ملک کے تازہ ترین سیاسی واقعات (دوسری قسط)

اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو پیش کش کی ’’ہم آپ کی مالی مدد بھی کریں گے‘‘ عمران خان نے فوراً جواب دیا ’’میں نے جس دن کسی سے پیسے پکڑ لیے میں اس دن اندر سے فوت ہو جائوں گا لہٰذا میں آپ سے رقم نہیں لوں گا‘‘۔

یہ واقعہ مجھے جنرل پاشا نے بتایا تھا اور ان کا کہنا تھا ‘یہ سن کر میرے دل میں عمران خان کی قدر بڑھ گئی‘ بہرحال اس کے تین فوری نتائج نکلے‘ پی ٹی آئی کو فنڈز ملنا شروع ہو گئے‘ اسلام آباد کی ایک کاروباری شخصیت نے 150 کروڑ روپے دیے چناں چہ وہ پارٹی جس کے پاس چیئرمین کی گاڑی کے پٹرول کے پیسے نہیں ہوتے تھے وہ چند دنوں میں امیر ہو گئی۔

سینیٹر سیف اللہ نیازی اس وقت پارٹی آفس میں کلرک تھے‘ یہ رقم کا حساب کتاب رکھنے لگے اور یہ خود بھی دنوں میں امیر ہو گئے‘ دوسرا 30 اکتوبر2011 کو مینار پاکستان پر تاریخ ساز جلسہ ہوا‘ ہزاروں لوگ شریک ہوئے اور عمران خان نے لیڈر شپ کی پہلی سیڑھی پر پائوں رکھ دیا‘ دوسرا جلسہ 25 دسمبر 2011کو کراچی میں مزار قائد پرہوا‘ ایم کیو ایم اس وقت پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی لیکن اس نے عمران خان کے جلسے کے لیے اپنے ہزاروں کارکن مزار قائد بھجوائے۔

ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے پرانے لیڈرز یہ دعویٰ کرتے ہیں یہ جلسہ اسٹیبلشمنٹ نے کرایا تھا اور ہم نے اسی کی ہدایت پر جلسہ گاہ بھری تھی اور پھر اس کے بعد عمران خان کے جلسے بھی ہوتے چلے گئے اور یہ میڈیا کی ڈارلنگ بھی بن گئے‘ اور تیسرا عمران خان کے دائیں بائیں درجنوں لیڈرز کھڑے کر دیے گئے‘ شاہ محمود قریشی نے ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی‘ یہ ن لیگ جوائن کر رہے تھے‘ یہ انتہائی خوب صورت ویسٹ کوٹ پہن کر میاں نواز شریف سے ملے۔

میاں صاحب نے ان سے ویسٹ کوٹ کے درزی اور کپڑے کے بارے میں معلومات بھی لے لیں لیکن پھریہ اچانک اِدھر کے بجائے اُدھر چلے گئے‘ اسد عمر اس وقت اینگرو کے سربراہ تھے‘ یہ پنجاب میں میاں شہباز شریف کی ٹاسک فورس میںشامل تھے اور یہ بڑی تیزی سے شریف برادران کے قریب بھی ہو رہے تھے‘ ان کے دوسرے بھائی محمد زبیر ن لیگ کے میڈیا سیل میں تھے‘ اسد عمر نے بھی اسلام آباد میں ایک میٹنگ کی اور یہ بھی خان کے پاس چلے گئے۔

جہانگیر ترین کو صدر آصف علی زرداری نے پی ٹی آئی کا راستہ دکھایا اور وہ راولپنڈی گئے اور یہ بھی چار دن بعد جہاز سمیت پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے‘ شیخ رشید اور مشاہد حسین سید کو بھی پی ٹی آئی کی طرف دھکیلا گیا‘ شیخ رشید 2012میں پارٹی کے اتحادی بن گئے تاہم مشاہد صاحب نے عین وقت پر معذرت کر لی اور یہ واپس ن لیگ میں چلے گئے۔

چوہدری اعتزاز احسن اور قمرزمان کائرہ کو بھی پش کیا جا رہا تھا‘یہ راضی بھی ہو گئے مگر عمران خان نے ان کی ڈیمانڈز ماننے سے انکار کر دیا تھا‘ یہ بات بعدازاں آصف علی زرداری تک پہنچ گئی اور یہ طویل عرصہ دونوں صاحبان سے ناراض رہے۔

یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ جنرل پاشا ریٹائر ہو گئے اور لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے ‘ 2013 کے الیکشنز میں اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا عمران خان کام یاب ہو جائیں گے مگر نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ ن لیگ 126سیٹیں جیت گئی اور عمران خان بمشکل کے پی کے میں حکومت بنانے کے قابل ہو سکے‘ عمران خان الیکشن ہار چکے تھے لیکن ہمیں بہرحال خان کی یہ خوبی ماننا ہو گی یہ ’’گیواپ‘‘ نہیں کرتے۔

عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کر دیا اور ان کا یہ مطالبہ آہستہ آہستہ زور پکڑتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ ایک بڑی سیاسی قوت بن گئے‘ 29 نومبر 2013کو میاں نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنا دیا‘ جنرل راحیل جمہوریت پسند تھے‘ یہ حکومت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت تک عمران خان گلیاں اور سڑکیں گرم کر چکے تھے‘ لندن پلان بھی بن چکا تھا‘ عوامی طاقت کے لیے علامہ طاہر القادری کی خدمات بھی حاصل کی جا چکی تھیں۔

بہرحال لانگ مارچ اور دھرنا شروع ہوا اور یہ بری طرح پٹ گیا مگریہ ٹیلی ویژن پر روزانہ کام یاب دکھائی دیتا تھا‘ میں یہاں نواز شریف کی ایک خوبی کا اعتراف بھی کروں گا‘ یہ شخص گھبراتا بھی نہیں اور یہ ضد میں عمران خان سے بھی کئی گنا آگے ہے چناں چہ میاں نواز شریف وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کا گیٹ ٹوٹنے اور پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی پر قبضے کے باوجود ڈٹے رہے‘ یہ پیچھے نہیں ہٹے۔

اس دوران آئی بی نے عمران خان اور عارف علوی اور ڈی جی آئی اور ایک کاروباری شخصیت کی ٹیلی فون کالز بھی ریکارڈ کر لیں‘ عمران خان اور عارف علوی کی کال لیک کر دی گئی جب کہ دوسری کال جنرل راحیل شریف کو وزیراعظم ہائوس میں سنائی گئی اور اس کے بعد دھرنا پسپا ہو گیا‘ اس کال کا ذکر مشاہد اللہ خان مرحوم نے 14 اگست 2015 کوبی بی سی کے انٹرویو میں کیا تھا اور اس جرم کی پاداش میں یہ وزارت سے فارغ ہو گئے تھے۔

اے پی ایس پشاور کا سانحہ ہوا‘ 132بچے اور اسٹاف کے 9 ارکان شہید ہوگئے اور عمران خان کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری ایک رات انھیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے‘ علامہ طاہر القادری کی واپسی کے بارے میں یہ کہانی گردش کرتی رہی علامہ صاحب کو میاں نواز شریف کے ایک کزن نے راضی کیا تھا۔

انھیں ان کے اخراجات بھی ادا کیے گئے تھے اور شریف برادران کی والدہ مرحومہ بیگم شمیم اختر نے علامہ صاحب کو گارنٹی بھی دی تھی ’’آپ کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ نہیں بنے گا‘‘ اور علامہ صاحب اس گارنٹی کے بعد اپنے خیمے اور کفن لپیٹ کر واپس کینیڈا تشریف لے گئے ‘ یہ خبر مصدقہ نہیں‘ اس میں شامل مختلف کردار یہ حقائق تسلیم کرتے ہیں لیکن تصدیق کرنے سے انکاری ہیں تا ہم اگر ہم بعد کے واقعات کو دیکھیں تو یہ اطلاع غلط محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ شریف برادران نے علامہ صاحب کو ان کی رخصتی کے بعد کبھی تنگ نہیں کیا۔

دھرنے کے دوران ایک رات میاں نواز شریف کو دو ماہ چھٹی پر جانے کا پیغام بھی پہنچایا گیا تھا‘ نواز شریف سو رہے تھے‘ انھیں اسحاق ڈار کے ذریعے ایمرجنسی میں اٹھایا گیا ‘ اسحاق ڈار کی موجودگی میں ملاقاتی سے ملاقات ہوئی‘ نواز شریف نے پوچھا ’’آپ کو یہ پیغام کس نے دیا ’’ملاقاتی کا جواب تھا ’’میں شخصیت کا نام نہیں بتا سکتا‘‘ نواز شریف کا جواب تھا ’’پھر میں یہ مشورہ ماننے سے انکار کرتا ہوں‘‘ اور وہ یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے‘ میں اس واقعے کی اسحاق ڈار سے دو بار تصدیق کر چکا ہوں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ ان حالات میں29 نومبر 2016 کو آرمی چیف بن گئے اور ملک میں نئے دور کا آغاز ہو گیا۔ (جاری ہے)