گلیشیر سے جڑا ہوا رومانس

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں آخر اپنی ماضی کی یادوں کو کہاں دفن کروں کہ وہ مجھے حال میں آ کر تنگ نہ کریں۔ اب بندہ کیا کیا بھولے؟ جب میں پہلی مرتبہ شوگران آیا تو نیچے کوائی کا جنگل ایسا سرسبز اور بھرپور تھا کہ خدا کی پناہ۔تب یہ صوبہ سرحد کہلاتا تھا اور اس کے جنگل ابھی ٹمبر مافیا سے کافی حد تک محفوظ تھے اور تب ٹمبر چور کے حوالے سے ایک شہرت یافتہ وزیر کے ہوٹلوں نے ان جنگلوں کی لکڑی ہضم کرنا شروع نہیں کی تھی۔ شوگران میں نہایت معمولی اورسستے سے دو تین ہوٹل ‘ ایک گورنر انیکسی‘ ایک اعلیٰ درجے کا ہوٹل اور ایک عدد گھر کے دو پورشن کرائے پر دستیاب تھے۔ اردگرد جنگلات ایسے گھنے کہ کبھی کبھار چیتے دکھائی دے جائیں۔ کاغان کا بھی یہی حال تھا چند دکانوں پر مشتمل بازار اور دو چار ہوٹل‘ سستے اور معمولی سے‘ ایسے کہ ہم جیسے ”فکرے‘‘بھی ایک آدھ دن کیلئے ادھر ٹھہر سکتے تھے۔
چوالیس سال قبل پہلی بار جب اس وادی میں آیا تو ناران میں دوچار نہایت ہی تھکے ہوئے ہوٹل تھے‘ ممکن ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ہم تب اچھا ہوٹل افورڈ ہی نہیں کر سکتے تھے اور ہماری یادداشت ہماری دسترس کے ہوٹلوں تک محدود تھی ۔لے دے کر دریا پر ایک پی ٹی ڈی سی کا اعلیٰ موٹل یاد ہے۔ یادش بخیرتب پی ٹی ڈی سی کے موٹلز نہایت ہی شاندار اور قرینے کے ہوا کرتے تھے۔ ناران والے پی ٹی ڈی سی کے موٹل میں کمرے بھی تھے اور ٹینٹ بھی میسر تھے۔ کمروں کا کرایہ زیادہ اور ٹینٹ کا کرایہ نسبتاً کم تھا۔ کیا زمانہ تھا ناران سے جھیل سیف الملوک جانے کیلئے صرف دو ذریعے تھے‘ ایک پیدل اور دوسرا خچر پر۔ علی الصبح پیدل ناران سے روانہ ہوئے اور دن ڈھلے تھکے ٹوٹے واپس پہنچے۔ ہم سے کہیں بعد میں خچروں پر روانہ ہونے والے ہم سے پہلے واپس ناران پہنچ چکے تھے۔ پیدل چلنے سے عاری اور خچروں پر بیٹھنے سے انکاری سیف الملوک جھیل دیکھنے کے شوقین حضرات کیلئے مزدور بھی دستیاب ہوتے تھے جو اِن عاری اور انکاری مسافروں کو اپنی کمر پر لاد کر سیف الملوک لے جاتے تھے۔ اس سارے سفر کے تقریباً درمیان میں ایک گلیشیر آتا تھا جوراستے کو کاٹتا ہوا نیچے چلا جاتا تھا۔ اس گلیشیر کوپیدل پار کرتے ہوئے میں پھسلا تو کئی بار مگر گرا صرف دوبار تھا۔
تب بابو سر ٹاپ کو عبور کرنا ایک مرحلہ ہوتا تھا۔ درمیان میں ایک جگہ تو ایسی بھی آتی تھی کہ اس پر سے جیپ گزارنے کیلئے محض دولکڑی کے شہتیر ہوتے تھے اور یہ شہتیر جیپ کے ٹائروں کا درمیانی فاصلہ ناپ کر رکھے جاتے تھے۔ میں نے یہ شہتیروں والاراستہ خود تو نہیں دیکھا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس جیپ کروانے کیلئے نہ جیب میں پیسے تھے اور نہ ہی ہم جیپ کر کے اس دو شہتیروں والے راستے سے گزرے۔ اب ناران سے بابو سر ٹاپ اور وہاں سے چلاس تک سڑک نہایت اچھی ہے۔ تیرہ ستمبر کی سہ پہر بابو سر ٹاپ پر پہنچے تو اچانک تیز ہوا کے ساتھ ساتھ برف گرنا شروع ہو گئی۔ پکوڑوں والے نے بتایا کہ یہ سیزن کی پہلی برف باری ہے‘ برف باری محض چند منٹ جاری رہی اور پھر بند ہو گئی۔
دوسری بار ناران 1994ء میں یعنی آج سے قریب اٹھائیس سال پہلے آنا ہوا تب بھی ناران کا بازار محض دو فرلانگ لمبا تھا اورگنتی کے چند ہوٹل تھے۔ بٹہ کنڈی کا بھی یہی حال تھا ۔ناران میں دریا کے کنارے کرسیاں اور میزیں لگی ہوتی تھیں اور اس پر چائے پکوڑے وغیرہ ملا کرتے تھے۔ بالکل سامنے پہاڑ کی ڈھلوان پر سرما کی برف موجود تھی اور سیف الملوک جھیل سے آنے والا نالا جس جگہ ناران بابوسر ٹاپ روڈ کے نیچے سے گزر کرکنہار کی طرف جاتا تھا وہاں جنگلات وغیرہ کے سرکاری دفاتر کے پیچھے چیڑ کے درختوں کا اتنا گھنا اور خوبصورت جنگل تھا کہ دل کرتا تھا یہاں خیمہ لگا لیا جائے اوربقیہ عمر ادھر جنگل میں ہی گزار دی جائے۔پھر ادھر بائی پاس نکل آیا‘ ہوٹلوں کا جنگل درختوں کے جنگل کو کھا گیا۔
تب سیف الملوک روڈ پر ایک دو ہوٹل ہوتے تھے‘ اب تین عدد ہوٹل تو صرف اپنی وہاڑی والی سیاستدان اورسابقہ ایم این اے تہمینہ دولتانہ کے ہیں۔ ہوٹلوں والوں نے یہ راستہ تو پکا کروا لیا ہے لیکن ہوٹل ختم ہوتے ہی پختہ راستہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور آگے کا سارا راستہ مصطفی زیدی کے اس شعر کی عملی تفسیرہے ؎
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اس راستے پر بری طرح اچھلتی ہوئی جیپ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اسد نے پوچھا کہ یہ ساری سڑک جو صرف بارہ کلو میٹر لمبی ہے اور پاکستان کی خوبصورت ترین جھیل سیف الملوک تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے بنا کیوں نہیں دی جاتی ؟ میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے ڈرائیور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :یہ ساجد خان اور اس کے بھائی بند ڈرائیور یہ سڑک نہیں بننے دیتے۔اگر یہ سڑک بن گئی تو ان جیپ والوں کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ ساجد خان زور سے ہنسا اور کہنے لگا: صاحب آپ کہتے ٹھیک ہو‘ یہ راستہ جیپوں والے نہیں بننے دیتے۔ ادھر بڑے لوگوں نے اپنی دس دس جیپیں کرائے پر ڈالی ہوئی ہیں۔ ناران میں کم از کم بھی ڈیڑھ دو سوجیپ والوں کا روز گار اس راستے سے وابستہ ہے۔
1994ء میں جب میں ناران آیا تو سیف الملوک جھیل کے راستے میں موجود پرانے گلیشیر کا سڑک والا حصہ تقریباً تقریباً کٹ چکا تھاور چند بیلچے والے اس کی برف کو ادھر ادھر کر کے آتے جاتے سیاحوں سے راستہ کھولے رکھنے کا انعام طلب کررہے تھے۔ گلیشیر کے نیچے سے پگھلی ہوئی برف کا پانی گزررہا تھا اور نیچے سے آنے والی ہوا یخ بستہ تھی۔ تین سال پہلے اسی راستے سے گزرے تو عشروں پہلے والا گلیشیر اپنی پوری طاقت کے ساتھ جما ہوا تھا۔ بس فرق صرف اتنا پڑا تھا کہ اب وہاں بوتلوں والوں نے ڈیرے لگا لئے تھے۔ گزشتہ سال شاران سے واپس نیچے اترے تو پھر ادھر کا چکر لگایا۔ پرانے گلیشیر نے میرے منہ پر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ اس گلیشیرسے میری دوستی کو کم و بیش پینتالیس سال ہو چکے تھے۔ نجانے مجھے کیوں لگا کہ اب یہ گلیشیر مجھے پہچانتا ہے اور مجھے دیکھ کر خوش ہوتاہے۔ میں اب انتظارمیں تھا کہ اپنے قدیمی دوست کو دیکھوں گا‘ ارادہ تھا کہ اس بار اسے چھو کر محسوس کروں گا لیکن جہاں گلیشیر کوہونا چاہیے تھا وہاں مٹی اورپتھروں کا اوپرتک جاتا ہوا ایک تختہ تھا اور پہاڑ کی ایک پوری سائیڈ مٹی کی دیوارکی صورت میں میرا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے حیرانی سے ساجد خان سے پوچھا کہ گلیشیر کہاں چلا گیا؟ وہ کہنے لگا: صاحب پچھلے ماہ لگا تار آٹھ دس دن شدید بارش ہوئی اور سارا گلیشیر اس بارش میں بہہ گیا‘ آپ فکر نہ کریں دسمبر میں برف پڑے گی تو پھر یہ گلیشیر بن جائے گا۔
میں شدید صدمے کی حالت میں تھا ‘میں نے اسے کہا کہ گلیشیر دسمبر کی برف باری سے نہیں بنتے۔ دسمبر میں یہاں صرف برف پڑے گی اوراپریل مئی میں پگھل جائے گی۔ اب اس جگہ کبھی گلیشیر نہیں بنے گا یہ گلیشیر اس طرح دسمبر اور جنوری کی برف باری سے نہیں بنتے۔ میرا افسوس اور ملال دیکھ کر وہ میری طرف جھکا اور راز دارانہ لہجے میں پوچھنے لگا: صاحب! اس گلیشیر سے آپ کی جوانی کی کوئی یاد وابستہ ہے؟ میں نے کہا :تم نے ٹھیک کہا یہ گلیشیر میری جوانی سے نہیں بلکہ اوائل ِجوانی سے میرا محبوب تھا۔ جوانی تو نہیں رہی مگر محبوب تو موجود تھا‘ اب وہ بھی نہیں رہا۔ ساجد نے حیرانی سے مجھے ایسے دیکھا جیسے شاید میں پاگل ہو گیا ہوں۔