پاکستانی مسٹر پوتن

علی زیدی کو اس حالت میں دیکھ کر دل دکھی ہوا۔ ان کی مشکلات دور کرنے کے لیے دعا مانگی۔دو‘ تین برس پہلے کی وہ شام یاد آئی جب وہ اینکر ماریہ میمن کے شو سے فارغ ہوئے تھے‘ میں اور ارشاد بھٹی بھی وہیں تھے۔ مجھے دیکھا تو قہقہہ لگا کر بولے: آپ ہمارے لاکھ سکینڈلز بنائیں‘ ہم کہیں نہیں جا رہے۔ ہم اب 2028ء تک حکومت کریں گے۔ میں ان لوگوں سے اب نہیں اُلجھتا جن کے خلاف میں سکینڈلز فائل کرتا ہوں۔ کبھی اُلجھ پڑتا تھا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ احساس ہوا کہ یہ کیا بیوقوفی ہے۔
ان دنوں میں نے تازہ تازہ جی آئی ڈی سی کا سکینڈل فائل کیا تھا جس کے تحت عمران خان نے اپنے قریبی ڈونرز اور بزنس مینوں کو ڈھائی سو ارب روپے معاف کر دیے تھے‘ جن میں زیادہ تر ان کے ATMs تھے۔ خیر اس سکینڈل کو بریک کرنے کے بعد معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور عدالت نے عمران خان کا فیصلہ غلط قرار دے کر ڈھائی سو ارب روپے ریکوری کا حکم دیا تھا۔ اس پر عمران خان ناراض ہوگئے تھے اور ناراضی اس حد تک پہنچی کہ مجھے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ میری بیوی میرا مذاق اڑاتی تھی کہ تم پاکستان میں واحد سیانے ہو جس نے قوم کے ڈھائی سو ارب روپے لٹیروں کے منہ سے نکلوائے اور بدلے میں انعام کے طور پر اپنی سات ڈیجٹ تنخواہ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہو اور اب بھانجوں‘ بھتیجوں سے کئی ماہ سے ادھار لے کر کام چلا رہے ہو۔ میں شرمندہ ہو جاتا کہ واقعی بڑا گناہ کر بیٹھا تھا۔ قوم اپنی اپنی مرضی کے لٹیروں کے ہاتھوں لٹ کر خوش تھی جبکہ میں ان کے لوٹے ڈھائی سو ارب روپے بچا کر اپنے تئیں بڑا تیر مار چکا تھا اور اب کئی ماہ سے بیروزگار بیٹھا زخم چاٹ رہا تھا۔
خیر بات GIDC سکینڈل تک نہیں رکی تھی بلکہ علی زیدی صاحب پر بھی چند سٹوریز فائل کی تھیں جن میں ان کے آئی ٹی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کے چند بڑے بڑے کارنامے شامل تھے۔ علی زیدی اسلام آباد میں اپنے اُسی دوست کے گھر رہتے تھے جسے بعد میں وہ وزیراعظم خان کے ساتھ چین لے گئے اور واپسی پر اس دوست کو پشاور میٹرو میں 84ملین ڈالرز کا کنٹریکٹ ملا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس دوست کے خلاف ایف آئی اے کے پاس مقدمہ چل رہا تھا۔ وہ سترہ کروڑ کا کنٹریکٹ تھا جو اس دوست نے سی ڈی اے کے ساتھ کیا اور اسے پورا نہ کر سکا تھا جس پر اُس کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا۔ جو بندہ سترہ کروڑ کا کنٹریکٹ پورا نہیں کر سکا تھا‘ اسے اب پشاور میں 84ملین ڈالرز کا کنٹریکٹ مل گیا تھا جبکہ اس کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ بھی چل رہا تھا۔ اب علی زیدی صاحب وہاں کھڑے مجھے اپنے تئیں چڑا رہے تھے کہ آپ کچھ بھی کر لیں‘ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اُن سب کا منصوبہ تھا کہ نومبر 2022ء میں فیض حمید آرمی چیف بنیں گے‘ اگلے سال 2023ء کے وسط میں جنرل الیکشن ہوں گے جو فیض حمید صاحب اُسی طرح جتوائیں گے جیسے انہوں نے باجوہ صاحب کے ساتھ مل کر 2018ء کا الیکشن جتوایا تھا۔ بدلے میں انعام کے طور پر باجوہ صاحب کو توسیع دی گئی جبکہ ان کے بعد فیض حمید نے آرمی چیف بننا تھا۔ عمران خان کے ایک اور گرویدہ جنرل نے ڈی جی آئی ایس آئی بننا تھا اور کام وہیں سے شروع کرنا تھا جہاں سے چھوڑ کر فیض حمید نے آرمی چیف بننا تھا۔ ایک دوست کہتا تھا کہ فیض حمید صاحب میں وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو انہیں پاکستان کا پوتن بنا دیں گی۔ عمران خان اگلے الیکشن سے پہلے قانون میں تبدیلی یا ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام کی بنیاد رکھیں گے اور ترکی کے طیب اردوان کی طرح صدر بن کر مرضی کی حکمرانی کر کے پورے ملک کو سیدھا کر دیں گے۔
اُن دنوں عمران خان ہر طرف صدارتی نظام کے حق میں تقریریں کرتے پائے جاتے تھے اور اس کے فوائد قوم کو بتاتے تھے۔ وہ پاور میں تو پارلیمانی نظام کی بدولت آئے تھے لیکن انہیں طیب اردوان بطور رول ماڈل اچھا لگتا تھا۔ طیب اردوان نے بھی تین دفعہ وزیراعظم بن کر سوچا تھا کہ چھوڑو یار‘ وزاتِ عظمیٰ بھی کوئی عہدہ ہے‘ بندہ بنے تو صدر بنے اور روس کے صدر پوتن کی طرح آہنی ہاتھوں سے اپنے مخالفین سے نمٹے۔ طیب اردوان کے رول ماڈل پوتن تھے اور صدر بنتے ہی انہوں نے پوتن کی طرح اپنے مخالفین کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ یوں عمران خان کو بھی وہی شوق چرایا کہ انہیں بھی پوتن اور طیب اردوان کی طرح وزیراعظم کے بجائے صدر بننا چاہیے۔ وزیراعظم کی نوکری بھی کوئی نوکری ہے جہاں آپ کو پوری پارلیمنٹ کو جواب دینا پڑتا ہے۔ آپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے آپ کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی باتیں سنیں‘ صدر بن کر جہاں آپ کے پاس بہت اختیارات آجاتے ہیں وہیں آپ کو اتنی جلدی صدر کی کرسی سے نہیں ہٹایا جا سکتا جیسے وزیراعظم کو ہٹا سکتے ہیں۔ انہیں بھی طاقتور صدر بننا تھا اور اس گیم کے لیے وہ خود کو عرصے سے تیار کر رہے تھے۔ اس پورے کھیل میں فیض حمید صاحب کا کلیدی کردار ہونا تھا‘ جسے میرے دوست مسٹر پوتن کہتے تھے۔ میں ان دوستوں کو خوش دیکھ کر کہتا تھا کہ ذرا پڑھ لیں مسٹر پوتن کون ہیں اور ان کا شغل کیا ہے‘ خصوصاً میڈیا اور مخالفین کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں۔ آپ جو فیض حمید کو عمران خان کا پوتن بنا کر ابھی سے چسکے لے رہے ہیں‘ کل یہی چوک میں کوڑے مروائیں گے۔ خیر علی زیدی ان دنوں مقتدر حلقوں کے بڑے قریب بلکہ لاڈلے تھے۔ ان کے خلاف میرے ایک اور دوست نے امریکہ سے چند خطرناک دستاویزات ڈالرز خرچ کرکے نکلوائی تھیں۔ جب وہ خبر علی زیدی تک پہنچی تو انہوں نے ایک شادی میں موجود ایک جنرل صاحب سے اس رپورٹر کو سفارش کرائی کہ جانے دو یار۔
ان دنوں اگر یاد ہو تو جنرل باجوہ بھی آرمی ہاؤس میں رات کو اینکرز کو بلا کر دھمکیاں دیتے تھے کہ اگر وہ عمران خان کے خلاف تنقید کرنے سے باز نہ آئے اور مسائل پیدا کرنا بند نہ کیے تو پھر انہوں نے پانچ ہزار ایسے لوگوں کی فہرست بنا رکھی ہے جنہیں ختم کرکے ملک کو ترقی یافتہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے صحافی دوست محمد مالک‘ جو اس ملاقات میں موجود تھے‘ کچھ بولے تو باجوہ صاحب نے کہا: آپ صحافیوں کے نام بھی اس میں ڈالے جا سکتے ہیں (محمد مالک نے خود اس بات کی تصدیق کی)۔ اس وقت کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے بھی ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ پانچ ہزار بندے مار دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سب باتیں اس وقت کھلے عام ہو رہی تھیں جب عمران خان وزیراعظم تھے۔ یہ خون ریزی اور قتلِ عام کی دھمکیاں ٹی وی پر دی جارہی تھیں اور باجوہ صاحب صحافیوں کے سامنے اس فہرست کی موجودگی کی تصدیق کرکے انہیں ڈرا رہے تھے۔ اس طرح کی ایک فہرست‘ کہا جاتا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز نے بھی نواز شریف کے پہلے دور میں تیار کی تھی لیکن زندگی نے مہلت نہ دی۔ اگرچہ کچھ لوگ جنرل آصف کی اس فہرست کی بات کو درست نہیں مانتے لیکن اس دور میں بھی یہ بات عام تھی۔
جنرل آصف نواز ہوں یا جنرل باجوہ‘ وہ اپنی اپنی پانچ ہزار لوگوں کی فہرست ساتھ لے گئے۔ عمران خان طیب اردوان کی طرح صدر نہ بن سکے جو روس‘ سعودی یا چینی انداز میں پاکستان میں سب کو پھانسیاں لگاتے۔ فیض حمید صاحب پوتن نہ بن سکے جبکہ ہمارے دوست علی زیدی 2028ء تک حکومت نہ کر سکے اور آج انہیں قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی ہیں۔
حضرت علیؓ کا قول یاد آیا کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ ایک سکیم یا پلاننگ تکبر اور غرور اور طاقت کے نشے میں ڈوبے انسان زمین پر بناتے ہیں جبکہ ایک سکیم خدا آسمانوں پر بیٹھ کر بناتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں آخری فیصلہ یا رضا کس کی چلتی ہے۔