آسٹریلیا کی پہلی موبائل ٹیلی سکوپ بنانے والے پاکستانی ڈاکٹر، جن کی نگاہیں اب مریخ پر ہیں

آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ سے تقریباً 600 کلومیٹر دور ایک دور افتادہ قصبے انڈاموکا میں رات کی تاریکی ہے اور ایک کیمپنگ گراؤنڈ میں متعدد افراد ایک ایسے ٹرالے کے گرد جمع ہیں جس پر ایک پلاسٹک کی ٹینکی نما چیز نصب ہے۔

یہ اگست سنہ 2016 کی بات ہے اور ان افراد کی رہنمائی کرنے والے کراچی کے رہائشی ڈاکٹر اکبر حسین ہیں۔

یہ ٹینکی نما چیز دراصل پلاسٹک کا ایک گنبد ہے جس میں ایک ہیوی ڈیوٹی 11 انچ ڈایامیٹر کی ٹیلی سکوپ نصب ہے اور یہاں موجود لوگ اس کے ذریعے سیاروں کا قریب سے نظارہ کر پا رہے ہیں۔

یہ ’سدرن کراس آؤٹریچ آبزرویٹری پراجیکٹ‘ کی لانچ کا دن تھا جو آسٹریلیا کی پہلی موبائل رصد گاہ ہے۔

اسے آسٹریلیا میں ایسے علاقوں میں لوگوں کو مختلف سیاروں کا نظارہ کروانے کے لیے بنایا گیا تھا جہاں آسمان تو بہت صاف ہے لیکن لوگوں کے پاس ٹیلی سکوپس نہیں۔

اکبر حسین دراصل ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور وہ ایڈیلیڈ کے مضافاتی علاقے کے ایک ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ ان سے ہماری ملاقات گذشتہ ماہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی کوریج کے دوران ہوئی۔

کسی بھی انجینیئر کا یہ خواب ہوتا ہے کہ اس کے اپنے ڈیزائن کا ایک انٹرنیشنل پیٹنٹ اس کے پاس موجود ہو، تاہم ڈاکٹر اکبر اور ان کی ٹیم کے پاس خلائی انجینیئرنگ سے منسلک ایک نہیں دو ایسے پیٹنٹ موجود ہیں۔

تو ایک پاکستانی ڈاکٹر جس نے باقاعدہ انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل بھی نہیں کی، اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہو سکا؟

اپنے گھر کے باہر کھڑی اسی رصدگاہ میں بیٹھ کر آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں ڈاکٹر اکبر حسین نے بی بی سی سے بات کی اور علمِ فلکیات سے اپنی بے پناہ دلچسپی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بھی بتایا۔

بھائیوں نے ٹیلی سکوپ خود بنانے کی ٹھانی

اکبر حسین 90 کی دہائی میں جب کراچی میں بڑے ہو رہے تھے تو علمِ فلکیات سے متعلق مزید جاننے اور سیاروں کا مشاہدہ کرنے کا جنون ان کے سر پر سوار تھا اور اس میں ان کے بھائی مہدی حسین بھی شریک تھے۔

اکبر حسین بتاتے ہیں کہ ’کراچی کا آسمان بہت خراب ہے اور بہت آسانی سے وہاں ستارے بھی نہیں دیکھ سکتے اور ٹیلی سکوپ تو درکنار اس زمانے میں تو آپ کو لینز بھی نہیں ملتے تھے۔‘

اسی چیز کو اکبر اور مہدی نے اپنے فائدے میں استعمال کرتے ہوئے خود سے ٹیلی سکوپ ڈیزائن کرنے کی ٹھانی۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے چشمے کے عدسوں اور مائیکروسکوپ کے آئی پیسز کے ذریعے ٹیلی سکوپ بنائی اور وہ بن گئی۔ ہمیں ڈر نہیں تھا کہ یہ ناکام ہو جائے گا کیونکہ جب آپ یہ کام کرتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ آیا یہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب آپ ٹیلی سکوپ سے چاند کے گڑھے اور زحل (سیٹرن) کے رنگز دیکھتے ہیں تو پھر وہ چیز رکتی نہیں۔

’اس سے ہم بڑی سے بڑی ٹیلی سکوپ بناتے گئے اور پھر سنہ 2013 کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں ہم نے پاکستان کی پہلی نجی ڈوم رصدگاہ کاسٹروڈوم تعمیر کی اور اس میں نصب کی گئی 12 اعشاریہ پانچ انچ کی ٹیلی سکوپ ہم نے خود بنائی تھی۔‘

آج اس میں موجود ٹیلی سکوپ کو تو اپ گریڈ کر دیا گیا ہے لیکن مہدی حسین کراچی ایسٹرونومی سوسائٹی کے صدر ہیں اور کاسٹروڈوم کے ڈائریکٹر بھی ہیں اور کراچی میں درجنوں نوجوانوں کے لیے یہ سوسائٹی علومِ فلکیات کے بارے میں مزید جاننے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

اس سب میں آسٹریلیا کہاں سے آیا؟

ڈاکٹر اکبر حسین کو اس شوق کے ساتھ ظاہر ہے اپنے کام پر بھی دھیان دینا تھا۔ وہ پہلے پانچ سال برطانیہ میں رہے جہاں ان کے لیے سب پریشان کن بات برطانیہ کا آسمان تھا جہاں آلودگی اور ہر وقت چھائے ہوئے بادلوں کے باعث وہ اپنا شوق پورا نہیں کر پا رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’آسٹریلیا آنے کی ایک بڑی وجہ یہاں کا صاف ستھرا آسمان بھی تھا اور پھر 2011 میں ہم آسٹریلیا آ گئے۔‘

انھوں نے آسٹریلیا آتے ہی ٹیلی سکوپ تو لے لی لیکن انھیں نوکری کے باعث ایک ریاست سے دوسری ریاست جانا ہوتا تھا جس کے باعث انھوں نے سوچا کہ اگر اتنا سفر بھی کرنا ہے تو کیوں نہ ایسی رصد گاہ بنائی جائے جو وہ اپنے ساتھ لے جا بھی سکیں۔

تاہم ایڈیلیڈ میں شفٹ ہونے کے بعد وہ یہیں مقیم ہو گئے اور اس کے بعد انھیں اس رصدگاہ کو کمیونٹی کے لیے استعمال کرنے کا خیال آیا۔

سنہ 2016 کے بعد سے تین سال میں یہ آبزرویٹری آسٹریلیا کی سڑکوں پر 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کر چکی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں جب آپ شہر سے باہر جاتے ہیں تو آسمان اتنا صاف شفاف ہے کہ ٹیلی سکوپ کے بغیر بھی آپ دیکھ کر کہتے ہیں واہ۔ اس سے پہلے تک میں نصف کرہ شمالی کے آسمان سے واقف تھا، جب یہاں آیا تو یہاں تو نصف کرہ جنوبی کا آسمان ہی مختلف تھا، تو میرے لیے تو یہ بھی انتہائی دلچسپی کی بات تھی۔‘

ڈاکٹر اکبر نے یہاں آتے ہی ایک آٹھ انچ کی ٹیلی سکوپ خریدی اور پھر خود بھی سیارے، کہکشائیں دیکھیں اور اپنے محلے والوں کو بھی دکھانے لگے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’کسی بھی چھوٹی ٹیلی سکوپ سے سب سے خوبصورت نظر آنے والا سیارہ زحل اور اس کے دائرے ہوتے ہیں۔ آپ نے یہ کتابوں میں دیکھی ہو گی، یا انٹرنیٹ پر دیکھیں گے لیکن جب آپ ٹیلی سکوپ سے دیکھتے ہیں تو وہ احساس آپ انٹرنیٹ سے حاصل نہیں کر سکتے۔‘

ڈاکٹر اکبر اس موبائل رصد گاہ کو آسٹریلیا کے کئی دور افتادہ علاقوں میں لے جا چکے ہیں، جہاں خصوصاً یہ بچوں اور نوجوانوں میں خاصی مقبول رہی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلی مرتبہ تو لوگ رصد گاہ میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ پھر وہ سیارہ مشتری کے طوفان، سیارہ زحل کے دائرے، چاند میں موجود گڑھے اور دیگر کہکشاؤں کو بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔‘

آسٹریلیا میں کووڈ سے متعلق سخت پابندیوں کے باعث یہ رصدگاہ گذشتہ چند سال سے ڈاکٹر اکبر کے گھر پر ہی کھڑی تھی جسے اب دوبارہ دور دراز علاقوں میں لے جایا جائے گا۔

جب اس رصد گاہ کو ایک طویل عرصے کے لیے گھر پر کھڑا کرنا پڑا تو ڈاکٹر اکبر نے سوچا کہ آیا اسے کسی اور کام کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنے شوق کے لیے ڈاکٹر اکبر کام اور گھریلو مصروفیات کے درمیان وقت نکال لیتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہیں تو انھوں نے ہنس کر جواب دیا ’تین گھنٹے سو کر۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب سب گھر والے سو جاتے ہیں تو میں پڑھائی کرنے کے لیے بیٹھ جاتا ہوں۔ میں اپنے لیے ایک مسئلہ سوچتا ہوں اور پھر اس کا حل نکالنے کے لیے کوشش کرنا شروع کرتا ہوں۔ اس کا انجینیئرنگ اور ریاضی کے ذریعے حل تلاش کرنے میں ہفتوں اور کبھی مہینوں لگ جاتے ہیں۔

’میں اپنا سب سے بڑا ناقد ہوں، اگر مجھے حل مل بھی جائے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ ضروری نہیں ہے ٹھیک ہو۔ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو ناکامی کے ڈر کو شکست دینی ہوتی ہے۔‘

تو ڈاکٹر اکبر نے اس رصد گاہ کی افادیت کے حوالے سے سوچتے ہوئے اس خلائی کچرے کے مسئلے کے توڑ کے طور پر استعمال کرنے کا سوچا اور اسے ’سدرن کراس آؤٹ بیک آبزرویٹریز پراجیکٹ‘ کا نام دیا۔

یہ آئیڈیا دراصل ایسی ہی موبائل رصدگاہوں کا نیٹ ورک بنانے کا ہے جس کے ذریعے خلا میں موجود کچرا جو سیٹلائٹس اور خلائی جہازوں کے لیے خطرناک تصور کیا جاتا ہے، کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

ڈاکٹر اکبر بتاتے ہیں کہ ’اس رصدگاہوں کے نیٹ ورک کے ذریعے ایک سے 10 سینٹی میٹر تک حجم کے خلائی کچرے کی مصدقہ نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ مستقبل میں ہم لیزر کے ذریعے اس کچرے کو ختم کر سکتے ہیں۔‘

یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ کسی بھی تیز رفتار سیٹلائٹ یا سپیس سٹیشن کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر اکبر حسین اور ان کی ٹیم کا یہ آئیڈیا اتنا مقبول ہوا کہ آسٹریلیا کے سنہ 2022 کے سپیس ایوارڈز میں ان کی کمپنی انوویٹر آف دی ایئر کیٹیگری میں فائنلسٹ رہی۔

ڈاکٹر اکبر کے مطابق آسٹریلوی حکومت اب بھی اس حوالے سے ان سے رابطے میں ہے اور وہ آئندہ آنے والے مہینوں میں اس بارے میں بڑے بریک تھرو کی امید رکھتے ہیں۔

مریخ ڈائنیمکس

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر اکبر حسین، ان کے بھائی اور چند دوستوں پر مشتمل ایک ٹیم ایک دوسرے سٹارٹ اپ پر بھی کام کر رہی ہے جس کا نام مریخ ڈائنیمکس ہے۔

اس سٹارٹ اپ کے ذریعے وہ مریخ پر آبادکاری کے حوالے سے پیش آنے والے ممکنہ مسائل کا حل انجینیئرنگ کے ذریعے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر اکبر اور ان کی ٹیم نے مریخ پر انسانوں کی آباد کاری کے حوالے تین چیزوں پر کام کیا ہے جن میں مریخ پر آبادکاری کی صورت میں وہاں کیا رہائشی انفراسٹرکچر موزوں رہے گا، وہاں توانائی کے ذرائع کیا ہوں گے اور مریخ پر موجود شعاعوں سے بچنے کے لیے بنائی جانے والی شیلڈ کیسے تعمیر کی جائے۔

ان تمام مسائل کے لیے انجینیئرنگ کے ذریعے جو حل ڈاکٹر اکبر اور ان کی ٹیم نے نکالے ان کے لیے امریکہ سے پیٹنٹ بھی حاصل کر لیے گئے ہیں اور اس حوالے سے وہ جلد فنڈنگ حاصل کر کے اس پر سنجیدگی سے کام شروع کر دیں گے۔

ڈاکٹر اکبر پاکستان میں علومِ فلکیات میں دلچسپی کے حوالے سے بھی خاصے پرجوش ہیں اور ان کے بھائی کراچی ایسٹرونومی سوسائٹی کے ٹوئرز باقاعدگی سے منعقد کرواتے ہیں۔

ڈاکٹر اکبر کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں پاکستان میں علومِ فلکیات کے حوالے سے بہت جوش و خروش ہے اور اس میں دلچسپی بھی روز بروز بڑھ رہی ہے لیکن حکومت تب ہی اس میں اپنا حصہ ڈالی جب ہم لابی کریں گے، اور اس کے لیے ابھی مزید محنت درکار ہے۔‘