میاں صاحب ابھی پاکستان نہ آئیں!

سیاسی جماعتیں تو ہمارے ہاں بہت سی ہیں لیکن جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، بی این پی، جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی سرفہرست ہیں۔ان میں سے کسی جماعت کی قربانیاں کم، کسی کی زیادہ ہیں لیکن ان میں آمریت کی حامی جماعت کوئی نہیں۔ مسلم لیگ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں آمریت کی دست و بازو تھی مگر جب مسلم لیگ میں نون کا اضافہ ہوا ،اس کے بعد 1990 کی دہائی سے یہ جماعت اور اس کے قائد میاں نواز شریف جمہوریت کے علمبردار کے طور پر سامنے آئے اور پھر قربانیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس جماعت کے قائدین اور کارکن بدترین تشدد کا شکار ہوئے، نواز شریف سے ایک کاغذ پر دستخط لینے کے لئے ان پر پستول تانا گیا، مگر موت کو بالکل سامنے دیکھ کر بھی ان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئی، قید تنہائی میں رکھا گیا، سزائے موت کے قیدیوں کی چھ فٹ کی کوٹھڑی میں قید کیا گیا، جلا وطنی ان کا مقدر بنی، نواز شریف کی پوری فیملی، میاں محمد شریف ان کی اہلیہ اور باقی اہل و عیال کو بدترین صورتحال سے گزارا گیا۔ عدالتوں نے کرپشن کے الزام کی بجائے کچھ ہوائی نوعیت کے الزامات کے تحت عمر قید، سیاست سے ہمیشہ کیلئے نااہلی اور اللّٰہ جانے کیا کیا اور سزائیں سنادیں۔ میاں صاحب کے پائے استقلال میں مگر رتی بھر لغزش نہیں آئی اور یوں میرے نزدیک پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور کارکنوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکن بھی ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔

میاں نواز شریف ان دنوں لندن میں جلا وطنی کے دن گزار رہے ہیں، میں پانچ ماہ قبل ان سے ملاقات کیلئے لندن گیا، انہیں دگرگوں ملکی حالات پر بے حد فکر مند تو پایا لیکن اپنے حوالے سے انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ شاید کچھ لوگوں کو میری اس بات پر حیرت ہو کہ میں بنیادی طور پر غیر سیاسی شخص ہوں۔شریف فیملی سے ہمارے خاندانی نوعیت کے تعلقات 1970ء کی دہائی سے اب تک ہیں مگر جب کبھی ان سے ملاقات ہوئی میں نے سیاسی گفتگو سے مکمل طور پر احتراز کیا۔ لندن میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں بھی ادھر ادھر کے موضوعات پر گپ شپ ہوئی مگر میں نے ان سے کوئی سیاسی سوال نہ پوچھا کہ یہ میرا شعبہ نہیں، میاں صاحب دیکھنے میں صحت مند لگتے تھے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ہارٹ کے دیرینہ مریض ہیں، ایک دفعہ تو آپریشن کے دوران خون تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، یہ ان کی زندگی کا انتہائی نازک لمحہ تھا، بالآخر ڈاکٹروں کی ٹیم اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی، اس کے علاوہ بھی میاں صاحب بہت سے امراض کی زد میں ہیں، وہ دیکھنے میں بھی کمزور لگ رہے تھے، ان کی عمر بھی اب ستر سے اوپر ہے۔تاہم الحمد للہ وہ پردیس میں جیسے تیسے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔

یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں خود پریشان ہوگیا ہوں کہ میں کیا لکھنے کا ارادہ کرکے بیٹھا تھا اور کدھر چلا گیا ہوں، میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا ایک حصہ اور کارکن اس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ میاں صاحب کو اب پاکستان آ کر قوم کی رہنمائی کرناچاہئے، بہت سے لوگ اس خیال کے حامی نہیں ہیں، میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو ابھی پاکستان نہیں آنا چاہئے، عالمی سیاست میں بہت سے نام ایسے ہیں کہ وہ وطن سے دور جلا وطنی کے دنوں میں قوم کی رہنمائی کرتے رہے۔ میاں صاحب کی رہنمائی میں ان کی جماعت اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ میاں صاحب اگر مکمل طور پر صحت یاب ہوتے اور ان کی جسمانی طاقت بھی اس عمر میں برقرار ہوتی تو میں ان کے پاکستان آنے کے حق میں ہوتا۔ان دنوں اور ان حالات میں اگر میاں صاحب پاکستان آتے ہیں تو انہیں تنگ و تاریک جیل میں دھکیل دیا جائے گا اور اب ان کی عمر اور صحت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔میاں صاحب کو اگر پاکستان بلانا ہے تو پہلے جماعت کی تنظیم سازی کریں، کارکنوں کو منظم کریں اور اس کے علاوہ کرنے کے بہت سے کام ہیں وہ مکمل کریں، ہمیں پاکستان اپنی جان سے پیارا اور پاکستان سے محبت نہیں عشق کرنے والا نواز شریف بھی ہمیں بہت پیارا ہے۔ سو مقامی قیادت جو بھی فیصلہ کرے اس کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر کرے۔ تاہم میں ذاتی طور پر موجودہ صورتحال میں میاں صاحب کو پاکستان بلانے کے حق میں بہرحال نہیں ہوں۔