کیسے کیسے لوگ (2)

عبد المجید سالک لکھتے ہیں:

1927ءکا ذکرہے ایک دن ایک بالابلند، گندمی رنگ، کالی اور گھنی مونچھوں والا، آدمی سوٹ پہنے ہوئے دفتر ’’انقلاب‘‘ میں مجھ سے ملنے آیا اور کہنے لگا میں چراغ حسن حسرت ہوں۔میں اچھل کر یوں بغل گیر ہوا گویا ہم بچپن سے ساتھ اور دوست تھے۔ پوچھا ’’آپ یہاں کہاں؟‘‘ کہنے لگے میں تو کلکتہ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا لیکن مولانا ظفر علی خان نے مولانا ابوالکلام آزاد سے کہلوایا کہ ’’زمیندار‘‘ میں چلے جائو۔مولانا کا حکم میرے لئے واجب التعمیل تھا لہٰذاچلا آیا ہوں اور چند روز سے ’’زمیندار‘‘ میں کام کر رہا ہوں۔ دوران گفتگو حسرت نے کہا ’’سالک صاحب! تعجب ہے ’’زمیندار‘‘ والوں سے آپ کی ان بن کیوں ہوگئی۔ مولوی صاحب اور اختر دونوں ہی پرتپاک اور محبت پرور ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’اس میں کوئی شک نہیں اور اسی وجہ سے میںنے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں سات سال گزار دیئے لیکن وہ پرانی کیفیت نہیں رہی۔ آپ بھی بہت زیادہ خیری کا اظہار نہ کیجئے‘‘۔ ابھی حسرت صاحب نے ایک آدھ مہینہ ہی ’’زمیندار‘‘ میں کام کیا تھا کہ تپ محرقہ نے آن گھیرا۔ پردیس کا معاملہ، کسمپرسی کے عالم میں پڑے رہتے۔ نہ کوئی خبر لیوا، نہ پانی دیوا اور اس پر طرہ یہ کہ ’’زمیندار‘‘ سے واجبات بھی وصول نہ ہوئے۔ پھر دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں نہیں گئے۔ میرے ساتھ حسرت کے تعلقات ہمیشہ گہرے دوستانہ و برادرانہ رہے۔ ہم مذاقی کی وجہ سے کبھی اختلاف کی نوبت نہ آئی۔ اس دوران حسرت ’’عرب ہوٹل‘‘ (متصل اسلامیہ کالج) کی بالائی منزل میں رہتے تھے اور ہوٹل میں ان کی مجلس جمتی تھی جہاں بعض احباب اور اسلامیہ کالج کے طلبہ ان کے گرد جمع رہتے اور ان کی ادبیت اور لطیفہ بازی سے محظوظ ہوتے۔ شادی ہو جانے کے بعد انہوں نے علیحدہ مکان لے لیا لیکن پھر بھی کبھی کبھی عرب ہوٹل آیا جایا کرتے تھے۔

اور اب یہ ’’سچی کہانی‘‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر جیسے شاعر، ادیب، دانشور اور سلمان تاثیر کے والد بارے، سالک صاحب کی زبانی ۔

’’تاثیر انگلستان سے واپس آئے تو ڈاکٹریٹ کے علاوہ ایک خاتون بھی ساتھ لے آئے جن سے ازدواج طے ہو چکا تھا ۔ میاں نظام الدین مرحوم پرانے وضعدار بزرگ تھے۔ اس معاملہ میں جز بز تو ہوئے لیکن علامہ اقبال کے سمجھانے سے رضا مند ہوگئے اور ڈاکٹرتاثیر کا نکاح کرسٹابل کے ساتھ علامہ اقبال نے خود پڑھایا۔ ڈاکٹر تاثیر ایم اے او کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ وہیں فیض احمد فیض لیکچرر ہوئے۔ امرتسر ہی میں فیض اور ایلس کی شادی ہوئی۔ تاثیر اور فیض ایک دوسرے کے ہم زلف بن گئے۔ تاثیر بے حد روشن طبع اور عالی دماغ آدمی تھے۔ ان کی ذہانت اور طباعی بے مثال تھی۔ شاعروں میں شاعر، فلسفیوں میں فلسفی، ادیبوں میں ادیب، نقادوں میں نقاد، معلموں میں معلم اور صرف یہی نہیںبلکہ رندوں میں رند لم یزل، مجلس یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور لڑائی میں فولاد کی طرح سخت۔ وہ اخباری لڑائی تو بہت سے دوستوں کو یاد ہوگی جو ان کے اور چراغ حسن حسرت کے درمیان ہوئی۔ صرف یہی نہیں کہ تاثیر صاحب کمیونزم اور اس کے متعلقات سے کاملاً برگشتہ ہو چکے تھے بلکہ ان کی مخالفت میں سرگرم تھے۔ مولانا چراغ حسن کمیونسٹ نہ تھے لیکن ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے لامحالہ میاں افتخار الدین کی رعایت پر مجبور تھے۔ اگرچہ تاثیر اور حسرت کی دوستی پرانی اور گہری تھی اور ہم مشنری کی وجہ سے ان میں اور بھی چار چاند لگ گئے تھے لیکن تاثیر کو تو لڑنا تھا خواہ مقابل کوئی دوست ہی آ جائے چنانچہ انہوں نے اپنے نام سے بھی اور بعض فرضی ناموں سے بھی نظمیں لکھنی شروع کیں جن میں ’’کمیونسٹ اخبار‘‘، حسرت اور افتخار الدین پر بے پناہ چوٹیں ہوتی تھیں۔ ادھر حسرت بھی پرانے پھکیت تھے۔ انہوں نے مقابلے پر دھڑا دھڑ نظمیں جھاڑنی شروع کیں۔ یہاں تک کہ معمولی سی چھیڑ چھاڑ دو تین ہفتوں کے اندر ہی ’’گھمسان کارن‘‘ بن گئی۔ تاثیر کی نظمیں زیادہ تر ’’مغربی پاکستان‘‘ اور حسرت کی ’’امروز‘‘ میں چھپتی تھیں۔ لاہور کے ’’تماش بین اخبار بین‘‘ دونوں کو پڑھتے اور لطف اٹھاتے تھے۔ جب یہ ’’مناظمہ‘‘ لطیف چوٹوں سے بڑھ کر ذاتی حملوں اور متبذل اشارات تک پہنچ گیا تو ایک دن آغا شورش کاشمیری نے مجھ سے کہا ’’اس ناگوار جنگ سے اہل ذوق بیزار ہو رہے ہیں۔ تاثیر اور حسرت دونوں آپ کے دوست ہیں، ان کو منع کیجئے‘‘۔اس وقت تک حسرت نے نظموں کے علاوہ ’’حرف و حکایت‘‘ میںبھی تاثیر کے خلاف لکھنا شروع کردیا تھا بلکہ انجمن حمایت اسلام سے ان کو اسلامیہ کالج کی پرنسپلی سے موقوف کرانے کی اپیل بھی کردی تھی۔میں نے حسرت سے کہا ’’ آپ تو بہت بااصول اور متین صحافت کے دعویدار ہیں۔ آخر یہ ’’امروز‘‘ میں کیا ہو رہا ہے؟، کیا یہی سنجیدہ صحافت ہے؟‘‘۔(جار ی ہے)