کھوتے روتے نہیں ہیں

میں نے اپنے دونوں بیٹوںکو 13 سال کی عمر میں کام پر لگا دیا تھا‘ یہ دن کو اسکول جاتے تھے اور شام کے وقت دفتر میں کام کرتے تھے‘ یہ ماڈل کام یاب رہا اور یہ 20 سال کی عمر میں انڈی پینڈنٹ بھی ہو گئے‘ خوش حال بھی اور تجربہ کار بھی‘ میں نے گریجوایشن کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی روک دیا تھا۔

میرا خیال تھا گریجوایشن تک تعلیم کافی ہوتی ہے‘ نوجوانوں کو بی اے‘ بی ایس سی یا بی بی اے کے بعد کام کرنا چاہیے اور یہ جب پچیس چھبیس سال کے ہو جائیں تو پھر یہ اس فیلڈ میں ماسٹر کریں جس کی انھیں ضرورت ہے‘ بلاوجہ اور بے مقصد ڈگریاں لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ یہ فارمولا صرف خوش حال اور اسٹیبلش فیملیز کے لیے ہے‘ غریب اور پس ماندہ طبقے کے نوجوانوں کو یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔

بہرحال میرے ماڈل کا یہ فائدہ ہوا میرے بیٹوں نے پچیس چھبیس سال کی عمر تک کام‘ کاروبار اور فنانشل مینجمنٹ کی زیادہ تر باریکیاں سیکھ لیں اور یہ اب ہائیر ایجوکیشن کے لیے باہر جا رہے ہیں‘ بڑے بیٹے فائز نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں ماسٹر کے لیے انگلینڈ میں داخلہ لے لیا ہے جب کہ دوسرا ٹورازم میں ماسٹر کے لیے یونیورسٹیاں تلاش کر رہا ہے‘ فائز نے دو دن قبل مانچسٹر سے فون کیا‘ یہ ملک کی صورت حال پر پریشان تھا‘ میں نے اسے اسی طرح تسلی دی جس طرح تمام والدین اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔

یہ جب نارمل ہو گیا تو میں نے اس سے پوچھا ’’تمہیں انگلینڈ اور یونیورسٹی کیسی لگ رہی ہے؟‘‘ یہ ہنس کر بولا ’’یورپی ملکوں میں سیر کے لیے آنا آسان لیکن پڑھنا اور کام کرنا مشکل ہوتا ہے‘ مجھے ٹف محسوس ہو رہا ہے مگر یہاں لائف بہت سموتھ ہے‘ سوئچ آن کریں تو لائیٹ ہوتی ہے‘ چولہا جلائیں تو گیس ہوتی ہے‘ سڑک پر نکلیں تو ٹریفک رواں دواں ہے‘ شاپنگ سینٹروں میں شاپنگ چل رہی ہے‘ ریستورانوں ‘ کافی شاپس اور بارز میں گاہک بیٹھے ہیں‘لوگ پارکوں میں جاگنگ اور سائیکلنگ کر رہے ہیں اور یونیورسٹیوں اور کالجز میں کلاسز چل رہی ہیں‘ پورے شہر میںلائف سموتھ ہے۔

یہ درست ہے یہاں مہنگائی ہے لیکن سپلائی چین میں کوئی بریک نہیں‘یہاں ’’کوئی آئے گا اور توڑ دے گا‘‘ جیسا خوف بھی نہیں‘‘ میرے بیٹے کا کہنا تھا ’’مجھے یہاں ایک ایک پاؤنڈ کمانا اور بچانا پڑتا ہے چناں چہ لائف ٹف ہے مگر اطمینان اور سکون بہت ہے‘ میں نے پاکستان میں کروڑوں روپے کمائے‘ کمپنیاں بھی چلائیں لیکن وہاں میں نے اسٹریس کے بغیر ایک رات بھی نہیں گزاری۔

خوف کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکی رہتی تھی‘ مجھے یقین نہیں ہوتا تھا صبح میرا دفتر بچا ہو گا یا نہیں‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول ہو گا یا نہیں‘ میں سڑک پر نکلوں گا تو میں اور میری گاڑی بچے گی یا نہیں ‘میرے اکاؤنٹ کے پیسے اکاؤنٹ میں ہوں گے یا نہیں‘ میرے ایمپلائز کل بھی میرے ایمپلائز ہوں گے یا نہیں اور میں نے جو کام شروع کیا ہے وہ میں مکمل کر پاؤں گا یا نہیں‘ میرے سر پر وہاں 36 قسم کے خوف سوار رہتے تھے مگر یہاں میں صرف اسٹوڈنٹ ہوں‘ کلاسز لیتا ہوں اور ہفتے میں 20گھنٹے کی نوکری تلاش کر رہا ہوں اور بس‘ میرے سر پر کوئی اسٹریس نہیں۔

میں اس خطرے سے آزاد ہو چکا ہوں میں سڑک پر جاؤں گا تو وہاں ایمبولینسز اور موٹر سائیکلیں جلی پڑی ہوں گی اورلوگ موٹروے پر کرکٹ کھیل رہے ہوں گے جب کہ میں نے پاکستان میں جنرل مشرف کے دور سے امن نہیں دیکھا‘ پہلے بم دھماکے ہوتے تھے‘ پھر ججز کی بحالی کی موومنٹ شروع ہو گئی اور اس کے بعد چل سو چل‘ ملک میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں ہنگامہ نہ ہو یا ضروریات زندگی کا کوئی نہ کوئی عنصر غائب نہ ہوا ہو۔

پاکستان میں روز سڑک بند رہتی تھی یا پھر بجلی‘ گیس اور انٹرنیٹ اور آپ نے اگر کوئی چیز باہر سے منگوالی تو اسے کسٹم روک لے گا اور آپ نے اگر کوئی چیز باہر بھجوا دی تووہ ائیرپورٹ پر پڑی پڑی خراب ہو جائے گی‘‘ میں نے اس کی بات سن کر قہقہہ لگایا اور پھر کہا ’’تم دس پندرہ سال کو رو رہے ہو‘ میں نے اپنی پوری زندگی اس ملک میں استحکام نہیں دیکھا‘ چھوٹا تھا تو ملک میں پی این اے کی تحریک چل رہی تھی‘ پھربھٹو کو پھانسی لگا دی گئی‘ پھر جنرل ضیاء الحق کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگنے لگے اور آخر میں اب عمران خان کے ٹائیگرز کے ہاتھوں ملک کو جلتا دیکھ رہا ہوں۔

میرے والد بھی پوری زندگی استحکام کو ترستے رہے‘ ان کے بچپن میں گوروں کو نکالنے کی تحریک چل رہی تھی اور وہ جب دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس وقت بلاول بھٹو کا مہنگائی مارچ چل رہا تھا‘ وہ پوری زندگی کہتے رہے مجھے یہاں ایک دن سکھ کا سانس نہیں ملا‘‘ میرے بیٹے نے بھی قہقہہ لگایا اور کہا ’’یہ پھر تین نسلوں کا المیہ ہے‘‘۔

میں نے رک کر کہا ’’نہیں چار نسلوں کا‘ میرے دادا کے زمانے میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ چل رہی تھی اور انگریز لوگوں کو پکڑ پکڑ کر زبردستی فوج میں بھرتی کر رہے تھے اور دادا جان بچانے کے لیے جنگلوں میں دوڑتے بھاگتے پھر رہے تھے اور اب اگر ہماری پانچوں نسل پیدا ہو گئی تو یہ بے چاری بھی ایسے ہی حالات دیکھے گی‘ اس کی آنکھ بھی اوئے چورو کی آواز سے کھلے گی‘‘میرا بیٹا ہنسا اور ہماری گفتگو ختم ہو گئی۔

کل میرے ایک سینئر دوست میرے پاس تشریف لائے‘ یہ 84 سال کے ہیں اور یہ بیٹے سے تازہ تازہ ملاقات کر کے کینیڈا سے واپس آئے ہیں‘ یہ وہاں چار ماہ رہے‘ انھوں نے کینیڈا کے بارے میں دو آبزرویشنز دیں‘ ان کا کہنا تھا ’’میں کینیڈا جا کر حیران رہ گیا‘ میں بار بار اپنے آپ سے پوچھتا تھا‘ کیا ملک ایسے بھی ہوتے ہیں؟ ہر طرف صفائی‘ نظم وضبط‘ ہریالی‘ پانی اور عزت‘ مجھے شروع میں محسوس ہوتا تھا میں جنت میں آ گیا ہوں لیکن پھر میں تین ماہ میں بور ہو گیا اور واپس آ گیا‘‘۔

میں نے بوریت کی وجہ پوچھی تو انھوں نے اپنی دوسری آبزرویشن بھی میرے ساتھ شیئر کر دی‘ ان کا کہنا تھا’’کینیڈا میں کوئی چیلنج نہیں تھا‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول بروقت ملتا رہتا تھا‘ ٹونٹی کا پانی پیا جا سکتا تھا‘ سڑکیں ہر وقت کھلی تھیں‘ دودھ‘ مچھلی‘ چائے کی پتی اور گوشت ہر چیز خالص اور تازہ تھی‘ اسپتالوں میں بھی رش نہیں ہوتا تھا اور دوائیں بھی فری مل جاتی تھیں اور پولیس کو دیکھ کر دل بھی نہیں گھبراتا تھا جب کہ میں 84سال یہ چیلنج بھگتتا رہا تھا‘ مجھے اسٹریس اور ٹینشن کی عادت پڑ گئی تھی چناں چہ میں بور ہو گیا اور واپس آ گیا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے میں جوں ہی ائیرپورٹ پر اترا باہر عمران خان کے ٹائیگرڈنڈے لے کر کھڑے تھے۔

میں ٹھیک ٹھاک ذلیل ہو کر ائیرپورٹ سے گھر پہنچا یوں میری تسلی ہو گئی‘ میں یہ سن کر ہنس پڑا اور وہ بھی میرے ساتھ ہنستے چلے گئے‘ ہنستے ہنستے ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہم دیر تک وہ آنسو پونچھتے رہے اور ایک دوسرے سے پوچھتے رہے ’’ہم کہیں روتو نہیں رہے؟‘‘ اور ہم پھر اس نتیجے پر پہنچے کھوتے (گدھے) روتے نہیں ہیں اور ہم کھوتے ہیں لہٰذا ہمارے پاس اپنی تکلیفوں کو انجوائے کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔

میں نہیں جانتا اس ملک کا کیا بنے گا تاہم میں اتنا جانتا ہوں جو قوم ایک لیڈر کی گرفتاری پر وہ ٹینکر جلا دے جس سے اسی قوم کے درختوں اور پودوں کو پانی دیا جاتا ہو‘ جو ایدھی ایمبولینس روک کر مریض اور ڈرائیور کو نیچے اتارے اور اسے آگ لگا دے اور مریض فٹ پاتھ پر مر جائے اور وہ خاتون جس نے اپنی حج کی رقم سے ایمبولینس خرید کر ایدھی فاؤنڈیشن کو دی تھی وہ یہ منظر دیکھ کر فوت ہو جائے‘ جس میں دس بارہ نوجوان موٹر سائیکلوں پر آئیں‘ سڑک بلاک کریں‘ موٹر سائیکل پر سوارمرد‘ عورت اور بچے کو اتاریں اور موٹر سائیکل کو آگ لگا دیں اور موٹر سائیکل کا مالک اپنی جلتی موٹر سائیکل کے ساتھ بیٹھ کر روتا رہے‘ جس میں 150 پولیس اہلکاروں کو اس جرم میں ڈنڈوں‘ پتھروں اور اینٹوں سے کچل دیا جائے کہ وہ ہجوم سے عام لوگوں کی پراپرٹی بچا رہے تھے‘ جس میںٹول پلازے کو آگ لگا دی جائے‘ کور کمانڈر لاہور کے گھر کے اندر گھس کر پورا گھر تباہ کر دیا جائے اور انقلاب پسند وہاں سے کھانا‘ سبزی‘ جرابیں‘ کپڑے‘ انڈے‘مور‘ مرغیاں اور یونیفارم تک لوٹ کر لے جائیں‘ جس میں ریڈیو پاکستان کی عمارت جلا دی جائے‘ جس میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی عمارت کو لوٹ کر آگ لگا دی جائے‘ جس میں میٹرو اسٹیشن جلا دیے جائیں‘ بسوں‘ پولیس وینز اور تھانوں کو آگ لگا دی جائے‘ جس میں فوج کے شہداء کی تصویروں پر پتھر مارے جائیں اور جس میں عام شہری کو سڑک پر مار دیا جائے اور آخر میں سپریم کورٹ ملزم کو اپنا مہمان ڈکلیئر کر دے اور ہائی کورٹس بلینک ضمانتیں دے دیں اور ملک میں مٹھائیاں بٹنے لگیں‘ اس ملک کا کیا مستقبل ہو گا؟

عمران خان گرفتار ہوئے‘ عمران خان رہا ہو گئے لیکن درمیان کے تین دنوں میں جو ملک کے ساتھ ہوا اس کا ذمے دار کون ہے اور اس کا حساب کون لے اور کون دے گا؟ دوسرا سوال اس ملک کے مقدر کا فیصلہ مہینے کیوں کرتے ہیں؟ ہم نے پہلے ڈیڑھ سال 2022کے نومبر تک پہنچنے اور بچنے میں ضایع کر دیا‘ پی ڈی ایم نومبر میں اپنی مرضی کی تقرری کرنا چاہتی تھی اور عمران خان اپنا آرمی چیف لانا چاہتا تھا‘ اس کشمکش نے ملک کا جنازہ نکال دیا ‘ ہم ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گئے اور اب ستمبر کی ریس جاری ہے‘ پی ڈی ایم چیف جسٹس اور صدر کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کرانا چاہتی ہے جب کہ عمران خان ستمبر سے پہلے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور اس ریس نے ملک کا رہا سہا کچومر بھی نکال دیا اور میں جب یہ سوچتا ہوں ستمبر میں ابھی ساڑھے چار ماہ باقی ہیں تو کانپ اٹھتا ہوں‘ کیوں؟

کیوں کہ مجھے محسوس ہوتا ہے شاید (معاذ اللہ) یہ ملک ستمبر تک پہنچ ہی نہ پائے‘ ہم اس سے پہلے ہی فارغ ہوجائیں چناں چہ اب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں‘ اللہ ہی اس ملک کی حفاظت کرسکتا ہے کیوں کہ یہ ملک اوپر چھوٹے‘ انا پرست اور اقتدار کے بھوکوں میں پھنس گیا ہے اور نیچے عوام کی مت ماری گئی ہے‘ یہ صحیح اور غلط کی تمیز ہی کھو بیٹھے ہیں اور یہ تباہی کا آئیڈیل کمبی نیشن ہوتا ہے اور ہم اس کمبی نیشن کا شکار ہو چکے ہیںچناںچہ آپ اب میری طرح کھوتے بن کر ہنسنا شروع کر دیں‘ کیوں؟ کیوں کہ کھوتوں کو رونا نہیں آتا۔