مہنگائی، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سیاست دان

ایک ٹی وی چینل میں بطور رپورٹر کام کرنے والا دوست میرے پاس آیاا ور کہا یار کچھ کرو، آج مجھے ’’غربت‘‘ بہت لگی ہوئی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے چنانچہ میں نے کہا یار تم کیمرہ پکڑ کر گلی گلی، محلے محلے کا چکر لگاتے ہو اور لوگوں سے ان کے مسائل پوچھتے ہو، ظاہرہے اس کھجل خواری کے تمہیں لاکھ ڈیڑھ لاکھ تو ملتے ہی ہوں گے، جس سے تمہیں غربت محسوس نہیں ہوتی ہوگی۔ یہ سن کر وہ دل کھول کر ہنسا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا، میں نے بڑی مشکل سے اس کی ہنسی پر بند باندھا کہ شاید کم تنخواہ بتانے کی وجہ سے میری بے عقلی پر اس کی ہنسی نہیں رک رہی، مگر معلوم ہوا کہ اسے صرف تیس ہزار روپے ماہوار ملتے ہیں اور ’’موو اوور‘‘ کے طور پر اس نے مجھے بتایا کہ اسے گزشتہ تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ میں نے کہا تم بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ منگواتا ہوں، چنانچہ فوری طور پر اس کے لئے شربت تخم ملنگا منگوایاکہ اس سے اندر کی گرمی ذرا کم ہو جاتی ہے مگر کچھ دیر بعد مجھے غٹرغوں غٹرغوں کی آوازیں سنائی دیں، میں نے کہا یار تم سنجیدہ آدمی ہو، یہ کیسی آوازیں نکال رہے ہو۔ بولا میں نہیں غٹرغوں کی یہ آوازیں تخم ملنگا کی ہیں وہ خوشی سے قہقہے لگا رہی ہے کہ شکر ہے پیٹ میں کچھ تو گیا۔

اور آپ نے بڑے بڑے مالز میں سیل گرلزاور سیل بوائے دیکھے ہوں گے ، خوبصورت وردی میں ملبوس، انتہائی غریب گھرانوں کے افراد، ان کے سامنے لوگ لاکھوں روپے کی خریداری کرتے ہیں اور یہ مالز اربوں رو پے ماہوار کماتے ہیں، مگر ان کی تنخواہیںبھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں۔ بازاروں میں جو مہنگائی ہے ان پیسوں میں اللہ جانے وہ کیا کھاتے ہوں گے، دال روٹی اور سبزیاں کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ میں اپنے ملازم کو پانچ سو روپیہ دیتا ہوں کہ ٹماٹر، پیاز اور کھیرے لے آئو، واپسی پر میں پوچھتا ہوں کہ کتنے پیسے بچے، وہ بتایا ہے کہ کم پڑ گئے تھے، ایک سو میں نے اپنی جیب سے ڈالے ہیں۔ ان دنوں یہ کلاس چاول کا ذائقہ بھول گئی ہے،روٹی بھی پوری نہیں کھاتی، بس آسمان کی طرف دیکھتی رہتی ہے، آسمان سے من و سلویٰ بھلے وقتوں میں آتا تھا۔ میں نےایک دفعہ ایک کالم لکھا تھاجس میں ایک شخص بیس افراد کی خوراک اکیلا کھا جاتا ہے۔ یہ لطیفہ نما واقعہ جو سنتا تھا وہ ہنسنے لگتا تھا، میں نے راہ چلتے ایک پریشان حال شخص کو یہ لطیفہ سنایا تو اس کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔ میں نے اس سے پوچھا تم ہنسے کیوں نہیں؟اس نے کہا تم سامنے والے تنور سے مجھے صرف دو روٹیاں لے دو اس کے بعد جتنی دیر کہو گے ہنستا رہوں گا۔ ایک علامہ صاحب نے یہ لطیفہ سنا تو بولے ماشا اللہ بہت جی دار جوان ہے، میں نے بھوک میں اضافہ کے لئے ایک چورن اپنے لئے تیار کیا تھا، یہ ایک ڈبیہ میر ی طرف سے اسےہدیہ تبرک کے طور پر پیش کرنا۔اس کا آخری حصہ یہ ہے کہ اینٹی کرپشن کے ایک افسر نے جب یہ واقعہ سنا تو اس نے حساب لگایا کہ یہ شخص ایک مہینے میں ایک لاکھ سے تو صرف کھانا کھاتا ہوگا، اس کے وسائل کا حساب کیا ہوگا۔پھر وہ مجھے ایک کونے میں لے گیا اور کہا اس طرح کا کوئی اور کیس بھی تمہاری نظر میں ہو تو مجھے بتانا،اس سے ملنے والے پیسے آدھے آدھے کر لیں گے۔

اب اس سارے منظر نامے میں میرے لئے اہم بات یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی مجبور ی کے تحت اشیاء کی قیمتیں جتنی چاہے بڑھا لے اور ان کے دام فکس کرکےدکانوں پر لٹکا دے مگر نگران محکمے کبھی ان قیمتوں پر غریب عوام کو اشیاء فراہم نہیں ہونے دیں گے، اس طرح ارب پتی کھرب پتی سرمایہ دار نہ ٹیکس دیں گے، نہ حکومت کا کوئی حکم مانیں گے اور الٹا سبسڈی کے نام پر کروڑوں روپے بھی حکومت سے وصول کرتے رہیںگے۔

اور آخر میں اس صورت حال کا نقطۂ عروج۔ تاش کھیلتے ہوئے کسی جواریئے کو خبر ملی کہ اس کی ماں مر گئی ہے۔ اس نے پیغام دیا کہ قبرتیار کروائیں میں بازی ختم کرکے پہنچ رہا ہوں۔ پھر خبر آئی کہ قبر تیار ہوگئی ۔ اس نے پھر پیغام دیا غسل اور کفن کا انتظام کریں میں پہنچتاہوں۔ خبر آئی کہ وہ بھی ہوگیا ہے، کہنے لگا جنازہ اٹھائیں میں پہنچنے لگا ہوں پھر خبر ملی کہ جنازہ روانہ ہوگیا ہے۔ کہنے لگا مولوی کو کہیں شروع کرے میں بس آیا پہنچا ، آخر خبر آئی کہ جنازہ ہوگیا ہے اور تدفین کردی گئی ہے ۔ بولا چلیں اللہ مغفرت فرمائے، چلو بھئی نئی بازی شروع کرو احباب۔

پاکستان وہ مرنے والی ماں ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سیاستدان سب اس ماں کی جواری اولاد ہیں جن کے سامنے ماں مر رہی ہے اور یہ سب بازیاں کھیل رہے ہیں۔