سرکاری منصوبوں پر ذاتی تختیاں

اقتصادی طور پر بدحالی کے شکار اس ملک کو فی الوقت دو مسائل درپیش ہیں‘ ایک تو تقرری اور دوسرا مسئلہ توشہ خانے کی گھڑیوں کا ہے۔ کسی کو کوئی فکر نہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال کس طرح روز بروز پاتال میں گرتی جا رہی ہے مگر یار لوگوں کو ان چیزوں کی فکر لاحق ہے جن سے نہ ان کا کوئی تعلق ہے اور نہ واسطہ۔ شوکت گجر روزانہ صبح مجھ سے پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ کون آ رہا ہے؟ پہلے دو تین دن تو میں نے کہا کہ مجھے کیا خبر کہ کون آ رہا ہے مگر جب اس کا یہ سوال روزانہ کی روٹین ہی بن گیا تو میں نے جواباً اپنی حکمت تعمیل تبدیل کر لی اور اب اسے صاف جواب دے دیا ہے کہ میں نے ابھی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا‘ جب فیصلہ کروں گا تب بتا دوں گا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ بندہ اس سوال کا اور کیا جواب دے؟
صورتحال یہ ہے کہ ہر چوتھا دوست بیمار ہے‘ کسی کو ڈینگی نے آن گھیرا ہے اور کوئی کورونا کا شکار ہے۔ بلکہ اب ان دونوں وباؤں کا مشترکہ ایڈیشن بھی مارکیٹ میں آ چکا ہے‘ ڈینگی کی علامات بھی ہیں اور کورونا کی بھی‘ جہاں ایک طرف پلیٹ لیٹس کم ہوتے ہیں وہیں ذائقے کی اور سونگھنے کی حس بھی متاثر ہو رہی ہے یعنی Two in oneوالا معاملہ ہے اور مریضوں کی شرح خاصی زیادہ ہے لیکن کسی کو اب اس کی پروا ہی نہیں رہی کہ ہم لوگ مصائب‘ بیماریوں اور مسائل کے حل کے بجائے ان کے عادی ہو جانے پر یقین رکھتے ہیں اور ان چیزوں سے باہمی سمجھوتے کے تحت زندگی گزارنے لگ جاتے ہیں۔ یہی حال ڈینگی اور کورونا کا ہے۔ نہ سرکار کو ہی اب اس کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی ہم لوگوں کو اس سلسلے میں اب کوئی خوف لاحق ہے‘ لے دے کر قوم کو ایک تقرری کی فکر لاحق ہے اور فکر مندی میں ایسے ایسے لوگ شامل ہیں جن کا اس مسئلے پر دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
تاہم اس افراتفری اور پریشانی کی صورتحال میں بھی بعض لوگ چپکے چپکے اپنا کام کیے جا رہے ہیں‘ ملتان شہر میں سرکاری خرچے پر بننے والے پارکوں کے ناموں کا ٹھیکہ ہمارے دوست اور پی ٹی آئی کے ایم این اے نے اپنے خاندان کے نام پر الاٹ کروا لیا ہے۔ پہلے موصوف نے ایک پارک کا نام اپنے والد ملک صلاح الدین ڈوگر کے نام پر رکھ دیاپھر دل کی تسلی نہ ہوئی تو دوسراپارک اپنے مرحوم بھائی عمران ڈوگر کے نام پر رکھ لیا۔ پھر ان کو اپنے چچا مرحوم کی یاد نے آن گھیرا تو انہوں نے تیسرے پارک کا نام اپنے مرحوم چچا لیاقت ڈوگر کے نام پر رکھ دیا؛ تاہم یہ بڑی زیادتی ہوتی اگر ان کے دوسرے چچا اس صدقہ جاریہ سے محروم رہ جاتے‘ لہٰذا انہوں نے چوتھے پارک کا نام دوسرے چچا کے نام پر ملک شوکت ڈوگر پارک رکھ دیا ہے۔ یہ پارک میرے گھر سے پچیس تیس قدم کے فاصلے پر ہے اور اس پارک کے لیے زمین لابر فیملی نے گلشن مہر کالونی کی منظوری کے وقت ایم ڈی اے کو گلشن مہر پارک کے نام پر دی تھی۔موصوف نے ملتان شہر میں بننے والے ہر پارک پر ہونے والے سرکاری خرچے کے عوض اپنے سارے خاندان کے مرحومین کے نام پر پارک بنوا کر ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا ہے جس کو توڑنا کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی؛ لہٰذا اب انہوں نے اپنے ہی قائم کردہ اس ریکارڈ کو مزید بہتر اور مضبوط کرنے کی غرض سے شہر کے پانچویں پارک کا نام اپنے مرحوم دادا کے نام پر ملک عبداللہ ڈوگر پارک رکھ دیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ چھٹے پارک کا نام وہ یقینا اپنے پڑدادا مرحوم کے نام پر رکھیں گے۔ ظاہر ہے بزرگوں سے زیادہ ایسی چیزوں پر اور کس کا حق ہوتا ہے؟
یورپ اور امریکہ یا برطانیہ وغیرہ میں کسی رکن پارلیمنٹ وغیرہ کے ابا‘ اماں‘ بھائی‘ چچا یا دادا وغیرہ تو رہے ایک طرف‘ خود ان کے نام پر کسی پبلک بلڈنگ یا پارک وغیرہ کا نام رکھا ہوا نہیں دیکھا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا ہے کہ لوگوں نے پارکس میں‘ دریاؤں کے کنارے پر بنے ہوئے گرین ایریاز میں یا سڑک کنارے درختوں کے نیچے رکھے ہوئے بنچ اپنے کسی دوست‘ عزیز‘ رشتہ دار یا مرحوم والدین وغیرہ کی یاد میں رکھوائے ہوتے ہیں اور ان پر ان کے نام کی چھوٹی سی تختی لگی ہوتی ہے یا بینچ کی لکڑی پر کھود کر ان کا نام لکھا ہوتا ہے لیکن اس کیلئے انہوں نے سارا خرچہ اپنی ذاتی جیب سے کیا ہوتا ہے اور اسے اپنے کسی پیارے کے نام معنون کرتے ہوئے عوام کے ٹیکس کے پیسے استعمال نہیں کیے ہوتے‘ لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ویگن سٹینڈ بناتے ہوئے تو ہمارے شہر کے رکن قومی اسمبلی اپنی جیب خاص سے رقم خرچ کر کے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں جبکہ پارک بنواتے ہوئے ہمارے ٹیکس کے پیسوں کے زورپر ان پارکوں کا نام اپنے سارے خاندان کے نام پر رکھ لیتے ہیں۔ اگر وہ ان پارکوں پر اپنی جیب سے کچھ خرچ کر کے اس کا کریڈٹ اپنے بزرگوں کو دیتے تو اس عاجز کو اعتراض تو رہا ایک طرف الٹا خوشی ہوتی مگر اس طرف تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کا فاتحہ یہی ہوتا ہے اور صرف ڈوگروں اورپارکوں پرہی کیا پورے ملتان میں یہی حال ہے اور بھلا ملتان ہی پر کیا موقوف‘ سارے پاکستان میں یہی حال ہے۔ جدھر نظر دوڑائیں سرکاری منصوبوں پر مفت بر افراد کے ناموں کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ ادھر ملتان میں ایک عدد میاں نواز شریف زرعی یونیورسٹی تو ساتھ ہی میاں نوازشریف انجینئرنگ یونیورسٹی بھی پوری لش پش کے ساتھ موجود ہے۔ شہر میں ایک شہباز شریف جنرل ہسپتال ہے تو دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی موجود ہے۔ اس کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کی دیکھا دیکھی ڈیرہ غازی خان میں بننے والے کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کا نام نامی سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے اپنے والد سردار فتح محمد بزدار کے نام پر رکھ دیا تھا۔
ملتان میں کئی پرانے ادارے موجود ہیں جن کے نام شخصیات کے نام پر ہیں مگر ان کے نام جن شخصیات کے نام پررکھے گئے ہیں انہوں نے ان اداروں کے قیام کیلئے نہ صرف محنت کی بلکہ اس پر پلے سے پیسے بھی لگائے اور چندہ اکٹھا کرنے پر اپنی صلاحیتیں صرف کیں۔ ملتان میں ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج اور علمدار حسین اسلامیہ کالج اس کی واضح مثالیں ہیں‘ اس کے علاوہ گیلانیوں کی ہی قائم کردہ انجمن اسلامیہ نے شہر میں کئی پرائمری اور ہائی سکول قائم کئے جن میں اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ‘ اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ اور اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ شامل ہیں۔ ملتان میں قائم گیلانی لاء کالج کا سہرا بھی گیلانیوں کے سر جاتا ہے۔ ملتان میں مرحوم مرزا مسرت بیگ جیسے علم دوست لوگوں نے ملت سکول اور ملت کالج قائم کیا۔ اسی طرح رفاہِ عام ہائی سکول‘ نصرت الاسلام ہائی سکول‘ مسلم سکول اور دیگر تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور اس خطے میں تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار انجام دیا۔
ملک میں توشہ خانہ والا ڈرامہ پورے زور و شور سے جاری ہے اور یار لوگ اس بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ کس نے پچیس فیصد پر تحفے حاصل کیے اور کس ایماندار نے یہ تحفے پچاس فیصد ادائیگی کر کے حاصل کئے۔ کوئی اس بات کی تفصیل جاننے میں لگا ہوا ہے کہ کس تحفے کی قیمت اصل میں کتنی تھی اور قیمت لگانے والوں نے اس تحفے کی قیمت کتنی کم لگائی‘ لیکن ادھر یہ عالم ہے کہ یار لوگ ایک پیسہ پلے سے لگائے بغیر پورے پورے سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں‘ ہسپتال‘ سپورٹس کمپلیکس اور پارکس اپنے یا اپنے بزرگوں کے نام پر رکھ لیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام کے ٹیکس سے بننے والے منصوبوں پر اپنے ناموں کی تختی لگانا توشہ خانہ کی غتر بود سے کسی طور کم نہیں ہے۔