اسے روکنا ہوگا

سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری مئی کی 9 تاریخ کو عمل میں آئی اور 12مئی کو انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کر دیا گیا۔ اس سے پیشترسپریم کورٹ اُن کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر اُن کا معاملہ ہائی کورٹ کے سپرد کر چکی تھی۔ یہاں سے انہیں نیب کے مقدمے سے بھی رہائی نصیب ہوئی اور متعدد دوسرے مقدمات میں بھی عبوری ضمانت دے دی گئی‘وہ اب متعلقہ عدالتوں میں آزادانہ پیش ہو کر اپنا مقدمہ لڑ سکتے ہیں۔ عمران خان کو جس طرح گرفتار کیا گیا اور جس طرح عدالتوں سے ریلیف ملا‘ اُس پر آتشیں بحث جاری ہے‘ حکومتی متعلقین اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں‘ کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں سے جو کچھ عمران خان کو ملا ہے‘ اس سے پہلے کبھی کسی کو نہیں ملا۔ حکومت میں شامل کئی جماعتی اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تو اپنے سرکردہ ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر سوموار کو سپریم کورٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملک بھر سے یہاں پہنچیں اور عمران خان کو ملنے والے ریلیف پر اپنے غم و غصے کا اظہار کریں۔ یہ ریلیف جتنا بھی غیرمعمولی ہو مولانا فضل الرحمن اور اُن کے اتحادیوں کا یہ اعلان البتہ اس سے بہت بڑھ کر غیر معمولی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اس طرح کا کوئی واقعہ‘سانحہ پیش نہیں آیا کہ سیاسی جماعتوں کے کسی اکٹھ نے اعلیٰ ترین عدالت کے خلاف ”دھرنا احتجاج‘‘ کا اعلان کیا ہو‘ ستم بالائے ستم کہ یہ سب جماعتیں شریکِ اقتدار بھی ہوں۔
پاکستان کی عدالتوں سے مختلف اوقات میں مختلف سیاسی رہنمائوں کو ریلیف ملتا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں جب انتظامیہ اپنے مخالفین پر عرصہ ٔ حیات تنگ کرنے پر تُل جاتی تھی تو انہیں کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا جاتا تھا۔ یہ حکم ان مقدمات پر بھی لاگو تھا جو آئندہ درج کئے جانا ہوتے تھے۔ پیپلزپارٹی کو اپنے بعض باغی ارکان کو سبق سکھانے کیلئے انہیں لاہور ہائیکورٹ کی جیورسڈکشن سے باہر لے جا کر (آزادکشمیر میں) قید رکھنا پڑا‘ جنہیں (غالباً) حکومت کے خاتمے کے بعد ہی رہائی نصیب ہو سکی۔ عمران خان پر جو ایک سو سے زائد مقدمات مختلف مقاما ت پر قائم کیے گئے‘ اُن میں سے اکثر بے سروپا ہیں‘ اس بات نے اُن پر عائد کیے جانے والے سنگین الزامات کا تاثر بھی کم کر دیا ہے۔ القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ کے حوالے سے جو کارروائی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اُسے یکسر بلاجواز نہیں کہا جا سکتا۔ ان الزامات کا جو بھی وزن ہو لیکن الزامات کی بڑی تعداد ایسی ہے جسے بہ آسانی سیاسی قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومت اور عدلیہ کے درمیان پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے جو تنازع چل رہا ہے‘ اُس نے ماحول کو بوجھل کر رکھا تھاکہ اب نئی افتاد آن پڑی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو ردعمل دیکھنے میں آیا اسے کسی طور سراہا نہیں جا سکتا‘اُن کے پرجوش حامیوں نے لاہور کے کورکمانڈر ہائوس سے لے کر پشاور کے ریڈیوپاکستان تک کی عمارت کوجس طرح تاراج کیا‘ اُس نے ملک بھر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ہر زبان پر ہے لیکن عمران خان یا اُن کی جماعت کے تمام رہنمائوں پر اس حوالے سے فردِ جرم عائد کرنا آسان نہیں ہوگا۔ خان صاحب پر گرفتاری کے بعد کے واقعات کی ذمہ داری سیاسی بیانات کا پسندیدہ موضوع تو ہو سکتا ہے ‘اس پر شور و غوغا بھی مچایا جا سکتا ہے لیکن قانونی طور پر اس کیلئے ٹھوس شواہد درکار ہوں گے۔ بہرحال جو ہو چکا ‘ وہ ہو چکا‘ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مزید بگاڑ سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
پاکستانی سیاست گزشتہ چند سالوں سے جس تقسیم اور محاذ آرائی کا شکار ہے‘ عمران خان کی گرفتاری اور اُس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے اس کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ معاملات کو سنبھالنے کی جتنی ذمہ داری حکومت کی ہے‘ اُس سے کہیں بڑھ کر عمران خان کی ہے۔ ایک مقبول سیاسی رہنما کے طور پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے حریفوں کے ساتھ معاملہ سازی کریں تاکہ دستور کے مطابق امورِ مملکت کو آگے بڑھایا جا سکے۔ تحریک انصاف میں شامل تجربہ کار سیاستدانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنا وزن امن اور سکون کے پلڑے میں ڈالیں۔عدالتوں سے عمران خان کو جو ریلیف ملا ہے۔ اُس کے بارے میں جو بھی کہا جائے یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس سے دستور شکن عناصر کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ قانون کی طاقت کا احساس عام ہوا ہے اور پاکستانی قوم کو یہ اعتماد اور حوصلہ ملا ہے کہ اس کے معاملات قانون کے مطابق چلائے جا سکتے ہیں اور عدالتیں اس حوالے سے کردار ادا کر سکتی ہیں۔
تشدد اور لاقانونیت کا راستہ اختیار کرنے والے جتنے بھی منہ زور ہوتے ہیں‘ ریاست کے سامنے بے وقعت ہو جاتے ہیںاُن پر کاری ضرب لگائی جا سکتی اور انہیں نشانِ عبرت بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی ریاست اس حوالے سے اپنی صلاحیت کو آزما اور دکھا چکی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو بھی اب اپنا تحکم بھرپور انداز میں جمہوری راستے کو ہموار کرنے پر لگانا چاہئے۔ حکومتی زعماغور کریں کہ جو نقصان ہوا ہے‘ اُس کا ازالہ کیونکر ممکن ہے۔ ایک پائوں اگر زخمی ہو جائے تو دوسرے پائوں کو زخمی کرنے سے اُس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے والی ہے‘ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی اُس کیساتھ ہی تحلیل ہو جائیں گی۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کا انعقاد بھی ہونا ہے۔ ایسے میں ہر سیاسی جماعت کا مفاد اِسی میں ہے کہ وہ حالات کو معمول پر لائے‘ پاکستان کے سب اداروں پر بھی لازم ہے کہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ بے لگام عناصر جو بھی ہوں انہیں زیرکرنا پڑتا ہے‘ اُن کے سامنے ہاتھ پائوں چھوڑ دینا شیوۂ مردانگی نہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے دھرنے کا جو اعلان کیا گیا ہے‘ اسے واپس لینے ہی میں عافیت ہے۔ بصورت دیگر کوئی حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی بھاری تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘ عمران خان کی رہائی کے بعد اُن کی حراست کا کوئی جواز نہیں‘ جن رہنمائوں کو تحفظِ امنِ عامہ آرڈیننس کے تحت گرفتار کیا گیا ہے‘ فوری طور پر اُن کی رہائی عمل میں لائی جائے کہ امنِ عامہ کو لاحق خطرات کا جواز باقی نہیں رہا۔ بات چیت کا دروازہ کھولا جائے اور آئندہ انتخابات کی تاریخ طے کرنے کیلئے سب سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔ ہمارے دفاعی ادارے توانائی فراہم کریں تو جو ہونے والا ہے‘ اسے روکا جا سکتا ہے۔ جس جس کا بھی ہاتھ دوسرے کے گریبان تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہے اسے روکنا ہوگا۔ بہرحال‘ بہرطور اور بہر قیمت۔