خان صاحب کو داد دیں

وقت بھی کیا کیا ستم کرتا ہے۔ ایک سال پہلے تک عمران خان اس ملک کے وزیراعظم تھے۔ جنرل فیض تگڑے ڈی جی آئی ایس آئی کہ عمران خان نے انہیں برقرار رکھنے کے لیے اُس وقت کی فوجی قیادت سے ٹکر لے لی تھی جو آخرکار عمران خان کی وزیراعظم ہاؤس سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکلنے پر ختم ہوئی۔ فواد چودھری کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے فوج کے ساتھ معاملات خراب نہ ہوتے تو ہم اقتدار میں ہوتے۔ یہ وہی بات ہے جو کبھی پرویز مشرف نے کی تھی کہ اگر نواز شریف انہیں برطرف نہ کرتے تو وہ وزیراعظم رہتے۔ عمران خان دور کے ایک بزرگ وزیر داخلہ نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر نواز شریف کا فوج سے ایشو نہ ہوتا تو انہیں 2018 ء کے الیکشن میں ہرانا مشکل ہو جاتا۔ بینظیر بھٹو کو بھی 1990ء میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل سے ایشوز کی بنیاد پر گھر جانا پڑا تھا۔
یوں اگر اس بات کو سامنے رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سیاسی حکومتیں ہر دفعہ اپنے اپنے دور میں فوجی قیادت کے ساتھ کچھ ایسے معاملات میں الجھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے پانچ سال مکمل نہیں کر پاتیں۔ اگر یاد ہو تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی میمو گیٹ اور ایبٹ آباد آپریشن کے معاملے پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا سے سینگ پھنسا بیٹھے تھے جس کی سزا بھی انہوں نے بھگتی۔ اگرچہ اُس وقت دونوں بھائی نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر گیلانی اور زرداری کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے کیونکہ شہباز شریف کی خفیہ ملاقاتوں میں یہی طے پایا تھا۔
2017 ء میں بھی نواز شریف کا عدالت سے برطرف ہو کر جیل جانے کو ان کے ہمدرد اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ان کی چپقلش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں‘ جو ڈان لیکس سے شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ جنرل باجوہ نے ڈان لیکس کے معاملے کو اپنے تئیں سیٹل کر دیا تھا اور اس پر ان پر فوج کے اندر سے تنقید بھی ہوئی تھی لیکن بہت جلد نواز شریف اور جنرل باجوہ کے درمیان صورتحال بگڑ گئی اور نواز شریف بیٹی ساتھ اڈیالہ جیل جا بیٹھے۔ نواز شریف اور مریم نواز کھل کر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام لے کر ان پر یہ کہہ کر تنقید کرتے تھے کہ انہوں نے انہیں سزائیں دلوائی تھیں۔ عمران خان اُن دنوں جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم کا کھل کر دفاع کرتے تھے بلکہ جتنی تعریف انہوں نے باجوہ صاحب کی کر دی تھی شاید وہ سب سن کر جنرل باجوہ خود بھی شرما جاتے ہوں گے کہ یار! اب اتنا بھی کیا۔
لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اب عمران خان بھی وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں ان سے پہلے بھٹو‘ محمد خان جونیجو‘ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کھڑے تھے۔ ان وزرائے اعظم کے جنرل ضیا‘ جنرل اسلم بیگ‘ جنرل پرویز مشرف‘ جنرل کیانی‘ جنرل راحیل اور جنرل باجوہ تک سب سے سیریس ایشوز ہوئے جو اِن کی حکومتوں کی برطرفی پر ختم ہوئے۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو عمران خان کا سابق اور سرونگ اہم فوجی افسران سے میل ملاپ کا تجربہ اپوزیشن میں رہ کر سب سے زیادہ تھا۔ پاکستانی تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی سیاستدان ہوگا جو بائیس برس تک اپوزیشن میں رہا اور اس کی گرومنگ اور گروتھ پر کم از کم چار سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کام کیا ہو اور انہیں سپورٹ دی ہو۔ جنرل حمید گل‘ جنرل شجاع پاشا سے لے کر جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل فیض حمید تک‘ سب نے انہیں پاکستان کا بڑا لیڈر بنانے کے لیے کام کیا۔ اس بات کو کبھی چھپایا بھی نہیں گیا کہ یہ چاروں سابق ڈی جی آئی ایس آئی دل و جان سے چاہتے تھے کہ اس ملک میں زرداری اور شریف خاندان کی اقتدار اور سیاست پر جاری طویل اجارہ داری ختم کی جائے اور ایک تیسرا آپشن یا تیسری پارٹی کھڑی کی جائے جو ان کو چیلنج کرے اور ان کے مقابلے پر لیڈر شپ کا گیپ فِل کرے۔ یہی سوچ تھی جس کا فائدہ عمران خان کو ہوا اور اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ان سب افسران نے خان صاحب کی کھل کر حمایت کی۔اور تو اور موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے خود ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا ان کی پارٹی کے بندے توڑ کر عمران خان کے حوالے کررہے تھے جس کی شکایت انہوں نے آرمی چیف جنرل کیانی سے کی جس پر ان کی ملاقات جنرل پاشا سے کرائی گئی کہ وہ ان کی شکایتیں دور کریں۔ وہ‘ بقول چودھری پرویز الٰہی‘ ان کی شکایتیں کیا دور کرتے الٹا انہوں نے چودھری صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ عمران خان سے ملاقات کریں۔ اور پھر عمران خان کی قسمت اس وقت کھلی جب جنرل باجوہ نے جوانی کے دور کے پسندیدہ کرکٹر عمران خان کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور انہیں وزیراعظم کی کرسی تک لے گئے۔
اگر دیکھا جائے تو باجوہ صاحب سے بھی وہی غلطی ہوئی جو کبھی جنرل اسلم بیگ سے ہوئی تھی کہ انہوں نے سمجھا کہ نواز شریف کی طرح عمران خان ابھی ناسمجھ ہے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا جب نواز شریف نے بھی پہلے جنرل اسلم بیگ اور پھر غلام اسحاق خان کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا۔ عمران خان نے بھی وہی رُوٹ لیا اور جب جنرل باجوہ نے اپنی مرضی سے ڈی جی آئی ایس آئی تبدیل کیا تو وہ بھی ڈکٹیشن لینے کے لیے تیار نہ ہوئے اور یوں بات پہنچی مارچ میں تحریکِ عدم اعتماد تک۔سوال یہ ہے کہ ان سب وزرائے اعظم کی فوجی جرنیلوں سے لڑائیاں کیوں ہوتی ہیں؟ وہ انہی جرنیلوں کے کندھوں پر سوار ہوکر پہلے اقتدار تک پہنچتے ہیں اورجنرل بھی یہی سمجھ لیتے ہیں کہ ان سیاستدانوں کو کچھ علم نہیں‘ انہیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ وہ انہیں بچہ سمجھ کر اپنے تئیں بڑے کا رول ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اقتدار میں دو تین سال گزارنے کے بعد بچہ سمجھدار ہو چکا ہوتا ہے اور وہ مزید ڈکٹیشن لینے کو تیار نہیں ہوتا اور اسے گھر جانا پڑتا ہے۔
شہباز شریف شاید باجوہ صاحب کی حما یت کے بغیر وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ شہباز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ جس چیف نے انہیں وزیراعظم بننے میں مدد دی وہ ریٹائر ہوگئے ہیں لہٰذا وہ اب ایسے آرمی کے کمانڈر ساتھ حکومت نہیں کررہے ہوں گے جسے چھ سال میں پانچ وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا یا دوسرے لفظوں میں پانچ وزرائے اعظم نے ایک آرمی چیف کے ساتھ کام کیا۔ جنرل باجوہ کا یہ پاکستانی تاریخ میں ریکارڈ رہے گا کہ انہوں نے چھ سال میں پانچ وزرائے اعظم کا دور دیکھا‘ یعنی اوسطاً ایک وزیراعظم سوا سال ہی رہا‘ اس کی وجوہات کیا تھیں اسے تاریخ یا عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔
پاکستانی سیاستدان کمزور ہیں اس لیے یہ سب فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ عمران خان نے پہلے جنرل باجوہ سے توقع باندھ لی تھی جن پر وہ پچھلے چھ ماہ یہ الزام لگاتے رہے کہ انہوں نے ان کی حکومت سازش سے گرائی‘ کہ اب وہ نومبر میں چھ ماہ اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کرا کے نئے الیکشن کرائیں جس کو جیت کر وہ وزیراعظم بن جائیں۔ اب اس سے ملتی جلتی توقع عمران خان نے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی باندھ لی ہے کہ وہ نئے الیکشن کرانے کیلئے اس وزیراعظم شہباز شریف پر دبائو ڈالیں جس نے انہیں تازہ تازہ آرمی چیف لگایا ہے اور اس کی جگہ اس عمران خان کو وزیراعظم بنوائیں جس نے انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے اس لیے ہٹا دیا تھا کہ انہوں نے خان کو ان کی فیملی کے مشکوک معاملات پر احتیاط برتنے کا مشورہ دیا تھا۔ ہمارے پیارے خان صاحب کی یہ خواہش پوری ہو یا نہ ہو لیکن کم از کم ان کو اس بات کی داد تو دیں کہ انہوں نے جنرل عاصم منیر سے کیسی توقع باندھی ہے۔ کمال!