پاکستانی قرضوں میں کمی اور میراثی کی ادائیگی

میں 1999ء سے لے کر 2018ء تک سوائے گزشتہ چار سال کے‘ مسلسل برطانیہ میں آتا رہا ہوں۔ مسلسل بھی ایسا کہ سال میں کبھی دو بار اور کبھی کبھار تو تین بار بھی ادھر آتا رہا ہوں۔ 2019ء کے بعد کورونا اور اس کے سبب لگنے والی سفری پابندیوں کے باعث پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ تقریباً چار سال کے وقفے کے بعد برطانیہ آنا ہوا ہے۔ سفر سے مجھے کبھی بھی نہ تو الجھن ہوئی ہے اور نہ ہی تنگی‘ مگر یہ بات بھی طے ہے کہ سفر کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تھوڑی بہت تکلیف اور بے آرامی سفر کا لازمہ ہے لیکن اگر اس میں ذلت بھی شامل ہو جائے تو پھر سوائے اشد مجبوری کے سفر نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ تین سال سے قرنطینہ کے نام پر سفر میں جب ذلت شامل ہوئی تو میں نے اس قسم کے سفر سے ہاتھ کھینچ لیا‘ میں تو سفر کے دوران مسافرت سے لطف لینے کی کوشش کرتا ہوں اور میرے لیے سفر کرنا دل لگانے کے مترادف ہے اور میں اس دوران کسی ایک شہر میں چار دن سے زیادہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا کجا کہ دس روز تک ہوٹل کے ایک کمرے میں اپنے پیسوں سے قید ہو کر بیٹھا جائے۔
برطانیہ بھی ان ملکوں میں شامل تھا جہاں آمد کے بعد اپنے پلے سے ہوٹل میں دس روز کا قرنطینہ بھگتنا پڑتا تھا اور ان دس دنوں کے لیے برطانوی سرکار کے طے کردہ نرخوں پر ان کی مرضی کے ہوٹل میں ان کے مینیو کے مطابق دیا جانے والا کھانا زہر مار کرکے کھاتے ہوئے مبلغ 18سو برطانوی پاؤنڈ یعنی مبلغ چار لاکھ ارسٹھ ہزار روپے (بحساب دو سو ساٹھ روپے فی پاؤنڈ) اپنے پلے سے ادا کرکے دس دن کی قید بھگتی جاتی تھی۔ بھلا جس ملک میں کل سات آٹھ دن رہنا ہو اس میں پہلے دس دن ایک کمرے میں بند ہو کر گزارنے کی ذلت کون برداشت کرے؟ ویسے بھی اس سے آدھے پیسوں میں تو ہم نے آدھا ملک گھوم لینا تھا لہٰذا برطانیہ اور یورپ وغیرہ جانے سے تب تک توبہ کر لی جب تک حالات نارمل نہیں ہو جاتے۔ اس دوران امریکہ میں کسی قسم کا قرنطینہ یا کوئی اور پابندی نہیں تھی لہٰذا یہ مسافر ادھر جاتا رہا لیکن برطانیہ کی طرف ان تین برسوں میں منہ بھی نہیں کیا‘ اب حالات نارمل ہو گئے تو ادھر کا رخ کیا ہے۔
برطانیہ میں شروع کے دوچار چکروں کے بعد ہی خریداری کے بھید معلوم ہو گئے۔ سستے سٹور اور آؤٹ لیٹس کا علم ہو گیا۔ پاؤنڈ بھی پاکستانی روپے کے مقابلے میں اتنا بڑا پہلوان نہیں بنا تھا بعض جگہوں سے پانچ پاؤنڈ میں شاندار شرٹ اور سات آٹھ پاؤنڈ میں اعلیٰ نسل کی پینٹ مل جاتی تھی۔ اب کوئی اس پر یقین کرے یا نہ کرے۔ کئی بار تو ایسی دکانوں کی خبر مل جاتی جو بوجوہ بند ہو رہی ہوتی تھیں اور وہاں سے ایک پاؤنڈ میں شرٹ اور دو اڑھائی پاؤنڈ میں پینٹ مل جاتی تھی۔ تب پاؤنڈ ایک سو روپے کے لگ بھگ ہوتا تھا یعنی سو روپے میں شرت اور اڑھائی تین سو روپے میں پینٹ مل جاتی تھی‘ کیا مزے کے دن تھے۔ اس رقم میں اس کوالٹی کی پینٹ یا شرٹ تب پاکستان میں ملنا ناممکن ہوتی تھی؛ تاہم اس ناقابل یقین حد تک سستی خریداری کے سلسلے میں لوگوں کو گمان تھا کہ ہمارے پاس شاید نوٹ فالتو ہیں اور ہم انہیں برطانیہ جیسے مہنگے ملک میں برباد کرتے ہیں۔
آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ روپے کی قیمت گرتے گرتے تحت الثریٰ تک پہنچ گئی اور دوسری طرف برطانیہ میں بھی مہنگائی ہو گئی اور خریداری میں مزہ کم ہوتا گیا مگر اس بار تو حد ہی ہو گئی ہے۔ برطانیہ جانے سے پہلے جس روز منی ایکسچینج والوں سے روپے دے کربرطانوی پاؤنڈ لیے تو پاؤنڈ کی شرح تبادلہ دو سو اسی روپے تھی۔ خریدتے وقت ایک بار تو تکلیف ہوئی مگر پھر دل کو ڈھارس بندھوائی کہ اوکھلی میں سردیا ہے تو موصلوں کا خوف کیا کرنا مگر ابھی برطانیہ پہنچے چار دن ہی گزرے تھے کہ شرح تبادلہ گر کر دو سو چون پر چلی گئی۔ افسوس ہوا کہ بیٹھے بٹھائے باون ترپین ہزار روپے کی ڈانگ پڑ گئی ہے؛ تاہم اسی دوران اخبار کی ایک خبر پر نظر پڑی کہ ڈالر کی قیمت کم ہونے سے پاکستان کے غیرملکی قرضوں میں کئی سو ارب روپے کی کمی ہو گئی ہے یعنی نہ ہینگ لگی اور نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا چڑھ گیا ہے۔ ایک ٹکہ بھی ادا نہیں کیا اور بیٹھے بٹھائے ہمارے قرضوں میں سینکڑوں ارب روپے کی کمی ہو گئی ہے۔ آپ یقین کریں کہ یہ خبر پڑھتے ہی میرا اپنا باون ہزار کا نقصان بالکل غائب غُلہ ہو گیا اور نہ صرف یہ کہ مجھے اپنا نقصان بھول گیا بلکہ اس طرح بغیر ادائیگی قرض اترنے کا سن کر ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا ہے۔
ایک میراثی نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے چھ ماہ میں ادائیگی کے وعدے پر چودھری سے پچاس ہزار روپے قرض لیا۔ چھ ماہ گزر گئے تو چودھری میراثی کے پاس پہنچا اور اس سے قرض کی واپسی کا تقاضا کیا۔ میراثی نے جلد ہی رقم کا بندوبست کرکے ادائیگی کا وعدہ کیا اور چودھری صاحب کو چلتا کیا۔ دو تین ماہ تک صبر سے کام لینے کے باوجود میراثی کی طرف سے کوئی ہل جل دکھائی نہ دی تو چودھری دوبارہ میراثی کے گھر پہنچا اور اس بار اس سے سختی سے بات کی۔ میراثی نے چودھری کا غصہ دیکھا تو فوراً اس کے گھٹنے پکڑ لیے اور منت ترلے کرکے اس سے ادائیگی کے لیے مزید چھ ماہ کی مدت کا اضافہ کروا لیا۔
چھ ماہ بعد چودھری پھر اپنی رقم کی وصولی کے لیے میراثی کے گھر پہنچا تو اس نے آگے سے پھر وہی وعدے‘ وہی منتیں ترلے اور ادائیگی کے لیے مزید مہلت مانگنے کا ڈرامہ شروع کر دیا۔ اب تو چودھری کا صبر جواب دے گیا اور اس نے جوتا اتار کر میراثی کی ٹھکائی شروع کر دی۔ اردگرد کے ہمسائے اکٹھے ہو گئے اور آ کر میراثی کو چودھری سے چھڑوایا اور چودھری سے سفارش کرتے ہوئے کہا: چودھری صاحب یہ غریب آدمی ہے‘ مہنگائی بھی ہے اور اوپر سے روز گار بھی کوئی مستقل نہیں ہے۔ آپ اس پر ترس کھائیں اور قرض میں سے کچھ رقم معاف کر دیں‘ باقی یہ آپ کو قسطوں میں ادا کر دے گا۔ لوگوں نے کہہ کہلا کر دس ہزار روپے معاف کرا دیے۔ اب میراثی نے بقیہ چالیس ہزار جلد ادا کرنے کا وعدہ کیا اور چودھری واپس آ گیا۔ وعدے کے مطابق چودھری دوبارہ مقررہ تاریخ کو میراثی کے پاس پہنچا تو اس نے پھر پاؤں پکڑ کر منت ترلے شروع کر دیے۔ چودھری صاحب نے دوبارہ جوتا اتار کر اس کی ٹھکائی شروع کر دی‘ لوگ پھر اکٹھے ہو گئے‘ میراثی کو چودھری سے چھڑوایا اور دوبارہ چودھری کی منت کی کہ اس کی مالی حالت بہت خراب ہے‘ آج کل بالکل بے روز گار ہے‘ اس سے بھلا چالیس ہزار کہاں سے ادا ہو پائے گا‘ اس کو مزید کچھ پیسے چھوڑ دیے جائیں۔ لوگوں نے چودھری سے بمشکل دس ہزار مزید معاف کروا لیا۔ چودھری نے میراثی سے کہا: اب وہ ان تیس ہزار روپے کی ادائیگی کے لیے جھوٹے وعدے کرنے کے بجائے ایک بات کرے اور صاف بتائے کہ وہ یہ ادائیگی کب کرے گا۔ میراثی نے ہاتھ جوڑتے ہوئے عرض کی کہ چودھری صاحب آہستہ آہستہ میں رقم اتار ہی دوں گا۔ چودھری نے جھنجھلا کر میراثی سے کہا: اوئے میر! پکی گل کر‘ توں میرے پیسے کدوں لاہنویں گا؟ (تم پکی بات کرو کہ میرے پیسے کب اتارو گے؟)۔ میراثی گھگھیاتے ہوئے کہنے لگا کہ چودھری صاحب! مولا تہانوں خوش رکھے۔ لاہنداں تے پیا واں‘ ہور کیویں لاہنواں؟ پنجاہ ہزار وچوں ویہہ ہزار لاہ دتے نیں باقی تیہ ہزار وی اینویں ای لاہ دیاں گا۔ (مولا آپ کو خوش رکھے۔ اتار تو رہا ہوں۔ اور کس طرح اتاروں؟ پچاس ہزار میں سے بیس ہزار تو اتار دیے ہیں باقی تیس ہزار بھی اسی طرح اتار دوں گا)۔ ہم بھی اپنے غیر ملکی قرضے اگر اتار نہیں بھی رہے تو ڈالر کی شرحِ تبادلہ کے اوپر نیچے ہونے سے کم ضرور کر رہے ہیں۔ میراثی کا اپنا طریقہ تھا‘ ہمارا اپنا طریقہ ہے۔