شہزاد اکبر کے بھائی کی عدم بازیابی پر اسلام آباد ہائی کورٹ برہم

سابق مشیرِ داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے بھائی کی عدم بازیابی پر اسلام آباد ہائی کورٹ برہم ہو گئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی جس کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر بندہ نہ آیا تو اگلی تاریخ پر وزیرِ داخلہ کو بلاؤں گا، اگر پھر بھی عمل درآمد نہ ہوا تو وزیرِ اعظم کو طلب کیا جائے گا۔

عدالت نے ڈی جی رینجرز اور سیکریٹری داخلہ کو پیر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ لوگ پولیس اور رینجرز کی وردیوں میں بندے اٹھا رہے ہیں، کسی کو پرواہ ہی نہیں، ڈی جی رینجرز کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کی وردی اگر استعمال ہوئی ہے، میں ان سے پوچھوں گا کہ اسلام آباد میں آپ اپنی وردی کیوں نہیں سنبھال سکتے؟ اپنے اپنے ادارے کی وردی آپ نے خود بچانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی جی رینجرز اور آئی جی معاملے کو دیکھیں اور مقدمہ درج کرائیں، آرڈر کا مقصد آئندہ کے لیے اصل وردی والوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

واضح رہے کہ شہزاد اکبر نےایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ 25 سے 30 پولیس اہلکاروں نے اْن کے گھر پر چھاپہ مارا تھا جو ان کے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور ان کے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے گئے۔

اسلام آباد میں شالیمار تھانے کی پولیس نے شہزاد اکبر کے مغوی بھائی مرزا مراد اکبر کے بیٹے کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مرزا مراد اکبر کو 28 مئی کو ان کے گھر سے پولیس، رینجرز اور اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کی وردی پہنے افراد نے اغواء کیا۔

مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ پولیس آفیشل اور سول کپڑوں میں ملبوس افراد ملازمین کو ہراساں کرتے رہے۔