میں اور میرے ’مسائل‘

میں جب کسی لیڈر کا بیان پڑھتا ہوں تو وہ لیڈر اپنی اصلی شکل میں میرے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیان کا مزا غارت ہو جاتا ہے، مختلف شعرا کا کلام پڑھتے ہوئے بھی میں اس کیفیت سے گزرتا ہوں جس کے نتیجے میں ان کی شاعری پھیکی پھیکی سی لگنے لگتی ہے، کبھی کسی مزاحیہ کالم پر میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور کبھی سنجیدہ سا اداریہ پڑھتے ہوئے میری ہنسی نکل جاتی ہے۔ گزشتہ روز ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے اپنا یہ پرابلم بتایا اور کہا کہ اس کی وجہ سے بہت عذاب میں ہوں، اس نے میرا مسئلہ حل کرنے کی بجائے مجھے ایک صوفی کا قصہ سنایا کہ انہیں انسان اصلی شکلوں میں نظر آنے لگتے تھے یعنی باتیں کرتے کرتے کسی انسان کی شکل لنگور کی سی ہو جاتی، کوئی کتا بن جاتا اور کوئی اچھا خاصا بظاہر معتبر انسان سور کی شکل میں سامنے آ جاتا چنانچہ اس صوفی نے انسانوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور گوشہ نشینی اختیار کر لی اور پھر یہ قصہ سنانے کے بعد دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم صوفی تو نہیں ہو گئے ؟یہ سن کر میں نے دوست کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر سارے لوگ تمہاری طرح حسن ظن سے کام لینے لگیں تو یہ دنیا جنت بن جائے لیکن اگر کسی صوفی نے سن لیا کہ تم نے مجھے صوفی کہا ہے تو تمہاری اصلی شکل بھی اس پر آشکار ہو جائے گی لہٰذا آئندہ اس طرح کی غیر محتاط گفتگو سے احتراز کرو۔

اس دوست سے مایوس ہو کر میں نے ایک اور دوست سے اپنے مسئلے کا حل پوچھتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا سیاست دانوں کے بیانات، شاعروں کا کلام، دانشوروں کی حکمت بھری باتیں، مشائخ کے روحانی مکاشفے بہت لطف دیتے تھے لیکن جب سے سیاست دانوں کو بے اصولی کی سولی پر ٹنگے دیکھا ہے، جب سے شاعروں کا ظاہر ان کے باطن سے جدا پایا ہے، جب سے دانشوروں کی زبانیں ان کے پیٹ سے لگی ہیں اور جب سے مشائخ کو پلاٹوں کی باتیں کرتے سنا ہے، سیاسی بیانوں،غزلوں، نظموں، دانشورانہ گفتگوئوں اور روحانی مکاشفوں کا مزا جاتا رہا ہے ۔بتائو کیا کروں دوست نے کہا بے حس ہو جائو۔ مجھے دل میں دوست کے مشورے پر بہت ہنسی آئی کہ مجھے یہ حساس سمجھتا ہے مگر میں نے اپنی عزت رکھنے کیلئے اثبات میں سر ہلایا جیسے اس نے میرے بارے میں صحیح اندازہ لگایا ہو ۔

آخر میں میرا دھیان ایک ایسے دوست کی طرف گیا جو صائب مشورے دینے کیلئے دوستوں کے حلقے میں بہت مشہور ہے چنانچہ میں نے اس کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اور اپنا مسئلہ بیان کیا، دوست نے پوری توجہ سے میری بات سنی اور پھر خاموش ہو گیا میں نے کہا میں تمہاری خاموشی دیکھنے کیلئے نہیں تمہارا جواب سننے کیلئے آیا ہوں اس پر وہ بولا تم اپنی تعریف میں جو کہنا چاہتے تھے وہ تم نے کہہ دیا تم مجھے جو سنانا چاہتے تھے میں نے سن لیا۔ اب کیا چاہتے ہو میں نے پوچھا کیا مطلب بولا مطلب بہت واضح ہے کہ تم نے معاشرے کے مختلف طبقوں میں پائی جانے والی منافقت پر اظہار تاسف کیا جس میں بالواسطہ طور تمہاری اپنی پارسائی کا بیان شامل تھا، ہمارے ہاں ہیروئن پینے والا شرابی کو طعنہ دیتا ہے ،شرابی اسمگلر کو طعنے مارتا ہے، اسمگلر سیاست دانوں کی اخلاقی گراوٹ کی بات کرتا ہے، سیاست دان صاحبان اقتدار پر طعنہ زنی کرتے ہیں اور صاحبان اقتدار اپوزیشن والوں کےلتے لیتے ہیں اور یوں ہم سب اپنے گناہوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں، تم بھی ہو گئے ہو اب گھر کی راہ لو ۔میں نے اپنے گھر کی راہ لی راستے میں مجھے ایک بجلی کا کھمبا نظر آیا میں نے ایک ڈبل اینٹ اٹھا کر اس پر دے ماری یہ وہ اینٹ تھی جو میں اپنے اس نام نہاد دوست کے سر پر مارنا چاہتا تھا ۔

آخر میں فرحت شاہد کی ایک خوبصورت غزل

جو نہ کرنا تھا کر گئے صاحب

ہم محبت سے ڈر گئے صاحب

سانس لیتے ہیں عادتاً ورنہ

لوگ اندر سے مر گئے صاحب

بے گھری راستے دکھاتی رہی

کون کہتا ہے گھر گئے صاحب

شہر خالی ہے دل بھی خالی ہے

خواب میرے کدھر گئے صاحب

وہ جو وارث تھے ان زمینوں کے

چھوڑ کر کس نگر گئے صاحب

وہ جو قول و قرار تھے فرحت

ہم بھی ان سے مکر گئے صاحب