طویل خاموشی

سوچتا ہوں اس ملک میں جمہوریت کبھی نہیں پنپ سکے گی۔ پھر خیال آتا ہے نہیں! وقت کے ساتھ ساتھ کتنی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ اس ملک میں اتنا کچھ ہوگیا لیکن مارشل لاء نہ لگا۔ ان سے کم ایشوز کو بہانہ بنا کر ماضی میں تختے الٹ دیے گئے اور دس دس سال سب کچھ معطل رہا۔ ایوب خان دور سے پہلے دیکھیں تو مارشل لاء کی وجہ سیاسی افراتفری اور غیریقینی صورتحال تھی۔ روز وزیراعظم تبدیل ہورہے تھے۔ ایک ایسا شخص بھی حکمران تھا جو منہ سے اپنی بات نہ سمجھا پاتا تھا۔ امریکی سیکرٹری بڑبراہٹ سن کر بتاتی تھی کہ گورنر جنرل کیا کہہ رہے تھے۔ جو بندہ بول نہیں پاتا تھا وہ حاکم تھا جبکہ اب یہ حال ہے کہ عمران خان کے جانے کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک ان کا مسلسل اور ہر موضوع پر بولنا تھا۔ چلیں‘ آپ بولیں لیکن کتنا بولیں گے؟ایک سٹیج پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں پر آتی ہے جب وہ روز ہی خود کو سرخیوں کی زینت بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر چینل ان کی خبر اور سرخی سے خبرنامہ شروع کرے۔
خیر بات ہورہی تھی کہ کیسے ماضی میں آج کے مقابلے میں انتہائی معمولی باتوں پر مارشل لاء لگے۔ بھٹو صاحب والا مارشل لاء دیکھ لیں کہ الیکشن دھاندلی الزامات کے بعد ہنگامے ہوئے۔ اس کے مقابلے میں جو پچھلے ماہ تحریک انصاف کے ورکرز نے احتجاج کیا اور ان کے خلاف ریاستی ادارے اور مشین استعمال کی گئی وہ دیکھ لیں۔ اسلام آباد ڈی چوک پر ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ یہ سین اگر 1990ء کی دہائی میں ہوتے تو اب تک غلام اسحاق خان یا فاروق لغاری حکومتیں توڑ چکے ہوتے۔
2002ء کے بعد کوئی وزیراعظم اپنی ٹرم مکمل نہ کر سکا لیکن اسمبلی پھر بھی چلتی رہی۔ جمالی گئے تو شوکت عزیز آگئے‘ گیلانی گئے تو راجہ پرویز اشرف‘ نواز شریف گئے توشاہد خاقان عباسی نے دور مکمل کیا۔ عمران خان بھی اس سلسلے کو نہ توڑ سکے اور انہیں بھی جمالی‘ گیلانی‘ نواز شریف کی طرح بغیر مدت پوری کیے گھر جانا پڑا۔ خیر عمران خان چاہتے تو وہ بھی اپنی حکومت جاری رکھ سکتے تھے لیکن وہ شاہ محمود قریشی یا اسد عمر یا پرویز خٹک کو اپنی سیٹ پر بٹھانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے‘ لہٰذا حکومت چھوڑیں وہ تو اسمبلی سے بھی باہر آگئے۔ تاہم وہ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو پھر بھی وزیراعلیٰ رکھنا چاہتے تھے۔ ساری لڑائی ان کی بزدار کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان نے حکومت چھوڑ دی لیکن بزدار کو نہ چھوڑا۔
عمران خان اس اسمبلی میں بیٹھنے کو تیار نہیں جس اسمبلی میں وہ وزیراعظم نہ ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے خود ہی زرداری اور شریفوں کو اقتدار میں واپسی کا راستہ دکھایا۔ جب خان صاحب جنرل باجوہ صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع دینے پر تیار ہوگئے تو انہیں علم تھا کہ ان کے پاس ہاؤس میں اکثریت نہ تھی‘ لہٰذا انہیں زرداری اور نواز شریف سے ووٹ مانگنے پڑیں گے۔ خان صاحب یقینا ان دونوں پارٹیوں سے خود ووٹ مانگنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس لیے اس کام کا بیڑا مقتدرہ نے خود اٹھا لیا۔ خان صاحب کو علم ہونا چاہیے تھا کہ جب وہ مقتدرہ کو نواز شریف اور زرداری کے پاس بھیج رہے ہیں تو کوئی طاقتور بندہ جب جیل میں بیٹھے بندے کے پاس کوئی فیور لینے جائے گا تو جیل میں قید بندہ بھی اس کے بدلے اپنی رہائی مانگے گا۔ یہی کچھ ہوا جب زرداری اور نواز شریف نے ووٹ کے بدلے آزادی مانگی۔ عمران خان لاکھ کہتے رہیں کہ وہ بھولے تھے‘ انہیں پتا نہیں چلا۔یہ سب غلط ہوگا۔انہیں سب پتا تھا کہ درونِ خانہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ جو ملاقاتیں عمران خان کو خودکرنی چاہئے تھیں وہ مقتدرہ کے نمائندے کر رہے تھے۔ تو پھر ان ملاقاتوں کا کچھ رنگ تو نکلنا تھا۔
عمران خان کو اس وقت کہنا چاہیے تھا کہ ہم تو توسیع دینے کو تیار ہیں لیکن ہاؤس میں ہمارے ووٹ پورے نہیں اور ہم نہیں چاہیں گے کہ آپ زرداری اور نواز شریف جیسوں سے ووٹ مانگیں۔ سیاست میں چلتا ہی سارا لین دین ہے کہ اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے۔ یہاں کوئی کسی کا سگا نہیں‘ لہٰذا شریفوں اور زرداری نے سیدھا سودا کیا اور بغیر جذباتی ہوئے لمبی ڈیل ماری۔ انہوں نے ماضی کی مشکلات اور جیل کو اس راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ دوسری طرف ہر اسمبلی اجلاس میں عمران خان نے پارلیمنٹری کمیٹیوں میں بیٹھنے سے انکار کیا۔ سب کچھ مقتدرہ پر چھوڑ دیا۔ جب اپوزیشن اورمقتدرہ آپس میں بیٹھ کر قانون سازی اور دیگر اہم قومی سکیورٹی ایشوز پر مذاکرات کریں گے‘ جن میں حکومتی جماعت کہے گی کہ وہ ان چور ڈاکوئوں کے ساتھ نہیں بیٹھے گی تو پھر ان چور ڈاکوئوں نے ان محافظوں کو کسی نہ کسی مرحلے پر قائل کر لیا ہوگا کہ کیا آپ لوگ نیک اور پرہیزگار‘ تسبیح بردار وزیراعظم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں‘ آپ سیدھا ہم سے بات کریں۔ اگر ہر دفعہ آپ لوگوں نے ہم چور ڈاکوئوں کی مدد سے پارلیمنٹ میں بل پاس کرانے ہیں تو بہتر ہے پارلیمنٹ ہمارے حوالے کر دیں۔ انہوںنے بھی سوچا ہوگا کہ بات میں وزن تو ہے کہ جب بھی اسمبلی میں کوئی قانون سازی کرانی ہو تو انہیں کہا جاتا ہے کہ اب بل بھی پاس کرائو‘ حفیظ شیخ کی سینیٹ سیٹ پر شکست کے بعد اعتماد کا ووٹ لینا ہو تو بھی مقتدرہ کی مدد لی گئی‘ سینیٹ الیکشن ہوں یا پھر جو بھی ایشو ہوا۔ اس لیے جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو حسبِ عادت پھرمقتدرہ کو کہا گیا کہ آپ پھر وہی کام کریں جو ایک سال پہلے کیا تھا۔ پچھلے سال اعتماد کا ووٹ لینے میں مدد کی تھی تو اب کی دفعہ عدم اعتماد کو ناکام بنانا تھا۔ عمران خان بھول گئے تھے کہ اس ایک سال میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے اپنی حکومت ٹھیکے پر دے رکھی تھی‘ جیسے کبھی یہ الزام نواز شریف پر لگتا تھا کہ وہ ٹھیکے پر حکومت اسحاق ڈار کو دے کر خود ابن بطوطہ کی طرح پوری دنیا کے سفر پر نکل گئے تھے۔ یوں نواز شریف اور عمران خان ان حلقوں کو متاثر نہ کر سکے جن کا خیال تھا کہ وہ ملک کو ٹھیک کر دیں گے۔ اس لیے آپ کو یاد ہوگا کہ جب نواز شریف کو نکالا گیا تو وہ بھی کافی عرصہ حیران ہوکر ہر ایک سے پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ عمران خان بھی ملتی جلتی باتیں کرتے رہے کہ انہیں کیوں نکالا۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ جب نواز شریف حکومت میں تھے تو انہیں حکومت چلانے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ جو وزیراعظم آٹھ آٹھ ماہ پارلیمنٹ نہ جائے‘ چھ چھ ماہ کابینہ اجلاس نہ بلائے اور چار سو دن ملک سے باہر ایک سو سے زائد بیرونی ممالک کے دورے کرے اس نے کیا ملک چلانا تھا؟
اب بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت شہباز شریف سے نہیں چل پا رہی۔ بے یقینی ابھی تک ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ اور ڈالر ان کے کنٹرول میں نہیں آرہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر اب بجلی‘ گیس کے ریٹس بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ خبریں آرہی ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے پٹرول کی کھپت کم ہوئی ہے جس سے پٹرول امپورٹ کم ہو گی۔ ابھی یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ جولائی میں بھی لوڈشیڈنگ رہے گی کیونکہ گیس کی خریداری بہت مہنگی تھی جس پر بجلی کے پلانٹس چلنے تھے۔ اب ہمارے پاس بجلی پلانٹس موجود ہیں جہاں ہماری کھپت سے زیادہ بجلی بن سکتی ہے لیکن جان بوجھ کر بجلی پیدا نہیں کی جارہی۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے ایک اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ اگر اس وقت سارے پلانٹ چلا کر بجلی بنائی جائے تو لوڈ شیڈنگ فوراً ختم ہو سکتی ہے۔ سب وزیر خوش ہوئے اور کہا کہ پھر دیر کس بات کی‘ یونٹس چلائیں اور بجلی لوگوں کو دیں۔ اس پر کسی نے اجلاس کو بتایا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن بجلی پیدا کرنے کیلئے فیول کی ضرورت ہوگی اور فیول پر بجلی کا ایک یونٹ 51 روپے کا پڑے گا۔ عوام افورڈ کر لیں گے یہ بل؟ اس پر اجلاس میں خاموشی چھا گئی۔