آئیں کافی برانڈ کیفے پر غصہ اتاریں

لاہور میں عالمی سطح پر مشہور کافی برانڈ کیفے پر جو نیگٹو ردعمل پاکستان میں آرہا ہے اور قطاروں میں لگے خریداروں پر جو تبصرے کیے جا رہے ہیں اس پر مجھے حیرانی نہ ہوتی اگر میں برسوں پہلے پاکستان سے باہر نہ جاتا اور کنویں کا مینڈک بن کر رہتا۔
ممکن تھا میں سب سے پہلے ان لوگوں پر تنقید کرتا جو کافی کا مگ لینے کے لیے قطاروں میں لگے تھے۔میں بھی لکھ رہا ہوتا کہ یہ کون لوگ ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے لگ چکا ہے اور یہ کافی لینے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ لوگوں میں ذرا شرم نہیں‘یہ وقت کافی پینے کا نہیں‘ کیفے میں دوستوں یا فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا نہیں‘ جیب سے کچھ خرچ کرنے کا نہیں۔یہ وقت چوبیس گھنٹے گھر بیٹھ کر سوچنے کا ہے کہ پاکستان کو وہ کیسے ڈیفالٹ سے بچا سکتے ہیں‘ کیسے اپنی جیبوں میں موجود رقم بچا سکتے ہیں‘ جو ہوسکتا ہے برے وقت میں کام آئے۔اس وقت آپ نے اپنی جیب یا بینک میں موجود پیسہ بچانا ہے‘ آپ نے بالکل خرچ نہیں کرنا ورنہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ایک طرف لوگوں کو آٹا نہیں مل رہا اور دوسری طرف یہ لوگ کافی پی رہے ہیں۔ لوگوں میں احساس ختم ہوگیا ہے۔ یہ بے رحم کلاس ہے جسے اس ملک سے کوئی ہمدردری نہیں۔ ان کے دلوں میں پتھر نصب ہیں۔ یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔ ان لوگوں نے حلال حرام کی فکر کیے بغیر بہت پیسہ اکٹھا کر لیا ہے‘ انہیں مہنگائی کی کوئی فکر نہیں۔
پھرایسا کیا ہوا کہ میں ایسی باتیں نہیں کر رہا؟ مجھے آٹا لینے والی قطاریں نظر کیوں نہیں آتیں؟ میں خود امیر ہوگیا ہوں یا میرے پاس بہت دولت آگئی ہے لہٰذا مجھے مہنگائی سے فرق نہیں پڑتا؟ یا یہ سب مسائل اب میرے مسائل نہیں رہے لہٰذا میری بلا سے آسمان گرتا ہے تو گرنے دو؟مجھے آٹے کے لیے لگی قطاروں سے شاید اس لیے ہمدردی نہیں کہ برسوں سے لکھتا اور بولتا رہا ہوں کہ جس رفتار سے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں اور بلڈرز نے سب کو کنٹرول کر لیا ہے‘ یہ قوم بہت جلد آٹے کی جگہ سریا اور سیمنٹ کھائے گی۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے۔ آٹا نہیں مل رہا لیکن مارکیٹ میں سریا اور سیمنٹ ماشااللہ دستیاب ہے اور جتنا مہنگا ہوجائے پھر بھی ڈیمانڈ اور سپلائی کم نہیں ہوتی۔ یقین نہیں آتا تو مارکیٹ کا چکر لگا لیں۔ آٹا نہیں ملے گا لیکن سریا سیمنٹ اور دیگر سامان مل جائے گا۔ جب اس ملک کے حکمرانوں‘ بیوروکریٹس‘صحافیوں اور عوام کو اس بات کی فکر نہیں کہ ہر خالی زرعی زمین دیکھ کر آپ نے کسان کو چند لاکھ روپے کا لالچ دے کر اس پر ہزاروں پلاٹ بنا کر بیچ دینے ہیں اور وہ زمین برسوں تک پلاٹ کی شکل میں خالی پڑی رہے گی کیونکہ زیادہ تر کا مقصد گھر بنانا نہیں بلکہ پلاٹ بیچ کر بڑا منافع کمانا ہے تو پھر اب آٹا نہ ملنے پر روتے کیوں ہو؟ جائو سریا سیمنٹ خرید کر اسی کا سالن بنا کر کھائو۔
ہم وہ ڈھیٹ لوگ ہیں کہ عمران خان کے دور میں دس ارب ڈالرز کی گندم‘چینی‘ کاٹن‘ دالیں‘ تیل قرض لے کر منگوانے کے باوجود لاہور کے بازو میں روڈا پروجیکٹ کے نام پر سوا لاکھ زرعی دریائی زمین بلڈرز اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کو دے دی کہ سریا سیمنٹ اس میں ٹھوک دو۔اب بتائیں جس زمین میں گندم کا بیچ بونے کے بجائے سریا سیمنٹ بویا جائے گا تو وہاں سے گندم نہیں سریا سیمنٹ اور قحط ہی آئے گا۔جس عمران خان نے وہ سوا لاکھ ایکڑ زرعی زمین اپنے اے ٹی ایمز کو دی اور عدالتی حکم کے باوجود بھاگ کر اس کا افتتاح کر دیا وہ اس قوم کا ہیرو ہے تو پھر میں کیوں نہ خوش ہوں کہ آٹا نہیں مل رہا کیونکہ اس پروجیکٹ کے خلاف لکھنے پر میں نے سینکڑوں گالیاں کھائیں کہ خان پر اعتراض کیوں کیا۔اس سال پھر تیس لاکھ ٹن گندم شہباز شریف منگوا رہے ہیں۔جو قوم ستر اسی لاکھ ٹن گندم قرض لے کر باہر سے منگوا رہی ہے اور زمینوں پر سریا سیمنٹ دبایا جارہا ہے وہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟اب ہمت کریں اور آٹا نہ مانگیں کیونکہ آپ ان حکمر انوں کا ساتھ دے رہے ہیں جنہوں نے زراعت تباہ کر دی۔اب تو ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز بھی ایکسپورٹ چھوڑ کر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا کر پلاٹ بیچ رہے ہیں۔ کون اب ڈالرز کمائے جب ایک پلاٹ میں دو تین کروڑ کا پرافٹ مل رہا ہے۔
اب آتے ہیں پاکستان میں نئے کافی برانڈ پر عوام کے ری ایکشن پر۔ پہلے میں بھی پارکس میں کسی کیفے پر سخت کالم لکھتا تھا کہ پارک تباہ ہوگیا لیکن لندن پہلی دفعہ گیا تو دیکھا کہ ہر پارک میں کیفے ضرور تھا۔ پھر میری عقل کچھ ٹھیک ہوئی۔2004 ء میں جب انڈیا گیا تو اندراگاندھی ایئر پورٹ پر جس چیز پر سب سے پہلے نظر پڑی وہ کافی‘ کپڑوں اورفونز کے عالمی برانڈز تھے۔لگتا تھا آپ کسی یورپین ایئرپورٹ پر اتر ے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ بھارت میں ہر عالمی برانڈ اپنی دکان کھولنا چاہتا ہے اور کھول رہا ہے۔ایپل فون تک اپنا کارخانہ لگا رہا ہے کہ فون وہیں بنیں گے امپورٹ نہیں ہوں گے۔دنیا بھر میں بھارت کی بات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ ان کے پاس تیس‘ چالیس کروڑ سے زائد مڈل کلاس ہے جو خریدار ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں باہر سے سرمایہ کاری آئی اور بھارت کے اندر لاکھوں نئی نوکریاں نکلیں اور ٹیکس اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ ان عالمی برانڈز کی یہ اچھی بات ہے کہ ان کے ملازمین کو وہ سب سہولتیں ملتی ہیں جو بیرونِ ملک ورکرز کو مہیا ہیں۔ یوں پڑھے لکھے نوجوان جو (ڈھابے)میں کام کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے انہوں نے کیفے میں کام کرنا شروع کیا۔پاکستان میں دیکھ لیں جب سے عالمی برانڈز کی مقامی فرنچائز کھلی ہیں پڑھے لکھے نوجوان آپ کو جوش اور خوشی سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں بہتر تنخواہیں اور سہولتیں ملتی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر ریستوران اور کیفے والوں نے بھی اپنا معیار بلند کیا تاکہ وہ گاہکوں کو کھینچ سکیں۔جو گندگی آپ کو عام دکانوں پر نظر آتی تھی وہ کیفے کلچر نے ختم کی۔اب بھی آپ کسی کوئٹہ ڈھابے پر جائیں اور گندگی کا عالم دیکھ لیں۔
پاکستان میں بھی جب عالمی برانڈز آئیں گے تو یقین رکھیں یہ پاکستان کا امیج بہتر ہی کریں گے۔بیرون ملک سرمایہ کار کو پیغام جائے گا کہ پاکستان کے اندر بھی بھارت کی طرح ایک کلاس ہے جو باہر نکل کر پیسہ خرچ کرتی ہے۔یوں جہاں سرمایہ کاری ہوگی وہاں نوجوان بچوں کے لیے نوکریاں بھی نکلیں گی اور پاکستان کو ان سیلز سے ٹیکس آمدن بھی ہو گی۔ تو کیا ہم چاہتے ہیں کہ جس کلاس کے پاس پیسہ ہے وہ پیسہ گھروں کی بیسمنٹ میں چھپا کر بیٹھی رہے اور یہ خرچ نہ کرے اور یوں جن لوگوں کو اس پیسے سے مزدوری مل رہی ہے وہ نہ ملے اور پوری قوم بھکاری بن کر سڑکوں پر گھومے کہ گھر میں آٹا نہیں؟ یہ ہماری مریضانہ سوچ ہے کہ جو بندہ پیسہ کمارہا ہے وہ خرچ کیوں کررہا ہے۔ میں اگر پچیس ہزار کما رہا ہوں تو میرے نزدیک ہر وہ بندہ قابلِ نفرت ہے جو پچاس ہزار کما کر کافی کا کپ پینے کیفے جاتا ہے۔پیسہ باہر نکلے گا تو ہی اکانومی چلے گی۔میری جیب سے پیسہ نہیں نکلے گا تو مزدور بھوکا مرے گا۔
اس ملک کو تو ان حالات میں‘ جب پاکستان کوئی آنے کو تیار نہیں اور امریکہ نے اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے سے روک دیا ہے اور اب ایک عالمی کافی برانڈ پاکستان میں اپنی شاپ کھول بیٹھا ہے تو اس پر خوش ہونا چاہیے نہ کہ مریضانہ سوچ کے تحت ان پر پل پڑیں کہ وہ کیفے کیوں گئے۔ محنت سے پیسہ کما کر کے آپ بھی کافی پینے جائیں۔یقین کریں اس کلاس کا پیسہ باہر آنے سے ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات کم ہوں گے۔پاکستان دنیا کو ایک نارمل ملک لگے گا۔