آخری کلمات، آخری لمحات

شاید صرف زندگی اور موت ہی انسانوں میں برابر تقسیم ہوتی ہے ورنہ تو فنگر پرنٹس تک مختلف ہوتے ہیں اور زندگی کا خلاصہ:

موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سن

زندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہے

’’وجہ مرگ‘‘ اور ’’جگہ مرگ‘‘ کبھی بہت اہم تھے لیکن اب تو لوگ زیادہ تر آخری لمحات ہسپتالوں میں ہی گزارتے ہیں۔ زندگی آخری کلمات اور آخری لمحات کا عجیب سا کومبی نیشن ہے۔ خلیفہ مامون الرشید نزع کے عالم میں تھا جب جاحظ عیادت کے لئے حاضر ہوا۔ کسی جانور کی کھال کا بچھونا تھا جس پر ریت بچھی تھی اور خلیفہ اسی ریٹ پر لوٹتے ہوئے کہہ رہا تھا:

’’اے وہ کہ جس کی بادشاہی کبھی زائل نہ ہوگی اس پر رحم فرما جس کی بادشاہی جارہی ہے۔ اے وہ جسے موت نہیں اس پر رحم فرما جو مر رہا ہے‘‘۔

دوسری طرف کارل مارکس جیسا عظیم انقلابی جس سے چند آخری کلمات کے لئے کہا گیا تو اس نے جواب دیا ’’آخری الفاظ صرف وہی بیوقوف ادا کرتے ہیں جنہوں نے زندگی میں بہت کچھ نہ کہا ہو‘‘۔

اور یہ ہیں آخری کلمات اس حکمران عبدالملک کے جس کی خلافت، حکمرانی میں حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی۔ اس نے کہا ’’جب سے میں پیدا ہوا یہی کوشش کی کہ خود کو مسرور کر سکوں لیکن مجھے کبھی سچی خوشی نصیب نہ ہوئی۔ میں نے حکومت کا بوجھ اس لئے اپنے سر لیا کہ بادشاہت انسانی ترقی کی معراج ہے لیکن میں نے دھوکہ کھایا۔ میں سخت نادم اور متاسف ہوں مگر ندامت و تاسف کا وقت گزر چکا۔ میں ناکام و نامراد دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں نے جس رستے کا انتخاب کیا وہ غلط تھا۔ میرے حال و مآل سے عبرت حاصل کرو‘‘۔

تو ظالم و جابر حجاج بن یوسف کا بھی سن لیں جس کا جبر و قہر پورے عرب میں مثال بن گیا تھا۔ حجاج کی تلوار اور زبان یکساں تیز اور کاٹ دار تھی۔ عراق پر 20 برس آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والا حجاج صرف 54 برس کی عمر میں بستر مرگ پر اس حال میں جاگرا کہ اس کے پیٹ میں کیڑے پیدا ہوگئے جو بڑھتے ہی چلے گئے۔ اسے اتنی شدید سردی محسوس ہوتی تھی کہ بری طرح کانپتا رہتا اور اس کے گرد بہت سی جلتی ہوئی انگیٹھیاں بھی اسے محسوس ہونے والی سردی میں کمی نہ کر سکتیں۔ آخری لمحوں اپنے گناہوں اور مظالم کا اعتراف کرتے ہوئے بلک بلک کر رویا۔ ابومنذر عیادت کو آئے، حال پوچھا تو بولا شدید مصیبت، اذیت، سخت تکلیف، ناقابل بیان الم، ناقابل برداشت درد، اللہ نے مجھ پر رحم نہ کیا تو میرا کیا بنے گا؟ سسک سسک کر جان دے دی۔

میں نے ناروے میں وہ ریستوران اور اس میں وہ مخصوص جگہ دیکھی ہے جہا ں عظیم نارویجین ڈرامہ نگار ابسن بیٹھا کرتا تھا۔ 1900 میں ہارٹ اٹیک کے بعد بستر مرگ پہ جا پڑا جب اس نے اپنی نرس کو کسی سے یہ کہتے سنا کہ ’’اب ابسن بہتر محسوس کر رہا ہے‘‘ تو کہا …. ’’نہیں بلکہ اس کے برعکس‘‘۔

اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بارے تو ہم جانتے ہی ہیں۔ یہ وہی بھٹو ہے جس نے ایک بار کہا تھا “I AM THE ONLY SACRED COW IN THIS COUNTRY”( میں اس ملک میں اکلوتی مقدس گائے ہوں)پھر بھٹو صاحب ڈیتھ سیل میں تھے جب جیل حکام انہیں تختہ دار کے لئے لینے آئے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے حکم دیا ’’مسٹر بھٹو کو اٹھالیں‘‘ چار ملازم آئے اور بھٹو کو اٹھا کر سٹریچر پر ڈالا اور یاد رہے اٹھاتے وقت قمیض کا پچھلا حصہ کسی کے پائوں تلے آگیا اور انہیں اٹھانے پر قمیض چیری گئی۔انہوں نے کہا مجھے چھوڑ دو۔ پھر دالان میں آ کر انہیں سٹریچر پر ڈال دیاگیا اور پیٹ کے اوپر ہتھکڑی لگا دی گئی۔ سٹریچر اٹھا لیا گیا۔ بھٹو نے سر ذرا اوپر اٹھائے رکھا لیکن سیل سے دو اڑھائی سو گز دور پھانسی گھاٹ تک بالکل خاموش رہے۔ پھانسی گھاٹ پر پہنچ کر سٹریچر زمین پہ رکھ دیاگیا۔ دو ملازموں نے بغلوں کے نیچے ہاتھ ڈال کر اٹھنے میں مدد کی اور پھانسی کے تختہ پر کھڑے کردیئے گئے۔ ہاتھوں سے ہتھکڑی اتار کر بازو اور ہاتھ بھٹو کی پشت پر لا کر دوبارہ ہتھکڑی لگا دی گئی۔ جلاد تارہ مسیح نے سر اور چہرے پر ماسک چڑھا دیا، ٹھیک دو بج کر چالیس منٹ پر جلاد نے لیور کھینچا، بھٹو جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویں میں لٹک گئے۔ تاریخ ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ 4؍اپریل 79ء کی رات 2بج کر40 منٹ پر اس کا وہ قاتل سو رہا تھا، جاگ رہا تھا، کیا کر رہا تھا جسے بھٹو نے آئوٹ آف ٹرن، آئوٹ دی وے جا کر آرمی چیف بنایا تھا۔

کتنے کم ظرفوں پہ احسان کئے

تم نے اس وقت تو سوچا ہوگا

تاریخ یہ بھی نہیں بتاتی کہ جب بستی لال کمال پر ضیاء الحق کا طیارہ پلٹیاں کھا رہا تھا تو اس وقت اس کے اہم ترین سوار پر کیا بیت رہی تھی؟ لیکن بھیانک تصویر کا ایک بہت ہی خوب صورت منظر بھی ہے۔

عظیم سائنسدان، موجد، بنی نوع انسان کا محسن ایڈیسن بستر مرگ پر تھا۔ اس کی دوسری بیوی قریب بیٹھی تھی جب اس نے پوچھا ’’ایڈی! تکلیف تو نہیں ہو رہی؟‘‘ ایڈیسن نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا :

’’بہت خوبصورت منظر ہے‘‘

عظیم روسی ادیب لیوٹالسٹائی بطور فوجی افسر بھی خدمات سرانجام دے چکا تھا جس نے آرتھو ڈوکس کلیسا کی تعلیمات کو مسترد کردیا تھا۔ بستر مرگ پر آخری لمحوں میں پادری نے اسے ’’توبہ‘‘ کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے کہا ….. ’’موت کی وادی میں بھی دو اور دو چھ نہیں ہوتے‘‘۔

نپولین بونا پارٹ، یورپ اس کے نام سے لرزتا تھا۔ سینٹ ہلینا جیسے قاتل جزیرے پر انتہائی نامساعد حالات میں دنیا سے رخصت ہوا۔ دو ڈاکٹرز نے پوسٹ مارٹم کیا اور ایک نے دوسرے کو نپولین کا ’’جگر‘‘ دکھاتے ہوئے کہا:

’’دیکھو! انسانی جگر کے ساتھ سینٹ ہلینا کی آب و ہوا کیسا سلوک کرتی ہے‘‘۔

قارئین!

یہ کالم میرے ملک کے سیاستدانوں کے نام ہے جن کے کاموں اور کلاموں، الزاموں اور دشناموں نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا کہ شاید کوئی آخری ’’کلمہ‘‘ یا ’’لمحہ‘‘ انہیں نظرثانی کی طرف مائل کردے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے ہی!۔