی نہ تھا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی،بات ہور ہی آج کی ،14نومبر 2021کی، میں اُٹھا،میں نے دیکھا بیگم خلافِ معمول فجر کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کی بجائے لیٹی ہوئی ، میں اس کے ساتھ بیڈ پربیٹھا، اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا، اس کاہاتھ ٹھنڈا ، کچھ زیادہ ہی ٹھنڈا ، اس نے آنکھیں کھولیں ، مسکرانے کی ناکام کوشش کی، میں نے اس کا چہرہ دیکھا، مجھے اس کا چہرہ تھکا تھکا سا لگا، میں نے پوچھا، کیا بات ہے ، طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تمہاری ، بولی، ہاں پیٹ خراب اورالٹیاں ،رات بھر سوئی نہیں ، میں نے حیران ،پریشان ہوکرکہا، جب تمہاری طبیعت خراب تھی ،مجھے کیوں نہیں اُٹھایا، مجھے اُٹھا دیتی ،ہم اسپتال چلے جاتے، بولی ، تم بہت گہری نیند میں تھے، تھکے ہوئے لگ رہے تھے، میں نے بات کاٹ کر کہا، اچھا چھوڑو سب باتیں ،اُٹھو ،تیا ر ہوجاؤ ،ابھی اسپتال چلتے ہیں ، بولی ،نہیں میں نے دوائی لے لی ہے ، پہلے سے بہتر ہوں ،ابھی چائے رس کھاؤں گی،اگر طبیعت زیادہ خراب لگی تو پھر اسپتال چلیں گے، مجھے یاد، اگلے 3چار گھنٹے جب تک میں گھر رہا، ،میں وقفے وقفے سے اس کی طبیعت پوچھتا رہا اوراسے اسپتال جاکر چیک اَپ کروانے کا کہتا رہا، وہ ہربار ایک ہی جواب دیتی رہی ، فکرنہ کرو میں ٹھیک ہوں، اسپتال جاکر کیا کرنا ، چونکہ مجھے پتا تھا، وہ اسپتال جانے ، ٹیکہ یا ڈرپ لگوانے ، دوائیاں کھانے سے بہت گھبراتی تھی،لہٰذا میں نے اسے یہ بھی کہا، بس ایک بار ڈاکٹر سے چیک اَپ کروالو،چاہے دوائیاں نہ کھانا،ٹیکہ نہ لگوانا ، مگر وہ نہ مانی۔

مجھے اچھی طرح یاد دوپہر کو گھر سے نکلتے وقت جب میں نے اس کا ماتھا چوما تو مجھے اس کا ماتھا ہلکا ہلکا گرم محسوس ہوا، میں نے کہا ، بخار لگ رہا ہے ،بولی ،ہاں لیکن بخار کی دوائی کھا چکی ہوں،تم کتنے بجے تک گھر آؤ گے ،میں نے کہا، میں شام 4پانچ بجے تک آجاؤں گا لیکن طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو فون کر دینا، میں اسی وقت آجاؤںگا، کہنے لگی ، ٹھیک ہے ، میں گھر سے نکلا ،ایک ٹی وی ریکارڈنگ کرائی، ایک میٹنگ کی، دولوگوں سے ملا اور ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ جم جاؤں یا گھر، فون کی گھنٹی بجی ،گھر سے فون تھا، بیگم کی طبیعت بہت خراب ،وہ نیم بے ہوش ،بات کر رہی نہ کسی بات کا جواب دے رہی،جلدی گھر پہنچو، میں فوراً گھر پہنچا، نیم بے ہوش، بے چین ہو کر مسلسل پہلو بدلتی بیگم، میرے ہاتھ پاؤں پھُول گئے ،فوراً ایمبولینس منگوائی، اپنے گھر کے قریب اسلام آباد کے سب سے بڑے پرائیویٹ اسپتال پہنچے، ایمرجنسی وارڈ میں معائنہ شروع ہوا ، اب وہ سر ہلانے کے ساتھ ساتھ مسلسل بازو ،ٹانگیں ہوا میں چلا رہی تھی، تھوڑی ہی دیر میں سب سینئر ڈاکٹر پہنچ گئے، ڈاکٹروں کے ایک مختصر سے معائنے ، صلاح مشورہ کے بعد ایک ڈاکٹر میری طرف آیا، بولا، آپ کی اہلیہ کی آکسیجن low ،بی پی low ،شوگر low ، وہ شدید خطرے میں ، ہمارا خیال ہے انہیں وینٹی لیٹر پر ڈالنا چاہئے، ورنہ جان جا سکتی ہے ،وینٹی لیٹر پر،یہ سننا تھا کہ یکا یک میرے دل کی دھڑکن تیز ہوئی ، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا، مجھے کمزوری محسوس ہونے لگی، میری ٹانگیں جواب دینے لگیں، میں نے دیوار کا سہارا لے کر بے یقینی کے عالم میں ڈاکٹر سے کہا، ڈاکٹر وینٹی لیٹر …..وینٹی لیٹر کیوں ڈاکٹر۔(جاری ہے) ۔