معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اِلفرڈ میں ایک متوالے سے ملاقات
میں گزشتہ پانچ دن سے برطانیہ میں ہوں۔ ایک دوست کا فون آیا اور وہ پوچھنے لگا کہ ادھر کیا مصروفیات ہیں؟ میں نے کہا: کوئی خاص مصروفیت نہیں‘ گزشتہ پانچ دن سے ہر پندرہ بیس منٹ بعد اپنے فون کا ”ہاٹ سپاٹ‘‘ آن کر دیتا ہوں۔ بس یہی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے اور کوئی خاص مصروفیت نہیں ہے۔ ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا ہوں یا پھر گاڑی میں سفر کر رہا ہوں تو محترم امجد اسلام امجدؔ یا برادر عزیز سید عامر جعفری میں سے کسی نہ کسی کے فون میں کوئی تکنیکی مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور ان کا انٹرنیٹ کنکشن جو میرے فون سے مستعار لیے گئے ہاٹ سپاٹ کی بدولت چل رہا ہوتا ہے‘ کٹ جاتا ہے اور وہ دنیا بھر سے اپنا رابطہ کٹ جانے پر مجھے حسبِ توفیق طعنے مارتے ہیں‘ برطانوی انٹرنیٹ کے نظام کو برا بھلا کہتے ہیں اور پھر دوبارہ ہاٹ سپاٹ ”آن‘‘ کرنے کا کہتے ہیں۔ اس ساری مصروفیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میں خود کسی دوست سے رابطہ نہیں کر پا رہا۔
بمشکل امریکہ سے واپسی ہوئی تو دبئی جانا پڑ گیا۔ وہاں پہلی بار ایسا ہوا کہ دو‘ تین دن ٹھہرنے کے بجائے دس گیارہ دن رہنا پڑ گیا۔ واپسی پر ناران نکل گیا اور ادھر سے واپس آ کر اگلے روز مانچسٹر آ گیا۔ کئی دوستوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ میں دو چار روز لیٹ ہونے کی وجہ سے ملکہ کی تدفین میں شرکت نہیں کر سکا؛ تاہم شاہ جی نے فون کرکے مجھے خاصا برا بھلا کہا ہے۔ وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ تم نے کوئی چکر چلا کر اسحاق ڈار کو واپس پاکستان بھجوایا ہے۔ میں نے انہیں حلفیہ بیان دیا کہ اس کام کے پیچھے میرا قطعاً کوئی ہاتھ نہیں۔ ہاں! البتہ مجھے یہ ضرور پتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اچانک ہی صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا کر دی ہے اور وہ اسحاق ڈار جو صرف اور صرف بوجہ بیماری لندن میں پڑے ہوئے تھے‘ شہباز شریف صاحب نے لندن آ کر ان کی کمر پر ہاتھ پھیر کر دم کیا ہے اور وہ بھلے چنگے ہو گئے ہیں اور دوبارہ ملک و قوم کی اقتصادی خدمت کے لیے پاکستان روانہ ہونے والے ہیں۔ گزشتہ تین روز سے امجد اسلام امجدؔ صاحب کا ایک چاہنے والا ہے جو میاں نواز شریف اینڈ کمپنی سے بہت زیادہ قریب ہے اور محض امجد اسلام امجدؔ صاحب کی محبت کے باعث گزشتہ تین دن سے خلافِ معمول میاں صاحب کو کم اور ہمیں زیادہ وقت دے رہا ہے۔ میں اس سے ”پولے پولے‘‘ طریقے سے کچھ نہ کچھ اگلوا لیتا ہوں۔
تین دن پہلے ہم امجد صاحب کی ایک چاہنے والی۔ قارئین معاف کیجئے! میرا مطلب ہے چاہنے والے کی کیک شاپ پر بیٹھے کافی پی رہے تھے کہ وہ اندر داخل ہوا۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ میزبان کا نام ماجد اور میاں نواز شریف کے متوالے کا نام ارشد ہے۔ آپ یقین کریں یہ صرف نام کی حد تک فرضی ہیں وگرنہ دونوں حقیقی کردار ہیں اور میں نے محض ان کی دل جوئی کی خاطر ان کا اصلی نام نہیں لکھا۔ ضروری نہیں کہ محض اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کی خاطر بندہ دوستوں کو Embarrassment میں مبتلا کرے۔
ارشد کے آتے ہی ماجد نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ لوگوں کو مسلم لیگ (ن) کے ایک توپ قسم کے حامی کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا۔ میں نے جواباً ہنس کر کہا کہ ہماری صحت پر اس سے کوئی خاص برا اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ہم پہلے کون سا حالِ اطمینان یا سکون میں ہیں؟ پہلے بھی تو ہم پی ٹی آئی کے سپورٹر اور عمران خان کے دیوانے کی محبت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جہاں پہلے والے کو برداشت کر رہے ہیں ایک اور برداشت کر لیں گے۔ ارشد زور سے ہنسا اور کہنے لگا: مطلب یہ ہوا کہ میں ادھر اکیلا نہیں ہوں۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: آپ کا اندازہ قطعاً غلط ہے کہ میری وجہ سے آپ اکیلے نہیں رہے۔ آپ الحمدللہ اب بھی اکیلے ہی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ کی آمد سے قبل ماجد اکیلا تھا۔ ماجد کہنے لگا: نہیں‘ میں اکیلا نہیں‘ میری شاپ میں کام کرنے والے سب لوگ پی ٹی آئی کے ہیں اور پھر شاہ جی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا: یہ بھی عمران خان کے چاہنے والے ہیں۔
میں نے ماجد کوکہا کہ دیارِ غیر میں کسی کے بارے میں یہ سن کر قطعاً حیرانی نہیں ہوتی کہ اس شخص کا تعلق تحریک انصاف ہے یا یہ عمران خان کا عاشق ہے۔ حیرانی یہ ہوئی کہ ادھر ایک میاں نواز شریف کا شدید حامی اور متوالا بھی موجود ہے۔ بے تکلفی تو رہی ایک طرف‘ میری ارشد سے کوئی جان پہچان تک نہ تھی لیکن میں نے نہایت ہی بے تکلفی سے اس سے پوچھ لیا کہ لوگ آپ لوگوں کو‘ میرا مطلب ہے مسلم لیگ (ن) والوں کو ”پٹواری‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ ارشد اس حملے سے ایک بار تو گھبرا گیا لیکن جلد ہی سنبھل گیا اور کہنے لگا: دراصل مسلم لیگ (ن) پر یہ الزام تھا کہ وہ اپنے جلسوں پر ہونے والا خرچہ‘ انتظام اور شرکا کا بندوبست پٹواریوں کے ذریعے کرواتی ہے‘ اس لیے مخالفین نے انہیں پٹواری کہنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: سچ پوچھیں تو میں اس وضاحت سے قطعاً مطمئن نہیں ہوں۔ گو کہ آپ کی وضاحت اتنی ہی کمزور اور بودی ہے جتنی کہ شفیق الرحمن کی کتاب ”مزید حماقتیں‘‘ کے پہلے مضمون ”تزکِ نادری عرف سیاحت نامہ ہند‘‘ میں نادر شاہ نے اپنے وزیر شہباز خان عرف الوشناس سے کہا کہ وہ اس کی ہندوستان پر حملے کی وجوہات تلاش کرے۔ تزکِ نادری میں نادر شاہ لکھتا ہے کہ پہلے تو الوشناس نے ہمیں پھوپھی محترمہ کی یاد دلا دی جو غالباً ہند میں مقیم تھیں۔ حقیقت یہ تھی کہ ہم نے اپنی پھوپھی کا محض ذکر ہی سنا تھا۔ نہ کبھی انہیں دیکھا تھا اور نہ شرفِ ملاقات بخشا تھا۔ گستاخ فرمانبردار خان (مصاحب خان) کا خیال تھا کہ ہماری کوئی پوپھی تھی ہی نہیں۔ خیر‘ چونکہ کابل کی مہم اندازے کے خلاف بہت جلد ختم ہو گئی‘ سوچا کہ یہ بیکار وقت کیوں نہ سیاحتِ ہند میں صرف کیا جائے۔ میں نے ارشد کو کہا کہ اس کی دلیل بھی عین اسی طرح کی ہے؛ تاہم میں اس پر ویسے ہی یقین کر لیتا ہوں جس طرح نادر شاہ نے الوشناس کی دلیل پر یقین کر لیا تھا۔
ہم اِلفرڈ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ صبح سردار کے ڈھابے پر آلو والے پراٹھے‘ دہی اور لسی سے ناشتہ کرکے اٹھے تو بس بمشکل ہی اٹھے‘ واپسی پر میں نے سامنے دکھائی دیتے ہوئے ترچھی چھت والے اِلفرڈ کے سب سے بلند دو ٹاورز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشد سے پوچھا کہ کیا یہی وہ ٹاور ہیں جن سے میاں نواز شریف کی ملکیت وابستہ ہے؟ ارشد جھٹ سے بولا کہ یہ سو فیصد جھوٹ ہے اور محض پروپیگنڈا ہے۔ میں نے کہا: خیر جھوٹ تو یہ بھی ہے کہ ایون فیلڈ والے اپارٹمنٹس میاں صاحب یا ان کے بچوں کی ملکیت ہے؛ تاہم میں تو ان دو ٹاورز کی بات کر رہا ہوں۔ پیچھے بیٹھا ہوا ماجد کہنے لگا: میں بھی ادھر اِلفرڈ میں رہتا ہوں۔ میں ان ٹاورز کے حوالے سے پچاس ہزار کی شرط لگانا چاہتا ہوں کہ یہ ٹاور کم ازکم میاں صاحبان کی ملکیت تھے ضرور۔ میں نے پوچھا: یہ پچاس ہزار پاؤنڈز کی شرط ہے یا پاکستانی روپوں کی ہے؟ ماجد کہنے لگا: پچاس ہزار برٹش پاؤنڈز کی شرط ہے۔ ارشد کہنے لگا: اس کے پاس تو پانچ سو پاؤنڈز کی شرط لگانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ پھر تو آپ کے پاس پچاس ہزار پاؤنڈز کمانے کا سنہری موقع ہے۔ اگر یہ ٹاورز واقعی میاں صاحب کے نہیں تو اس کے دو مزے ہوں گے پہلا یہ کہ وہ میاں صاحب کو ایماندار ثابت کر دے گا اور دوسرا یہ کہ اسے پچاس ہزار پاؤنڈز بھی مل جائیں گے۔ پھر میں نے کہا کہ جلدی کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ رات میاں صاحب سے پوچھ لینا اور پھر شرط لگا دینا۔ اگر جیت گئے تو پچاس ہزار تمہارے اور اگر ہار گئے تو پیسے میاں صاحب سے لے لینا کہ تم اُن کی غلط بیانی کی وجہ سے شرط ہارو گے۔ کل سے اس سے اس شرط کے بارے میں کئی بار پوچھ چکا ہوں مگر وہ ہر بار ٹال دیتا ہے۔