پولٹری بحران‘ جی ایم او ٹیکنالوجی اور اس کامستقبل … (1)

سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس حماقت سے بھرپور کہانی کا آغاز کہاں سے کروں؟ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ سارا شہرِ منصوبہ سازاں احمقوں سے بھرا پڑا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ سوچ‘ سمجھ اور عقل سے عاری یہ گروہ خود کو عقلمندی اور سمجھداری کے اس اعلیٰ درجے پر فائز سمجھتا ہے کہ افلاطون بھی آ جائے تو ان کی خود اعتمادی دیکھ کر پریشان ہو جائے۔ اگر جارحانہ پن عقلمندی اور سمجھداری کا نعم البدل ہوتا تو ہمارے وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ اس خطے کے سب سے عقلمند اور سمجھدار وزیر ہوتے مگر کیا کیا جائے کہ دانشمندوں نے طبیعت کی گرمی کو عقل کا متبادل نہیں بلکہ عقل کا دشمن قرار دیا ہے۔
اب یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمیں ایسے حکمران‘ وزیر اور مشیر ملتے ہیں جو ہماری مشکلات اور مسائل حل کرنے کے بجائے ہمیں ہماری مشکلات اور مسائل سے آنکھیں چرانے کا نادر مشورہ عطا کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔ ٹماٹر مہنگے ہو جائیں تو ہمارے حکمران ہمیں سالن میں دہی استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اب مرغی کے گوشت کی قیمتوں کی تاریخی بلندی پر کسی قسم کی شرمندگی محسوس کرنے‘ اس کا فوری حل نکالنے اور کوئی قدم اٹھانے کے بجائے ہمارے وفاقی وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ آپ لوگ مرغی کھانا بند کر دیں۔ کیا ہی مناسب تھا کہ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اس مناسب موقع پر جب اتفاق سے ملک میں آٹے کی قیمت بھی تاریخی طور پر بلند ترین سطح پر ہے‘ یہ اعلان بھی فرما دیتے کہ اتنا مہنگا آٹا استعمال کرتے ہوئے روٹی کھانا مناسب نہیں ہے لہٰذا قوم کچھ عرصے کے لیے روٹی کھانا چھوڑ دے تاکہ آٹا مافیا کو سبق سکھایا جا سکے۔ وزیر موصوف نے یہ بھی بتایا کہ وہ خود بھی مرغی کا گوشت استعمال نہیں کرتے۔ کیا عجب ہے کہ وہ روٹی بھی نہ کھاتے ہوں۔ آخر فرانس کی ملکہ میری بھی تو روٹی کے بجائے کیک کھاتی تھی اور عوام کو بھی اسی کا مشورہ دیتے ہوئے انقلابِ فرانس کی بنیاد کا باعث بن گئی تھی۔
مرغ کا گوشت‘ بلکہ زیادہ مناسب لفظوں میں برائلر مرغ کا گوشت صرف دو ماہ قبل اس ملک میں پروٹین حاصل کرنے کا سب سے سستا ذریعہ تھا لیکن دو ماہ میں اس کی قیمت ڈیڑھ گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے اور اگر حالات اسی ڈگر پر رہے اور ایک آدھ ماہ میں مرغ کا گوشت 800 روپے فی کلو گرام تک بھی پہنچ جائے تو مجھے حیرت نہیں ہو گی کیونکہ جب تک سویابین کے جہاز کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے کھڑے ہیں‘ ملک میں پولٹری اور فیڈ ملز مالکان اسے بہانہ بنا کر عوام کی جیبیں کاٹتے رہیں گے۔ اس قوم کو صرف بہانہ ملنے کی دیر ہے اور ہمارا ہر سٹیک ہولڈر اس کو بنیاد بنا کر اپنی لوٹ مار شروع کر دیتا ہے‘ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ اس بحران میں سارے سرمایہ کار بشمول فیڈ ملز مالکان‘ پولٹری فارم مالکان اور مڈل مین عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے پر لگ گئے ہیں اور اس افراتفری کے درمیان میں جعلی اور غیر معیاری فیڈ بنانے والے کود پڑے ہیں اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ حکومتی نالائقی اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے درمیان عوام پس رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ اس سارے بحران کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ پولٹری فیڈ کی دو بنیادی اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں فیڈ کا بنیادی جزو گندم اور سویا بین ہوتا ہے جبکہ دوسری قسم میں مکئی اور سویابین سے فیڈ تیار کی جاتی ہے۔ یورپ میں فیڈ کی پہلی قسم استعمال ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یورپ بشمول روس میں شدید سردی کی وجہ سے سال میں صرف گندم کی ایک فصل حاصل کی جاتی ہے اور روس‘ یوکرین‘ فرانس و جرمنی وغیرہ کی بنیادی فصل صرف گندم ہے۔ باقی یورپ میں دیگر فصلات کی ناقابلِ ذکر ٹائپ پیداوار ہوتی ہے۔ یورپ کو ہم زرعی خطہ کہہ ہی نہیں سکتے اور زرعی معاملات میں یورپ کو نہ مثال بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی پیروی کی جانی چاہیے مگر ہمارے ہاں جب بھی زرعی معاملات کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے‘ ہم یورپ کی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں جو کہ بالکل غیر متعلق اور تکنیکی طور پر غلط ہوتی ہیں۔
زرعی ممالک اور خطوں کی بات ہوگی تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ میکسیکو‘ جنوبی امریکہ کے ممالک برازیل‘ ارجنٹائن‘ چلی اور آسٹریلیا کے علاوہ ایشیا میں بھارت اور چین کی بات کی جائے گی۔ ان ممالک میں تیار ہونے والی پولٹری اور دوسری حیوانی خوراک کی تیاری میں بنیادی جزو گندم کے بجائے مکئی ہے اور پولٹری فیڈ میں مکئی کا پورشن ساٹھ سے پینسٹھ فیصد جبکہ سویا بین کا حصہ پچیس سے تیس فیصد تک ہے۔ یعنی گندم یا مکئی کے بعد دوسرا بڑا جزو سویابین ہے۔ ایک لاعلم دوست کہنے لگا کہ سویابین کی جگہ گندم یا مکئی کا استعمال زیادہ کیوں نہیں کر لیا جاتا؟ اس کا جواب بڑا سادہ ہے اور وہ یہ کہ گندم یا مکئی دونوں خوراک کی تیاری میں انرجی/ سٹارچ کا سورس ہیں لہٰذا وہ ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر تو استعمال ہو سکتے ہیں مگر سویابین کے متبادل نہیں ہو سکتے کیونکہ سویابین صرف پروٹین یعنی لحمیات فراہم کرتا ہے۔ سرسوں‘ بنولے‘ سورج مکھی یا دیگر تیل دار اجناس کی کھل سے پروٹین میل حاصل تو کیا جا سکتا ہے مگر اس کی مطلوبہ مقدار اور معیار ہی میسر نہیں۔ اس لیے فی الوقت ہمارے پاس سویابین کا کوئی مناسب اور طلب کے مطابق دوسرا متبادل موجود ہی نہیں۔
جناب طارق بشیر چیمہ نے اپنی شہرۂ آفاق پریس کانفرنس میں فرمایا کہ 2015ء سے قبل ملکی پولٹری فیڈ میں سویابین استعمال ہی نہیں ہوتا تھا۔ یہ دعویٰ بھی سراسر غلط اور گمراہ کن ہے۔ 2015ء سے قبل بھی سویابین پاکستان کی پولٹری فیڈ میں استعمال ہو رہا تھا اور تب سویابین تیل بھارت سے درآمد ہوتا تھا اور بھارت میں پیدا ہونے والے سویابین کی غالب پیداوار جی ایم او ہی تھی اور اب بھی بھارت میں تقریباً سارا سویابین جی ایم او ہے، بلکہ بھارت ہی کیا دنیا بھر میں کاشت ہونے والے سویابین کی اسی فیصد کے لگ بھگ پیداوار جی ایم او ہے اور فی الوقت ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے‘ وہ یہی ہے کہ کراچی میں رُکے ہوئے سویابین سے بھرے ہوئے جہازوں میں جو سویا بین آئی ہے‘ وہ جی ایم او ہے اور پاکستان میں جی ایم او کی حامل پیداوار‘ اناج اور فصل کی درآمد ممنوع ہے لہٰذا کراچی کی بندرگاہ پر رکے ہوئے بحری جہازوں میں لدی ہوئی سویابین پاکستان میں نہیں آ سکتی۔ حالیہ بحران کا سبب ان جہازوں میں لدی ہوئی جی ایم او سویابین ہے۔ یورپ میں جی ایم او ٹیکنالوجی کے تحت پیدا کردہ فصلات‘ اناج اور زرعی پیداوار پر پابندی ہے؛ تاہم یورپ چونکہ زرعی خطہ نہیں ہے‘ اس لیے ان کو ایسی پابندی سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ نان جی ایم او فصلات‘ اناج اور زرعی پیداوار کو مارکیٹ سے مہنگے داموں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں‘ اس لیے ان کے یہ نخرے تو سمجھ میں آتے ہیں تاہم دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک جن میں زراعت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہاں جی ایم او ٹیکنالوجی سے تیار کردہ زرعی پیداوار‘ فصلات‘ اناج اور سبزیاں وغیرہ نہ صرف پیدا ہو رہی ہیں بلکہ وہاں استعمال بھی ہو رہی ہیں۔ اس میں سرفہرست امریکہ‘ برازیل‘ ارجنٹائن اور آسٹریلیا ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت میں جی ایم او ٹیکنالوجی کے تحت زرعی پیداوار میں اضافہ ہمارے سامنے ہے۔
امریکہ میں اس ٹیکنالوجی سے تیار کردہ مکئی کی فی ایکڑ پیداوار ایک سو پینتیس من سے زیادہ ہے جبکہ چین میں یہ پیداوار ستر من فی ایکڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ چین ایک معاہدے کے تحت اب اپنی مکئی کی فصل کی آئندہ ساری منصوبہ بندی نئی جی ایم او ٹیکنالوجی پر لا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جی ایم او ٹیکنالوجی آخر ہے کیا؟ (جاری)