ٹی ٹی پی کا نیاجنم۔۔ کیوں اور کیسے؟

اسلام آباد میں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے خودکش حملے کے بعد اب اس بات میںکوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ دہشت گردی کی آگ صرف پختونخوا تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اگر حکومت اور ریاستی اداروں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو خدانخواستہ ہمیں 2014 جیسے مناظر دوبارہ دیکھنے کو ملیں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے افغان اور پاکستانی طالبان سے متعلق مفروضوں اور خواہشات پر مبنی ایک پالیسی بنائی تھی اور پھر ریاستی مشینری کو بروئے کار لاکر دائیں بازوں کی جماعتوں ، پی ٹی آئی اور دفاعی تجزیہ کاروں کے ذریعے اس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ ہر پاکستانی اس مفروضے پر یقین کرنے لگا۔ وہ مفروضہ یہ تھا کہ افغان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔ ٹی ٹی پی کو ”را“ اور افغان انٹیلی جنس نے تخلیق کیا ہے ۔ کچھ لوگ اسے امریکہ کے کھاتے میں ڈال رہے تھے (حالانکہ ٹی ٹی پی کے تمام امرا امریکی ڈرون حملوں میں نشانہ بنے تھے) اور یہ کہ جب افغانستان میں ہمارے دوست طالبان کو کامیابی حاصل ہوگی تو ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کا خودبخود خاتمہ ہوجائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی کا جشن دنیا کے جس واحد ملک میں منایا گیا ، وہ پاکستان تھا۔اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ارشاد فرمایا کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں ۔ پاکستانی میڈیا اسی طرح جشن منانے کابل پر حملہ آور ہوا جس طرح کہ امریکی حملے کے بعد مغربی میڈیا وہاں فاتحانہ انداز میں جاپہنچا تھا۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کسی مسئلےکی روٹ کاز تلاش کرتے ہیں اور نہ اسے جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی کام ٹی ٹی پی کے سلسلے میں بھی ہوا۔ ملٹری آپریشنز کے ذریعے ٹی ٹی پی کو وقتی طور پر دبایا گیا تھا یا پھر افغانستان دھکیل دیا گیا تھا لیکن یہاں یہ فقرہ تکیہ کلام بنا دیا گیا کہ ہم نے ”دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے“ حالانکہ کمر تو کیا ٹانگ بھی نہیں توڑی تھی۔ ٹی ٹی پی کو اصل نقصان امریکی ڈرونز نے پہنچایا تھا اور ان کی لیڈرشپ میں سے کسی ایک کو بھی ملٹری آپریشنز کے دوران نشانہ نہیں بنایا جاسکا۔مولانا نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور مولانا فضل اللہ، سب کے سب ڈرون حملوں میں نشانہ بنے ۔ فضا میں ڈرونز ہی کی موجودگی کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی قیادت کا آپس میں رابطہ اور اکٹھا ہونا مشکل ہوگیا تھا لیکن امریکی انخلا کے بعد ڈرون کا خطرہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔سوال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ٹی ٹی پی دوبارہ اتنی قوت کے ساتھ کہاں سے اور کیسے نمودار ہوئی؟ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں ۔

(۱) افغان اور پاکستانی طالبان ایک جیسے عقائد اور نظریات کے حامل ہیں۔ ان کے جہاد و قتال کے تصورات ایک ہیں۔ پاکستانی طالبان نے بندوق ،افغان طالبان کی حمایت یا اقتدا میں اٹھائی ۔ ان کے اکابر کو اپنے اکابر اور ان کے امیرالمومنین کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ طالبان نے مسلح جدوجہد کے ذریعے امریکہ اور نیٹو جیسی طاقتوں کو شکست دے دی تو فطری طور پر پاکستانی طالبان اور دیگر مذہبی عسکری طاقتوں کا مورال بھی بلند ہوگیا۔(۲)گزشتہ سالوں کے دوران تحریک طالبان پاکستان کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی ۔عبدالولی عرف خالد خراسانی کی قیادت میں جماعت الاحرار کے نام سے انہوں نے الگ گروپ بنایا تھا ۔ حافظ سعید (کرم ایجنسی والا) وغیرہ داعش میں چلے گئے تھےوغیرہ وغیرہ ۔ مفتی نور ولی چونکہ قبائلی محسود بھی ہیں اور پڑھے لکھے سمجھدار مفتی بھی ہیں، اسلئے ان کے امیر بن جانے کے بعد انہوں نے نہ صرف تمام دھڑوں کو دوبارہ متحدہ کیا بلکہ کئی نئے گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل کرادئیے۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور ابھی کل ہی مزار بلوچ کی قیادت میں بلوچستان کے مکران سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ نے ٹی ٹی پی کا حصہ بن کر مفتی نور ولی کی بیعت کی ہے۔دوسری طرف عمران خان کی پوری حکومت میں اس ایشو کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جبکہ موجودہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں بھی یہ ایشو بہت پیچھے رہا۔ حالانکہ گزشتہ سال کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ ٹی ٹی پی نے پختونخوا میں کوئی نہ کوئی کارروائی نہ کی ہو۔

(۳)ہمارے پالیسی سازوں اور مفروضہ ساز تجزیہ کاروں نے پاکستانیوں کو یہ باور کرایا تھا کہ ٹی ٹی پی کو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ چار ہزار کے قریب ٹی ٹی پی کے کارکن جن میں باجوڑ کے مولوی فقیر محمد جیسے اہم رہنما بھی شامل تھے، افغان جیلوں میں بند تھے اور جب افغان طالبان نے وہاں کی جیلیں توڑ دیں تو یہ لوگ بھی رہا ہوکر دوبارہ ٹی ٹی پی کی صفوں میں شامل ہوکر فعال ہوگئے۔

(۴) گزشتہ سالوں کے دوران پاکستانی طالبان کونڑ، نورستان، پکتیا ،ننگرہار اور خوست صوبوں کے غاروں اور پہاڑوں میں پناہ لئے ہوئے تھے لیکن طالبان کی فتح کی صورت میں انہیں پورا افغانستان میسر آگیا،وہ اکٹھے بیٹھے ۔ اب وہ آسانی اور آزادی کے ساتھ آپس میں بیٹھ کر مشاورت اور منصوبہ بندی کرسکتے ہیں جبکہ اب قبائلی اضلاع اور سوات جیسے علاقوں میں بھی بڑی تعداد میں منتقل ہوگئے ہیں۔

(۵) پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹی ٹی پی کے کارکن یا ہمدرد سلیپر سیلز کی صورت میں موجود تھے لیکن قیادت کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ خاموش بیٹھے تھے ۔ افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد وہ بھی اٹھ کر افغانستان منتقل ہوئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ دوبارہ فعال ہوگئے۔

(۶)امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کے وسائل میں بھی بہت اضافہ ہوگیا اور امریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید ترین ہتھیار بھی ان کےہاتھ لگ گئے کیونکہ جن جن علاقوں میں ٹی ٹی پی موجود تھی یا مزاحمت کررہی تھی، وہاں کا مال غنیمت ٹی ٹی پی کے حصے میں آیا۔

افغانستان سے امریکی انخلا اور وہاں پر طالبان کی امارات اسلامی کے آغازکے بعد ٹی ٹی پی کا معاملہ نہایت تدبر اور حکمت کا تقاضا کررہا تھا لیکن عمران خان کی حکومت میں بہت عجلت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے لیول پر ٹی ٹی پی سے براہ راست مذاکرات کئے گئے جن میں ان سے ایسے وعدے کئے گئے جنہیں پورا کرنا ناممکن تھا ۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی المیہ یہ رہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ پشاور کے کور کمانڈر اور پختونخوا حکومت کے سپرد رہا اور وفاقی حکومت اس حوالے سے تماشہ دیکھتی رہی۔ اب بھی اس معاملے میں وزیراعظم، وزیرخارجہ اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ جیسی حکومتی شخصیات اور صوبائی حکومت کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ۔تازہ ترین مثال بنوں میں سی ٹی ڈی سینٹر کی ہے۔ وہاں سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور کئی دیگر قیدی یرغمال تھے ۔ مختصر یہ کہ ہمارے حکمران اور سیاسی طبقات اس معاملے کو بہت ہلکا لے رہے ہیں بلکہ اسے صرف لااینڈآرڈر کا مسئلہ سمجھ کر فوج اورپولیس کے سپرد کررکھا ہے لیکن میرے نزدیک یہ مسئلہ نہایت گمبھیر ہے جو بھرپور سیاسی اور سفارتی کوششوں اور مختلف حکومتوں اور اداروں کے مابین ہم آہنگی لانے کا تقاضا کرتاہے۔