مداری اور جیب کترے

عوام کو لگتا ہے کہ ہم لوگوں کا کام صرف مایوسی پھیلانا ہے۔
حقائق ہمیشہ کسی بھی انسان کو مایوس کرتے ہیں۔ حقائق ہوتے ہی تلخ ہیں اور زندگی تلخیوں سے بھری ہوئی۔ ہر انسان کچھ لمحوں کے لیے ان تلخیوں سے فرار چاہتا ہے‘ وہ ذہن کو سکون دینا چاہتا ہے تاکہ زندگی سے لڑ سکے۔ اسی لیے فلمیں بنائی جاتی ہیں‘ ڈرامے لکھے جاتے ہیں جو انسان کو ایک ایسی خیالی دنیا میں لے جاتے ہیں جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا۔ یہ فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کے بعد لوگ خود کو ہیرو کی جگہ پررکھ کر دیکھتے ہیں جو حقیقت میں ان کی دسترس میں نہیں ہوتی۔ دو‘ تین گھنٹے کی فلم میں وہ ایک ایسی دنیا کی سیر کر لیتے ہیں جس کا سوچ سوچ کر وہ اگلا ایک مہینہ گزار لیتے ہیں اور پھر ایک مہینے بعد دوبارہ وہ ڈوز لینے سینما پہنچ جاتے ہیں۔
انسان بنیادی طور پر امید پر زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اگر امید نہ ہوتی تو انسان کب کا ختم ہو جاتا۔ اس لیے وہ لوگ زیادہ کامیاب ہیں جو دوسروں کو امید دلاتے رہتے ہیں۔ یہی کام موٹیویشنل سپیکرز بھی کرتے ہیں کہ لوگوں کو امید دلائی جائے‘ ان کا حوصلہ بڑھایا جائے کہ وہ بھی سب کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر وقت انسان کو صرف امید ہی دلائی جاتی رہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا‘ وہ پریشان نہ ہو۔ چلیں کچھ دن تو یہ سب چل جائے گا لیکن جب وہ انسان دوبارہ اُنہی مسائل سے دوچار ہوگا تو پھر وہی مایوسی اور ناامیدی اسے گھیر لے گی۔ ہر انسان ہر روز زندگی اور اپنے ساتھ کئی لڑائیاں لڑتا ہے لیکن کیا کریں جب آپ کے ذمے کچھ لکھنے لکھانے کا کام ہو تو پھر آپ ایسا کیا کر سکتے ہیں کہ لوگ ان لیڈروں سے امید لگا سکیں جو بڑے فراڈیے ہوں یا جن کا کام جھوٹ پر چلتا ہو یا جو لوگوں کو بڑے بڑے خواب دکھا کر پیچھے لگا لیتے ہوں؟ میں بہت سارے لکھاریوں اور صحافیوں کو جانتا ہوں جو اب یہی کام کر رہے ہیں یعنی وہ فراڈیوں کے دکھائے گئے خواب کو حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں اور عوام انہیں مسیحا سمجھ کر کسی ایسے کرشمے کے انتظار میں ہیں جو کبھی نہیں ہونا۔
ایک دوست لکھاری اور اینکر سے پوچھا تو اس نے ہنس کر کہا: کیا کریں‘ لوگ خواب خریدتے ہیں وہ زندگی کے حقائق سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ایک دفعہ کوشش کی تھی کہ انہیں حقیقت دکھائی جائے تو لوگ ناراض ہو گئے۔ وہ خوابوں کے سوداگروں کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ اگر آپ ان کے سامنے حقائق لائیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگے: یہ سب ڈیمانڈ اور سپلائی کا کھیل ہے۔ لوگ جھوٹ پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں تو انہیں وہی پڑھائیں اور سنائیں۔ زیادہ سیانا بننے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ اپنے لیڈروں کی پوجا کرتے ہیں‘ ان سے عقیدت رکھتے ہیں تو انہیں مزید پکا مرید بنائیں۔ وہ آپ کو داد دیں گے۔ آپ ان سے تعریفیں کرائیں‘ ٹویٹس اور ری ٹویٹس کرائیں‘ ریٹنگز بڑھائیں۔
میں نے پوچھا پھر اگر وہ لیڈر اُن کی توقعات پر پورا نہیں اترتا تو پھر کیا کریں گے آپ؟ وہ ہنس کر بولے: یہ کون سا مشکل کام ہے۔ جب لوگوں کو اس پر غصہ ہوگا تو پھر ہم لوگوں کا ساتھ دیں گے۔ جب لوگ ڈیمانڈ کریں گے کہ ان کے سابقہ محبوب لیڈر پر تبرا کیا جائے تو پھر تبرا کیا جائے گا اور دوبارہ لوگوں سے واہ واہ کرائی جائے گی۔ ہم نے کسی صورت خود کو عوام میں اَن پاپولر نہیں کرنا۔ اپنی ریڈر شپ اور ریٹنگز کم نہیں کرنی۔ ہمیں کیا پڑی ہے کہ لوگوں میں عقل بانٹتے پھریں۔ لوگ خود اپنی عقل استعمال نہیں کر سکتے تو ہم کیوں اپنا دماغ خراب کریں۔ میں حیرانی سے اس دوست کی باتیں سنتا رہا۔
مجھے خاموش دیکھ کر بولا: کتنی دفعہ ہم نے حقائق لکھے اور عوام کو ان کے لیڈروں بارے بتایا‘ انہیں ایکسپوز کیا تو عوام الٹا ہمارے گلے پڑ گئے۔ میں نے کہا: کیا ایک صحافی یا کالم نگار یا اینکر کو پاپولر جرنلزم کرنا چاہیے تاکہ لوگ تالیاں بجائیں اور داد دیں؟ ہم صحافیوں نے الیکشن لڑنے یا ووٹ لینے ہیں کہ وہی بات کریں جو لوگ سننا چاہتے ہیں؟ صحافت تو مشکل اور تکلیف دہ باتیں کرنے ہی کا نام ہے۔ بڑے بڑے لوگوں‘ مافیاز اور حکومتوں کو ایکسپوز کرنے کا نام ہے۔ لوگوں کے دلوں میں قائم انسانی بتوں کو توڑنے کا نام ہے۔ صحافت تو پاپولر ازم سے بہت دور ہے۔
وہ بولے: اب یہ باتیں پرانی ہو گئی ہیں۔ اب سارا کام سوشل میڈیا کے ہاتھ آگیا ہے۔ اب سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے بندے بھرتی کر لیے ہیں جو سارا دن اِن کالم نگاروں‘ صحافیوں اور اینکرز کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور اب ڈر کے مارے اپنی عزت بچانے کیلئے صحافی ان کے محتاج ہو گئے ہیں۔ اگر گالیوں سے بچنا ہے تو پھر ان کے لیڈر کو مہاتما بنا کر پیش کرو۔ وہ بولے: ابھی کسی وقت جا کر دیکھ لو‘ بڑے بڑے اینکرز اور صحافی اب سیدھے ہوگئے ہیں۔ وہ اب وہی بات کہتے ہیں جو سوشل میڈیا سننا چاہتا ہے۔ وہ گالی سے ڈرتے ہیں۔ اس سب کا یہی مقصد تھا کہ سچ لکھنے والوں کو اتنا ڈرا دو کہ کوئی بھی تحریر لکھتے یا بولتے وقت ان کے ذہن میں لوگوں کی گالیاں ہونی چاہئیں۔ ان کا اعتماد ختم کر دو کہ یہ ایک لفظ تک بھی سوچ یا بول نہ پائیں۔ ان کی سوچ کو ریٹنگز کا غلام بنا دو۔ تو یہ صحافت تو نہ ہوئی۔
وہ کہنے لگے: اب حالیہ سیلاب ہی دیکھ لیں کہ لاکھوں لوگ دربدر ہوئے‘ برباد ہوئے اور اب سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ آپ کو یہ لوگ جو ان سے ووٹ لیتے ہیں وہ نظر آرہے ہیں؟ یہی عوام ان کو ووٹ دے کر اپنا حکمران بناتے ہیں‘ آج جب عوام کو ان کی ضرورت ہے تو وہ غائب ہیں۔ ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کو علم ہے یہ عوام جب ناراض ہوں گے تو کسی اور کو ووٹ دے کر ناراضی کا اظہار کریں گے اور پانچ سال بعد اُسے گالیاں دے کر ہمیں ووٹ ڈالیں گے۔ پھر لیڈرز جانتے ہیں کہ ان لوگوں کو ان کے مسائل سے ہٹ کر بڑے خواب دکھاؤ‘ وہ اس میں خوش رہیں گے اور خواب ایسا ہونا چاہیے جو اگلے ہزار سال تک پورا نہ ہو لیکن ان کو یہ لگتا رہے کہ بس کل پرسوں کی تو بات ہے اور اس لیڈر نے انہیں چاند پر پہنچا دینا ہے۔ ابھی دیکھ لیں‘ آدھے سے زیادہ ملک ڈوب گیا ہے لیکن کسی کو پروا نہیں۔ عوام کو ہی نہیں ہے تو حکمران کیوں کریں؟ ابھی پنجاب حکومت کو دیکھ لیں‘ ایک خبر کے مطابق تیس کروڑ روپے کی چالیس نئی گاڑیاں وزیراعلیٰ آفس اور وزیروں کیلئے لی جارہی ہیں۔ اس وقت دنیا بھر سے جہاز امدادی سامان لے کر روزانہ پاکستان اتر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک سیلاب زدگان سے ملنے خود پاکستان آن پہنچے۔ اور تو اور امریکن سینٹرز بھی پاکستان کے حق میں تحریک چلا رہے ہیں کہ پاکستان کو فوراً امداد دیں۔ عالمی سطح پر بات ہورہی ہے کہ پاکستان کے غیرملکی قرضے معاف کردیں کیونکہ ملک سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔ نورالہدیٰ شاہ کا فیس بک پر سٹیٹس پڑھ کر دل دکھ سے بھر گیا کہ کیسے سیلاب سے متاثرہ خواتین کو کپڑوں کی ضرورت ہے۔ ملتان سے ڈاکٹر زری اشرف صاحبہ کا سٹیٹس پڑھتا ہوں تو دل ڈوب جاتا ہے کہ انہوں نے راجن پور‘ ڈیرہ اور تونسہ کے علاقوں میں جا کر جو کیمپ لگائے وہاں خواتین بچوں کی کیا حالت ہے لیکن آپ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی دیکھیں کہ اس وقت جب ایک ایک روپیہ چندہ مانگا جارہا ہے اور عام لوگ ان مصیبت کے مارے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں‘ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو اپنے دفتر اور وزیروں کے لیے تیس کروڑ روپے کی نئی گاڑیوں کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
مجال ہے کسی کونے سے کوئی احتجاج کی آواز بلند ہوئی ہو۔ عوام کو ایسے ہی حکمران سوٹ کرتے ہیں جو ان کے لاشوں پر سیاست کریں‘ انہیں روز خواب دکھائیں اور پھر چپکے سے ان کی جیب کاٹ لیں۔ یہ عوام انہی مداریوں اور جیب کتروں سے ہی خوش رہتے ہیں۔