جیل بھرو تحریک 2023ء بمقابلہ 1977ء

جیل سے رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی کا پل رانگُو پر استقبال بقول شوکت گجر فقید المثال نہ بھی سہی تو کم ازکم بہت بھرپور ضرور تھا۔ یہ خبر سنانے کے بعد اس کے دل کے اندر چھپا ہوا بغض باہر آ گیا اور وہ کہنے لگا: ان کا اس قسم کا استقبال بنتا بھی تھا۔ 1848ء سے لیکر آج سات مارچ 2023ء تک مخدوم شیخ شاہ محمود (اول) سے شاہ محمود قریشی (حالیہ) تک پانچ نسلوں کی مسلسل ایک سو پچھتر سالہ سیاست اور اقتدار کی راہداریوں کے مزے لینے کے اس طویل عرصے میں اس خاندان کی غالباً یہ پہلی گرفتاری تھی۔ جیل واپسی پر ان کا اس سے بھی بہتر استقبال کاحق بنتا تھا۔
22فروری کوتحریک انصاف کی ”جیل بھرو تحریک‘‘ کے پہلے روز جب میں شوکت گجر کے پاس گیا تو اتفاقاً اس کے پاس دو عدد متاثرہ سابق ایم پی اے حضرات براجمان تھے۔ ان میں سے ایک ایم پی اے جو 2018 ء کے الیکشن میں آزاد منتخب ہوا تھا ہمارا پرانا یارِغار ہے ‘ہمارے اس دوست نے ساڑھے تین سال آزاد ہونے کا تمغہ اپنے سینے پر بھی سجائے رکھا اور حکومتی فوائد سے دل کھول کر استفادہ بھی کیا۔ ان فوائد سے مراد خدانخواستہ کمیشن وغیرہ نہیں ہے کیونکہ یہ ایم پی اے ملتان کے ان تین اراکین صوبائی اسمبلی میں سے ایک ہے جن کے دامن پر کرپشن اور کمیشن کا داغ نہیں ہے۔ تاہم اپنے حلقے کیلئے ترقیاتی فنڈز سے لے کر سرکاری دفاتر میں پروٹوکول تک سب کچھ انجوائے کیا‘ مگر جب حمزہ شہباز کیلئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا بندوبست کیا جا رہا تھا تو ہمارے اس دوست نے ہمارے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود اپنا وزن حمزہ شہباز کے پلڑے میں ڈال دیا اور اس کے عوض ایک دن کی وزارت کا بوجھ بھی اٹھایا۔ یہ اور بات ہے کہ یہ بوجھ بھی صرف خبر کی حد تک رہا۔ بعد ازاں اس کی وزارت کا نوٹیفکیشن ہی معطل ہو گیا۔
بات کہیں اور چلی گئی۔ اس روز شوکت کے کمرے میں یہ آزاد فارغ شدہ ایم پی اے بھی موجود تھا اور ایک پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والا ایم پی اے بھی موجود تھا۔ پی ٹی آئی کا یہ فارغ شدہ رکن صوبائی اسمبلی میرے سامنے بڑا محتاط رہتا ہے اور حتی الامکان حد تک اپنی دل کی بات زبان پر لانے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم اس وقت ان وجوہات کے ذکر کا موقع محل نہیں ہے۔ میں نے از راہِ تفنن اس سے پوچھا کہ کیا وہ بھی اس جیل بھرو تحریک میں گرفتاری دے رہا ہے؟ اس نے نہایت میسنی سی شکل بنا کر کہا کہ میری گرفتاری دینے کی تاریخ تین دن بعد ہے۔ میں ہفتے والے روز گرفتاری دوں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کرب کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے بھی ترس آ گیا۔ میں نے اس کی شکل دیکھی اور پھر کہا کہ میں آپ کو ایک پرانا واقعہ سناتا ہوں۔ یہ آج سے چھیالیس سال پرانا واقعہ ہے مگر آج کے تناظر میں جب آپ لوگ جیل بھرو تحریک چلا رہے ہیں مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا ہے۔
یہ1977ء کی تحریک نظام مصطفی کے عین عروج کا زمانہ تھا۔ بھٹو حکومت نے امن و امان کی خراب صورت حال کنٹرول کرنے کی غرض سے ملک کے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر رکھا تھا۔ ملتان بھی ان کرفیو زدہ شہروں میں شامل تھا۔ ملتان میں کرفیو کے دوران سہ پہر کو دو گھنٹے کا وقفہ ہوتا تھا۔ عصر کی نماز اس وقفے کے دوران آتی تھی۔ اس وقفے کے دوران چوک بازار میں واقع مسجد پھول ہٹ سے ایک جلوس نکلتا تھا جو ایک ڈیڑھ فرلانگ چلنے کے بعد چوک بازار اور حسین آگاہی کے مقامِ اتصال پر ختم ہو جاتا تھا۔ سامنے سڑک پر پولیس کے دستے لاٹھی چارج کرنے اور مظاہرین کو گرفتار کرنے کیلئے کھڑے ہوتے تھے۔ کرفیو کے دوران چوک شہیداں اپنے گھر سے عصر کی نماز کے وقت پھول ہٹ مسجد تک پہنچنا ایک الگ سی مہم تھی جسے ہم روزانہ بلاناغہ سرانجام دیتے تھے۔ یہ مہم دورانِ کرفیو گھر سے نکل کر حرم دروازے تک پہنچنا تھا۔ بصورت دیگر ہم بر وقت مسجد پھول ہٹ نہیں پہنچ سکتے تھے۔ گھر سے نکل کر اسلم منزل تک پہنچنا بہرحال کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کے آگے چوڑی گلی اور سامنے تیمور روڈ تھا جہاں رائفل بردار چاک و چوبند فوجی گشت کر رہے ہوتے تھے اور کسی ذی روح کو دیکھتے ہی ”ہالٹ‘‘ کا زور کاشن دیتے اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی رائفل سیدھی کر لیتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ چلنے پھرنے اور مارچ کرنے میں اپنی چستی کے برعکس یہ فوجی کندھے سے رائفل اتارتے اور اسے سیدھا کرنے میں جان بوجھ کر سستی کرتے تھے اور ہمیں اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ ہمیں جان بوجھ کر تھوڑی بہت رعایت دیتے ہیں اور ہم اسی رعایت کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ ویسے تو وہ عمر ہی ایسی تھی کہ کرفیو کے دوران گشت کرتے ہوئے فوجی کے پشت موڑتے ہی بھاگ کر سڑک پار کرنا ایک ایڈونچر لگتا تھا اور گولی لگنے کا خوف بھی بس نہ ہونے کے برابر تھا۔ اب سوچیں تو اپنی بے خوفی پر حیرانی ہوتی ہے۔
ہم تیمور روڈ کو بھاگ کر پار کرتے اور محلہ چیتے واہن اور جوگیوں والے محلے سے ہوتے ہوئے حرم دروازے کے پاس پہنچ جاتے۔ اب مشکل مرحلہ درپیش ہوتا۔ گلی سے نکل کر حرم دروازے کے اندر داخل ہونے کیلئے پچاس ساٹھ گز کا فاصلہ طے کرنا پڑتا جو سامنے کھڑی بکتر بند گاڑیوں اور گشت کرتے مسلح فوجیوں کی موجودگی میں کئی میل لمبا محسوس ہوتا تھا مگر ہم یہ مرحلہ بھی تقریباً روزانہ طے کرتے۔ حرم دروازے کے اندر داخل ہونے کے بعد ہم تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے پھول ہٹ مسجد پہنچ جاتے۔وہاں عصر کی نماز کے بعد جلوس نکلتا۔ ادھر سے پتھراو ٔاور دوسری طرف سے لاٹھی چارج ہوتا۔ اسی دوران گرفتاریاں ہوتیں۔ ہم روزانہ کی اس کارروائی کے بعد گھر کی طرف بھاگتے تاکہ کرفیو کا وقفہ ختم ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائیں۔ روزانہ کی اس طے شدہ ر وٹین میں چند روز بعد یہ تبدیلی آئی کہ پتھراؤ اور لاٹھی چارج کی جگہ باہمی بھائی چارے کے تحت رضاکارانہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مسجد پھول ہٹ سے دو رہنما گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جلوس کے ساتھ روانہ ہوتے۔ چوک بازار کے اختتام پر جلوس وہیں رک جاتا۔ دونوں قائدین مزے سے چلتے ہوئے سامنے پولیس کی جانب جاتے۔ پولیس انہیں آرام سے گاڑی میں بٹھاتی اور انہیں لے کر روانہ ہو جاتی اور جلوس کے شرکا اپنے گھروں کو چل دیتے۔پھر یوں ہوا کہ جیلیں واقعتاً بھر گئیں۔ پولیس نے روزانہ دو قائدین کو بھی گرفتار کرنا بند کر دیا۔ تاہم قائدین حسب معمول مسجد پھول ہٹ سے پھولوں کے ہار پہن کر روانہ ہوتے۔ نعرے مارتے ہوئے پولیس کی جانب جاتے۔ پولیس آگے سے بے اعتنائی برتتی۔دونوں افراد نعرے لگاتے ہوئے واپس آ جاتے۔ صبح ان کی تصاویر اخبارات میں آتیں۔ ایک روز ہمارے ایک لیڈر دوست نے جب دیکھا کہ شہرت‘ پھولوں کے ہار‘ اخبارات کی تصاویر اور مشہوری مفت میں مل رہی ہے تو اس نے ایسی گرفتاری دینے کا ارادہ کر لیا جس میں حقیقتاً گرفتاری تو ہوتی ہی نہیں تھی۔ اس روز وہ پھولوں کے ہار پہن کر نعرے مارتا ہوا پولیس کی طرف گیا۔ اللہ جانے اس روز پولیس کو کیا سوجھی اس نے ہمارے دوست کو پکڑا‘ گاڑی میں بٹھایا اور جیل لے گئی۔ یہ دوست قریب ڈیڑھ ماہ بعد جیل سے تب رہا ہوا جب ضیا الحق کا مارشل لاء لگا اور تمام اسیرانِ تحریک رہا ہوئے۔ قصے کے اختتام پر میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: خیال رکھنا‘ کبھی کبھی بندہ واقعتاً پکڑا بھی جاتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے پی ٹی آئی والے ایم پی اے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔